Saturday 30 January 2016

Trend of beautification among males by Rafay

Let me know what changes u have made? if some changes why u did not changed
the file name?
فیچر
مردوں کا بیو ٹی سلون کی طر ف بڑ ھا تا ہو ا رجحان 
محمد رافع خان

جہاں خواتین کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ اپنے حسن میں اضا فے کے لیے اپنے شو ہر کی تنخواہ کا بیشتر حصہ بیو ٹی پا رلر میں خر چ کر تی ہیں وہیں ہمارے مر د حضرات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ تنخواہ کی کثیر تعداد بیو ٹی سلون پر خر چ کر دیتے ہیں ۔ آخر خوبصورت دکھنے کا ان کو بھی حق ہے ۔ جہاں پہلے مر د صر ف بال کٹوانے کو اپنا حسن سمجھتے تھے ۔ وہاں اب خواتین کی دیکھا دیکھی انہیں یہ بہت کم لگنے لگا ہے ۔ اسی لیئے ہمارے نو جوان کیا بزر گ بھی اکثر سلون پر دکھائی دیتے ہیں ۔ 

  مر دوں نے سو چا کہ اگر خواتین بیو ٹی پارلر جا کر خو د پر چار چاند لگوا سکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں۔مرد حضرات بیوٹی سلون جا کر اپنے حُسن میں اضافہ کرتے ہیں جہاں صر ف بال کی کٹنگ ہی نہیں بلکے فیشل ، تھریڈنگ، ویکس،اور نہ جا نے کس کس قسم کے تجر بے اپنے آپ پر کر تے ہیں۔اسمارٹ ان بےوٹی سلون کے مالک عادل علی کا کہنا ہے کہ حیدرآباد میں بیوٹی سلون کا سلسلہ ۰۸۹۱میں شروع ہوا پہلا بیوٹی سلون گاڑی کھاتہ میں شمع سلون کہ نام سے کھولا گےا۔ کہتے ہیں کہ ہر شعبے میں خواتین مر د سے کم نہیں مگر یہ کہا جائے تو بہتر ہے کہ ہمارے مر د خواتین سے کسی طرح کم نہیں۔

 حیدرآباد میں اس وقت ۰۵ سے زیادہ بیوٹی سلون ہیں۔ اگر شا دی بیاہ کی بات کی جائے تو شا دی سے کا فی عرصے پہلے ہی دلہا کے بیو ٹی سلون کے چکر شروع ہو جا تے ہیں اور شا دی کے دن ان کا نقشہ ہی بدل دیاجاتاہے ۔ جہاں پر بیو ٹی سلون پر بڑھا تا ہوا رش نظر آ تا ہے وہاں پر حجام کی دکانیں اس کے بر عکس دیکھائی دیتی ہیں اور ان میں تعداد ان لوگوں کی ہو تی ہیں جو مہنگائی کی وجہ سے بیو ٹی سلون کا رخ نہیں کر پا تے ۔ 

گلوبل بیوٹی سلون کے حجام محمد نوید کا یہ کہنا ہے کہ مردوں میں بیوٹی سلون کی طرف بڑہتی ہوئی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ یے بھی ہے کہ فلمی اداکاروں کو دیکھ کر مرد حضرات کہ دل میں یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ وہ بھی اُن کی طرح دکھائی دیں ۔محمد نوید کے مطابق مرد حضرات کاپہلے سے زیادہ بیوٹی سلون کا رخ کرنے کی وجہ ماحول میں تبدیلی بھی ہے پہلے سڑکوں پر نا تو اتنا زیادہ ٹریفک ہوتا تھا اور نا ہی ٹریفک کی وجہ سے دھول مٹی، مگر اب بڑہتے ہوے ٹریفک کی وجہ سے ماحول میں دھول اور مٹی بھی بڑھ گئی ہے جس سے زیادہ تر نقصان موٹر سائکل سوار کو ہوتا ہے۔ دھول اور مٹی ان کے چہرے اور بالوں کو نقصان دیتی ہے جس کی وجہ سے بال روکھے اور بےجان ہوجاتے ہیں اور چہرے کی سطح بھی خراب ہو جاتی ہے۔ بالوں کی رونق واپس حاصل کرنے کے لیے مرد حضرات بالوں میں پروٹین کا استعمال کرتے ہیں اور چہرے پر فیشل کرواتے ہیں۔

  ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کہ مقابلے حیدرآباد میں اس درجے کہ بیوٹی سلون نہیں ہیں جس درجے کہ کراچی میں موجود ہیںان کی کوشش ہے کہ بیوٹی سلون کو بہتر سے بہتر بنائیں تاکہ لوگوں میں مضید دلچسپی پیدا ہو۔ عید ہو یا کوئی تہوار مرد حضرات خاص طور پر اپنے حسن میں اضافے کے لیے بیو ٹی سلون کا رخ کر تے ہیں۔ خا ص طور پر عید کے مو قع پر چاند رات پر بیو ٹی سلون میں خا صہ رش دیکھائی دیتا ہے ۔ 

مر د حضرات مہینے میں ایک یا دو مر تبہ بیو ٹی سلون کا رخ ضرور کر تے ہیں ،چا ہے وہ بال کٹوا نے کے غرض سے ہو یا فیشل وغیر ہ کے مقصد سے ۔بیوٹی سلون پر آنے والے مرد حضرات کا کہنا ہے کے جو کام میں صفائی بیوٹی سلون کہ کاریگروں کہ ہاتھ میں ہے وہ کسی عام حجام میں نہیں اور ان کہ یہ بھی کہنا ہے کہ مہینے بھر کی دھول مٹی جو ان کہ چہروں میں اندرونی طور پر جمی ہوتی ہے اس کی صفائی کہ لیے بیوٹی سلون کا رخ کرنا پڑہتا ہے۔

ہر مرد کی خواہش ہو تی ہے کہ وہ ظاہری طور پر بہتر دکھے ۔ اسی وجہ سے مردوں کا بیو ٹی سلون کی طر ف بڑھاتا ہوا رجحان دیکھائی دیتا ہے۔کسی عام حجام سے زیا دہ بیو ٹی سلون کو ترجیح دینے کی وجہ سے یہ بھی ہے کہ بیوٹی سلون کا ما حول کسی عام حجام کی دکان سے زیا دہ بہتر ہو تا ہے ۔ پرُسکون اور آرام دہ ماحول بیو ٹی سلون کی طر ف دلچسپی کو بڑھا تا ہے ۔

 حیدرآبا د کے مشہو ر بیو ٹی سلون لکز،بوڈی فوکس، کلیپر،اسمارٹ ان وغیر ہ ہیں۔ جو کہ اپنی قیمتوں کے ساتھ ساتھ اپنے کام سے بھی مشہور ہیں۔ کسی عام حجام کی دکان پر صفائی کا کوئی خا ص انتظام دیکھائی نہیں دیتا ۔ مگر بیو ٹی سلون کی کہانی اس کے بر عکس ہے۔ 

رول نمبر: 2K14/MC/140
 محمد رافع خان 
کلاس: BS-III 



When it was filed? Was it filed in due date? Feature is always reporting based. Some quotes, comments from related people



رول نمبر: 2K14/MC/140
نام: محمد رافع خان 
کلاس: BS-III 

فیچر
مر دوں کا بیو ٹی سلون کی طر ف بڑ ھتا ہوا رجحان


جہاں خواتین کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ اپنے حسن میں اضا فے کے لیے اپنے شو ہر کی تنخواہ کا بیشتر حصہ بیو ٹی پا رلر میں خر چ کر تی ہیں وہیں ہمارے مر د حضرات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ تنخواہ کی کثیر تعداد بیو ٹی سلون پر خر چ کر دیتے ہیں ۔ آخر خوبصورت دکھنے کا ان کو بھی حق ہے ۔ جہاں پہلے مر د صر ف بال کٹوانے کو اپنا حسن سمجھتے تھے ۔ وہاں اب خواتین کی دیکھا دیکھی انہیں یہ بہت کم لگنے لگا ہے ۔ اسی لیئے ہمارے نو جوان کیا بزر گ بھی اکثر سلون پر دکھائی دیتے ہیں ۔ 

مر دوں نے سو چا کہ اگر خواتین بیو ٹی پارلر جا کر خو د پر چار چاند لگوا سکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں۔مرد حضرات بیوٹی سلون جا کر اپنے حُسن میں اضافہ کرتے ہیں جہاں صر ف بال کی کٹنگ ہی نہیں بلکے فیشل ، تھریڈنگ، ویکس،اور نہ جا نے کس کس قسم کے تجر بے اپنے آپ پر کر تے ہیں۔حیدرآباد میں بیوٹی سلون کا سلسلہ ۱۹۸۰ ؁میں شروع ہوا پہلا بیوٹی سلون گاڑی کھاتہ میں شمع سلون کہ نام سے کھولا گیا۔

کہتے ہیں کہ ہر شعبے میں خواتین مر د سے کم نہیں مگر یہ کہا جائے تو بہتر ہے کہ ہمارے مر د خواتین سے کسی طرح کم نہیں۔ 
حیدرآباد میں اس وقت ۵۰ سے زیادہ بیوٹی سلون ہیں۔ اگر شا دی بیاہ کی بات کی جائے تو شا دی سے کا فی عرصے پہلے ہی دلہا کے بیو ٹی سلون کے چکر شروع ہو جا تے ہیں اور شا دی کے دن ان کا نقشہ ہی بدل دیاجاتاہے ۔

 جہاں پر بیو ٹی سلون پر بڑھا تا ہوا رش نظر آ تا ہے وہاں پر حجام کی دکانیں اس کے بر عکس دیکھائی دیتی ہیں اور ان میں تعداد ان لوگوں کی ہو تی ہیں جو مہنگائی کی وجہ سے بیو ٹی سلون کا رخ نہیں کر پا تے ۔ 
ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کہ مقابلے حیدرآباد میں اس درجے کہ بیوٹس سلون نہیں ہیں جس درجے کہ کراچی میں موجود ہیں ان کی کوشش ہے کہ بیوٹی سلون کو بہتر سے بہتر بنائیں تاکہ لوگوں میں مضید دلشسپی پیدا ہو۔


 عید ہو یا کوئی تہوار مرد حضرات خاص طور پر اپنے حسن میں اضافے کے لیے بیو ٹی سلون کا رخ کر تے ہیں۔ خا ص طور پر عید کے مو قع پر چاند رات پر بیو ٹی سلون میں خا صہ رش دیکھائی دیتا ہے مہینے میں ایک یا دو مر تبہ بیو ٹی سلون کا رخ ضرور کر تے ہیں ۔ چا ہے وہ بال کٹوا نے کے غرض سے ہو یا فیشل وغیر ہ کے مقصد سے ۔بیوٹی سلون پر آنے والے مرد حضرات کا کہنا ہے کے جو کام میں صفائی بیوٹی سلون کہ کاریگروں کہ ہاتھ میں ہے وہ کسی عام حجام میں نہیں اور ان کہ یہ بھی کہنا ہے کہ مہینے بھر کی دھول مٹی جو ان کہ چہروں میں اندرونی طور پر جمی ہوتی ہے اس کی صفائی کہ لیے بیوٹی سلون کا رخ کرنا پڑہتا ہے۔
ہر مر د کی خواہش ہو تی ہے کہ وہ ظاہری طور پر بہتر دکھے ۔



اسی وجہ سے مر دوں کا بیو ٹی سلون کی طر ف بڑھاتا ہوا رجحان دیکھائی دیتا ہے۔کسی عام حجام سے زیا دہ بیو ٹی سلون کو تر جیح دینے کی وجہ سے یہ بھی ہے کہ بیوٹی سلون کا ما حول کسی عام حجام سے زیا دہ بہتر ہو تا ہے ۔ پر سکون اور آرام دہ ماحول بیو ٹی سلون کی طر ف دلچشپی کو بڑ ھا تا ہے ۔


حیدرآبا د کے مشہو ر بیو ٹی سلون لکز،بوڈی فوکس، کلیپروغیر ہ ہیں۔ جو کہ اپنی قیمتوں کے ساتھ ساتھ اپنے کام سے بھی مشہور ہیں۔ کسی عام حجام کی دکان پر صفائی کا کوئی خا ص انتظام دیکھائی نہیں دیتا ۔ مگر بیو ٹی سلون کی کہانی اس کے بر عکس ہے۔ 



Classical romantic stories and today's youth


آرٹیکل

رول نمبر: 2K14/MC/140
نام: محمد رافع خان
کلاس: BS-III 


پرا نے رومانوی قصے اور ان کا آج کے نو جوانوں پر اثر


کہا جا تا ہے کہ اگر آپ اپنے آج میں ہیں تو اپنا کل بھی یا د رکھیں۔ اگر کل آپکا حسین ہے تو اسے ساتھ لے کر چلیں۔ مگر ہماری نو جوان نسل اور کچھ کرے یا نہ کرے پر ا نے محبت بھر ے رومانوی قصے ضرور ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ چا ہے بات ہو ہیر رانجھا کی یا بات کریں شاہجہاں اور ممتاز کی سسی پنو یا شیری فرھاد یا رومیو جو لیرٹ وغیر ہ ۔ ہمارے نو جوان خو د کو ان ہی قصوں کا کر دار سمجھ کر مجنو اور لیلہ بن کر گھوم رہے ہیں۔


 سب سے زیا دہ نقصان اس میں ان کا ہو تا ہے۔ جو واقعی خو د کو اس کر دار میں ڈال کر یہ کر دار خو د پر حا وی کر لیتے ہیں اور خو د کو ان کرداروں سے منسلک کر تے ہیں ۔ یہی نہیں پا گل پن کی انتہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان ناموں سے پکار نے لگتے ہیں۔ اس میں زیا دہ تعداد پڑ ھنے والے لوگوں کی ہو تی ہے جو کہ اسکول کی زندگی سے ہی خو د کو ان کرداروں میں ڈھال لیتے ہیں ۔ اسکول کالج یونیور سٹی کی زندگی تک پہنچنے تک انہوں نے کتنی ہی بار محبت کر لی ہو تی ہے۔

کچھ لو گ خو د پر اس محبت اثر نہیں ڈالتے اور جو لو گ اس میں بری طرح شامل ہو کر اپنے اوپر حاوی کر کے خو د کو ان ہی کرداروں میں سے سمجھنے لگتے ہیں ان کو لگتا ہے کہ ان کا انجام بھی ایسا ہو نا چا ہیے کسی اچھی کھانی کا ہوتا ہے ۔ پہلے تو یہ سب قصے صر ف کتابوں تک محدو د تھے مگر آج کل میڈیا کے ذریعے ان قصوں پر ڈرامے اور فلمیں بنائیں گئیں ہیں۔


جو آج کل بچہ بچہ دیکھ رہا ہے ۔ اور سو چتا ہے کہ ہم مل کر نہیں جی سکتے تو مر جا نا ہی بہتر ہے۔ بے شک یہ قصے جھو ٹے نہیں ہیں ان کی اپنی سچائی ہے مگر یہ اس زما نے کے قصے ہیں جب نفسا نفسی کا دور نہیں تھا۔ جب لو گ سچے تھے دھو کہ دینا ان کی فطر ت میں نہیں تھا۔ مگر آج کل کے نو جوان ان سب باتوں سے بے خبر اپنی ہی دھن میں ہو کر رہ رہے ہیں ۔ جوان کے دل میں آ رہا کر لیتے ہیں۔ ایسے کتنے ہی نو جوان لڑ کے اور لڑکیاں روزانہ بے نام سی محبت کے بھیت چڑ رہے ہو تے ہیں۔ 


ہسپتال میں ایسے کتنے ہی عاشق مر تے ہو ئے دیکھے جا تے ہیں جو صر ف اپنے محبوب کے لیے زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں جن سے صر ف کچھ عر صے کی محبت ہو تی ہے ۔ اور بھول جا تے ہیں کہ اپنے ما ں باپ اور ان کے اپنوں کو جو ان کی زندگی کی دعائیں دن رات مانگتے ہیں ۔

اگر پرا نے قصوں کی بات کر یں اور ان کی تاریخ پڑ ھی جا ئے تو جان لینگے کہ محبتیں شروع کیسے ہوئی اور ان کا انجام کیا تھا ۔ شاہجہاں جس کے لیے ایک بات مشہو ر ہے کہ ان کی محبت کی مشہو ر نشانی تاج محل ایک خوبصورت محل اپنی بیوی کے لیے بنایا ۔ وہ اپنی بیوی سے بہت پیا ر کر تے تھے ان کی بیوی جن کا نام ممتاز تھا ان کے لیے کہا جا تا ہے کہ وہ شاہجہاں کی 14ویں بیوی تھیں۔ ان کے لیے بنا ئے گئے محل کو دیکھ کر شاہجہان نے اپنے مزدوروں کے ہاتھ کٹوا دیئے تاکہ ایسا محل کوئی دوبارہ نہیں بنا سکے۔



یہ کس طرح کی محبت تھی جس میں اپنی خواہشات اور خوشیوں کے لیے دوسروں پر ظلم کیا گیا تھا ۔ ہمارے نوجوانوں کو وہ محبت تو نظر آئی جو انہوں نے اپنی بیوی سے کی مگر وہ ظلم نظر نہیں آ یا جو انہوں نے جنونی پن میں آکر اپنے مزدروں کے ساتھ کیا۔ خیر یہ تو بادشاہ قصہ تھا ۔ اگر شہزادوں کی بات کی جائے تو وہ بھی کم نہیں ۔ شہزادہ سلیم اور انار کلی کے قصے بھی مشہو ر ہیں۔ انار کلی کو محبت کی سزا یہ دی گئی کہ اس کو زندہ دیواروں میں چنوا دیا گیا کیا آیا اس کے حصے میں۔ شہز ا دہ سلیم نے اس کے مر نے کے بعد بھی کا فی عر صہ اسی جگہ حکمرانی کی ۔

آج کے دور میں نہ تو کوئی با دشاہ ہے نہ کوئی شہزا دہ نو جوان خو د کو خو د ہی سزا دے رہے ہیں۔ نہ ان کو اپنے مستقبل کی فکر ہے نہ کل کی پر واہ ۔ ان قصوں کو خو د پر حا وی کر کے بغیر یہ جا نے کہ اس کا انجام کیا ہوا تھا؟ صر ف ان کر داروں کا نام اور تھو ڑی بہت کہانی سن کر وہ تصور کر لیتے ہیں کہ ہم بھی ان ہی کرداروں میں سے ایک ہیں



۔ زندگی کا مقصد صر ف یہی تک ہے اور یہ وہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہمیں بھی ایسے ہی یا د رکھا جائے گااور ہمارے قصوں کو دھرایاجائے گا۔ ہم پیار کی ایک مثال قائم کرینگے اور ہمارے نام کی بھی مثالیں دی جائینگی مگر ما یو سی ان کے ہاتھ کچھ نہیں آ تا ۔ مستقبل الگ تباہ ہو جا تا ہے اورخدا کا دیا خوبصورت تحفہ جسے ہم زندگی کہتے ہیں اسی کی نا شکری کر تے ہیں اور اپنے لیئے مو ت کا سفر تعین کر لیتے ہیں۔



Mehndi of Mehar by Sajjad Lashari


Revised
سجاد علی لاشاری ماس کمیونیکیشن 2K14
رول نمبر: 163
کلاس: 3rd ایئر
(فیچر)
میہڑ کی مہندی

خواتین کا مہندی کے بغیر سجنا سورنا ہمیشہ ادھورا تصور کیا جاتا ہے اور اگر مہندی میہڑ کی ہو تو رنگ نکہارنے کے ساتھ ساتھ مہندی سرخ بھی ہو جاتی ہیں مہندی کی مناسبت سے میہڑ شہر ایک اپنی ہی انفرادیت رکہتا ہے میہڑ کی مہندی سندھ بہر میں اور اس کے مضافاتی علائقوں میں استعمال کی جاتی ہیں اور اسے تحفے کہ طور پر اندرونے اور بیرونے ملک بھی بھیجا جاتا ہے.

 مہندی ایک خاص قسم کہ ایک بیج سے اوگائی جاتی ہے اور پھر کڑی محنت کہ بعد اس کہ پتوں کو کارخانوں تک لیا جاتا ہے پھر اس کارخانوں میں مزدوروں کی مدد سے اس کو پیسا جاتا ہیں کچھ ایشیا ء اور کیمیکل ملا کر اسے زیادہ رنگ نکھارنے کے لیئے تیار کیا جاتا ہے اس کہ بعد تھلیوں میں پیک کیا جاتا ہے جس کہ بعد کارخانوں سے روانہ کر کے ڈیلروں کو بیج دیا جاتا ہے اس کہ بعد اسے اندرونے اور بیرونے سندھ میں تقسیم کرتے ہیں .


۔میہڑ کے مشہور دکاندار محمد صوفن کوسو نے مزید بات چیت کے دوران بتایا میہڑ کی مہندی جنگ آزادی سے بھی پہلے کی مشہور ایشیاء ہے اور اس مہندی کہ بھیج بھی ہندستان سے لائے گئے تھے میہڑ کی مہندی نے 1952 میں اپنی شوہرت کی بنیاد رکھی جس کہ بعد اس کی شوہرت کہ چرچے پورے بھارت میں کونج اٹھے۔

جنگ آزادی کہ بعد جب پاکستان الگ ہوا تو کچھ خاص کاریگر ہندستان میں رہ گئے تھے جس کہ بعد بچے کچے کاریگروں نے اس کے بنانے کے فارمولے کو مزید نکھارا اور ایک بار پہر سے میہڑ کی مہندی کو اپنی پہنچان ملی ۔اب سے چند سال پہلے پورے میہڑ شہر میں 15 مہندی کے کارخانے ہوتے تھے لیکن اب صرف 4 کارخانے اور 40 دکانیں ہیں اور کچھ لڑکے بھی ہیں جو کہ مہندی کے تھیلے اپنے ہاتھوں میں لیکر ریلوے اسٹیشن اور سپر ہائے وے پر بیچنے کے لیئے کھڑے ہو جاتے ہیں.


 مہندی کا ایک تھیلا 100روپے کا ہے لیکن اب کچھ مافیا نے مہندی میں ملاوٹ کی وجہ سے انتہائی کمی کی ہے جس کی وجہ سے فی تھیلا 50 روپیے سے 60 روپیے میں بیچا جا رہا ہے مزید میہڑ کے ایک قدیم موچی جو کہ بہت عرصے سے اپنا گذر سفر کر رہا ہے اس نے مزید مہندی سے جڑے ایک مشہور واقعہ کہ بارے میں مجھے بتایا کہ جہاں میہڑ کی مہندی کا ذکر آتا ہے وہی ایک حادثہ بھی دماغ میں اپنی جگہ لے لیتا ہے آج سے تین سال پہلے مہندی کہ کارخانے میں ایک نوجوان نے شرط پر مہندی کو پانی میں ملا کر پی لیا جس سے اس کی دماغ کی نسیں کمزور ہو کر فھٹ گئی اور موت واقعہ ہو گئی .


۔اس لڑکے کے خاندان والوں نے تین دن تک ہڑتال کی جس کے باعث پورا شہر بند رہا اس کے بعد مہندی کے کارخانے کے مالک اور لڑکے کے خاندان کے درمیان مذاکرات تہ پائے گئے جس کے باعث حالات زندگی معمول پر آگئی۔


میہڑ کی مہندی اس وجہ سے مشہور ہیں کیوں کہ یہ مہندی کیمیکل اور ہر ملاوٹ سے پاک ہے اس وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے میہڑ کی مہندی کے خریدار سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر ہم میہڑ کی ہی مہندی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ اس سے بال نہیں جھڑتے اور بالوں کی جڑوں کو کمزور ہونے سے بھی بچاتیں ہے ۔مہندی کے ایک دکاندار محمد مراد نے بتایا کہ مہندی یہی پر بنتی ہے اس وجہ سے ہمیں ایک تھیلی میں 25 روپیہ کا منافہ ہوتا ہے اور سائیڈ افیکٹ نا ہونے کی وجہ سے لوگ زیادہ خرید تے ہیں 

Friday 29 January 2016

Referred back- Interview by Hoor-e-Laiba

Too weak. This can not be taken as interview. they all questions are of introduction, where are view, opinion etc
Interview:Professor aijaz Siddiqui
By:Hoor-e-Laiba
Roll num: Mc/2k14/172

س: آپ کا نام کیا ھے؟
ج: میرا نا م اعجاز صد یقی ھے۔
س:آپ کی رہا ئش کہا کی ھے؟
ج: میری رہایش حیدرآباد کی ھے۔
س: تعلیم کا آ غاز کہا سے کیا؟
ج: تعلیم کا آغاز حیدرآباد سے ھی کیا۔اور پھر یو نیورسٹی سے نکل جانے کے بعد لندن چلا گیا P.H.D کرنے کے لأ
س:اپکا پسندید؂ہ سبجیکٹ کون سا ھے؟
ج: مجھے Mathematics پسند ھے۔

س: کتنے سال سے آپ پڑھا ر ھے ھیں؟
ج: 1970 سے میں پڑھا رھا ھو۔ اور مجھے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پڑھانے کا بھی سو ق ر ہا۔
س:اپکا اس فیلڈ میں آنے کا کو ءي مقصد؟
ج: بس یہ میرا شو ق تھا جو مجھے یہاں تک لے آیا۔
س:آپ کو کس چیز کا شوق ھے۔
ج:مجھے کتا بیں پڑھنے کا بہت شو ق ھے۔
س:آپ کی خصو صیات ؟
مجھے ہر کام میں پDisciplineپسند ھے
س:آپ کیا سمجھتے ھیں؟ پیسہ ہي انسان کے سب کچھ ھے؟
ج:نہیں پیسہ ہي سب کچھ نہیں ۔ انسان کے پاس شعور ہونا چا ہے
بہت سے میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ھے جن کہ پاس بہت پیسہ
ہوتا ھے۔ مگراُن کے پاس شعور نہیں ہوتا ۔
س:مجھے کوي میسج دینا چا ھنگے؟
ج: میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کو ہر کام میں محنت کرني چا یہے محنت سے ہي کا میا بي ملتي ہے۔

Profile of Muhammad Siddique Marham by Zain

which one is profile personality?
Zain Hyder Shah
ROLL NO: 2K14/MC/104

Profile: Muhammad Siddique Marham
Never Ending Life.



A Person can be a history by his contributions and achievements, but some turns history to roll up and come to them. Those people are soul of the creative lands. We have seen many poets and writers making a history but today I am elaborating a personality with the delightful heart. Who was the teacher of my grandfather and as well as he taught my father too, he is still alive and teaching the students. This man is 82 years old and known as “Marham”.

His uniqueness is everlasting struggle and a true dedication towards the literature. He talks loud on phone you will feel he’s very rude but when I sat with him he was very kind. He can softly and easily interpret the Persian poetry of Rumi. This will make wonder how can a person of this age remember the poetry of different languages. When he spoke up about his love for the poetry, He also talked about his love for a beauty of woman.

Life is unpredictable. Sometimes a person’s age becomes a circle of time limit and some stay and become an example for the descendants. For me Muhammad Siddique Marham is that person. His close friends told me that he loved a lady but never proposed her and this could be the reason behind his attachment to Mirza Ghalib’s poetry. How strange it is, that a person started teaching when he only passed exam of 7th standard. Well, he was the only student among the class who has been able to pass the exam of final in 1952. The mind is puzzling at a point that a person who is 82 years old can walk without a stick and he’s able to teach more than 100 students in a day.

He still remembers the Persian poetry. He easily interpret Mirza Ghalib, Faiz Ahmed faiz, Shah Abdul Latif Bhittai, Allama Iqbal, Maulvi Haji Ahmed Mallah and so many other poets from different languages of east.

Many people are living in the world for a reason, the reason can be a specific target and goal or for the big bank accounts but Muhammad Siddique thinks that the reason behind his strong stamina in the age of pre decade is might be the publication of his book. He cannot afford to publish it, well actually the book is about the different characters of Sufis.

He himself is a kindest Sufi but simultaneously he is against from the fact, that a person in the route of seeking the absolute truth but not following the basic principles of Deen. Muhammad Siddique loves the beauty of a lady without having the bad intention for a woman, he has a body language similar like Sufi but write against them. Muhammad Siddique’s inspiration is Allama Iqbal and his favorite poetry is “Kabhi aye haqeeqat e muntazir nazar aa libas-e-mijaaz main ka hazaron sajood e tarap rahe meri ek jabeen-e-niaz main”

Some days ago I went to meet him, his skin was so tired of life and his welcome voice was same as an aged person sound, but his courage and a perspective for life is like a young blood. Although Respected Marham is very tired of life but never want to die he said I never know how to swim in my childhood days some of my friends took me to the lake and told me to jump in the water, he jumped but never wished to swim again. Muhammad Siddique is from the descendants of a fishermen’s family and never learned swimming.

Status of mother toungues in pakistan


 نجيب الله چانڊيو رول نمبر 116
آرٽيڪل

There should be paragraphing
پاڪستان ۾ مادري ٻولين جي موجوده صورتحال


فطرت جي وسيع ۽ وشال دنيا ۾ هر مخلوق پنهنجي جذبات۽ خيالن  جو اظهار مخصوص آوازن ذريعي ڪري ٿي. جنهن لاءِ خلق ڪائنات جي مخلوق کي مخصوص ٻوليون ٿين ٿيون.جن ۾ قومي ٻوليون،علائقائي ٻوليون ۽ مادري ٻوليون شامل آهن. مادري زبان ماءُ جي ٻوليءَ کي چيو ويندو آهي جيڪا ٻار پنهنجي گھر ۾ سکي ۽ ڳالهائي ٿو، ۽ پنهنجي ارد گرد ٿيندڙ سماجي چرپر کي سمجھي ٿو. ان ڪري جتي قومي ۽ علائقائي زبانن جي اهميت آهي اتي مادري زبان مکيه حيثيت رکي ٿي.اسان جي ملڪ پاڪستان ۾ پنج صوبا آهن جن ۾ هر صوبي جي پنهنجي پنهنجي  صوبائي،علائقائي ۽ مادري زبان آهي .جهڙوڪ سنڌي،پنجابي،پشتو،بلوچي ۽ سرائڪي زبانون آهن جن ۾ هرهڪ ٻوليءَ جو پنهنجو شاعر آهي جيئن سنڌي جو شاه عبداللطيف،پنجابي جو وارث شاھ يا بلي شاھ، سرائڪي جو غلام فريد،پشتو جو خوشحال خان خٽڪ،بلوچي جو نصير گل خان هي سڀ شاعر ۽ اديب لسانيات جا ماهر آهن جن پنهنجي ٻولين جا گرامر ٺاهي انهن کي ترقي ڏياري ان ڪري انهن صوبائي ٻولين جي اهميت ۽ ادب کان انڪار نه ٿو ڪري سگھجي. پر صدمي جي ڳاله اها آهي ته پاڪستان ۾ موجود مادري زبانن لاءِ خطرا ڏينهون ڏينهن وڌندا پيا وڃن ۽ اهي مادري ٻوليون پنهنجن ئي صوبن۽ علائقن مان غائب ٿينديون ٿيون وڃن ۽انگريزي ،اردوزبانن کي فروغ مليل آهي جيڪي سرڪاري دفترن توڙي اسڪولن،ڪاليجن ۽ يونيورسٽين ۾ ڳالهايون ۽ پڙهايون وڃن ٿيون جنهن ڪري مادري زبانن جي اهميت ڏينهون ڏينهن گهٽجندي خطرناڪ موڙ تي پهچندي پئي وڃي .ايتري قدر جو نرسري کان ئي مادري ٻولين کي پڙهائڻ ۽ سيکارڻ اڻ اعلانيل طور نيڪالي ڏني وئي آهي بلخصوص سنڌ ۾ سنڌي جھڙي شاهڪار ٻولي کي به خانگي اسڪولن مان ڄڻ نيڪالي ڏني وئي آهي ۽ وڏي تعداد ۾ اهڙا تعليمي ادارا ڪراچي کان وٺي ڪينجھر تائين موجود آهن، جن ۾ سنڌي زبان نه صرف سيکارڻ تي پابندي آهي پر انهن اسڪولن ۾ سنڌي ڳالهائڻ تي به پابندي پيل آهي.حالانڪ سنڌ اسيمبلي جي 1972ع جي ٺهراءُ مطابق سنڌي لازمي پڙهائڻ قرار ڏنل آهي، پر ان تي ڪو به عمل نه ٿو ڪيو وڃي. جنهن ڪري اها صورتحال ڏکوئيندڙ آهي.انگريزي يا اردو زبانن جي اهميت کان ڪنهن حد تائين انڪار ناهي مگر صوبائي ٻولين کان انڪار هرگز نه ٿو ڪري سگهجي. ڳچ عرصي کان وٺي صوبن جو اهو مطالبو رهيو آهي ته  سندن ٻولين کي قومي ٻوليون قرار ڏئي انهن جو تحفظ ڪيو وڃي جيڪو مطالبو قومي اسيمبلي جي اسٽيڊنگ ڪاميٽي جي آڏو به ٿيندو رهيو آهي پر اسٽيڊنگ ڪاميٽي ان مطالبي کي هميشه نظر انداز ڪندي ان مطالبي کي قومي تشخص خلاف سمجھندي رهي آهي جيڪو عمل صوبائي ٻولين توڙي ملڪ ۾ رهندڙ قومن سان  سراسر زيادتي تي مبني آهي. ڇاڪاڻ ته پاڙيسري ملڪ هندستان ۾ ڪيترين ئي ٻولين کي قومي ٻولي جو درجو حاصل آهي، جنهن ۾ سنڌي ٻولي به شامل آهي. پر اتي ڪو  به ملڪي تشخص لاءِ ٻوليون خطرو ناهن بڻيون.مادري ٻولين کي اهميت نه ڏيڻ سان احساس محرومي جنم وٺي ٿي ۽ ملڪ ۾ رهندڙ عوام پنهنجي مادري زبانن ۾ لکڻ پڙهڻ کان محروم رهي ٿو ته ان سان هڪ اهم نقصان ٿئي ٿو ڇو ته بنسبت ٻين ٻولين جي پنهنجي مادري زبان سان دنيا جي علم کي پڙهڻ ۾  سمجھڻ آسان ٿئي ٿو ان ڪري ٻولين جي بنياد تي پيدا ٿيل مونجھارن کي ختم ڪرڻ لاءِ ملڪ ۾ شامل قومن جي تاريخي ٻولين جي اهميت کي سمجهندي قومي ٻولي جو درجو ڏئي، دفترن ۽ تعليمي ادارن ۾ پڙهائڻ ۽ سيکارڻ لازمي قرار ڏنو وڃي ته جيئن ملڪ ۾ شامل صوبن جي عوام جي ٻولي ۽ لولي نه صرف قائم رهي سگھي، پر هو علم کي پنهنجي زبانن ۾ سمجھي ملڪي ترقي ۾ پنهنجون سموريون صلاحيتون چڱي نموني ڪتب آڻي سگھن. 

Ghani Park Tando Allahyar by Misbah-ur-Ruda




غنی پارک
مصباح
ٹنڈوالہیار میں سیروتفریح کی بات آتی ہے تو لوگوں کی زبانوں پر غنی پارک کا نام سرفہرست رہتا ہے۔ ویسے تو ہر
 خوبصورت صبح کا آغاز مرغوں کی اذان ٬ چڑیاو ¿ں کے چہچہانے اور لوگوں کا مسجد کی طرف رخ سے ہوتا ہے لیکن ٹنڈوالہیار کی خواتین اور مرد حضرات کی صبح کا آغاز نماز کے بعد غنی پارک میں ورزش سے ہوتا ہے جہاں صبح سویرے ہی لوگ بہت بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ یہ پارک لڑکوں کے کھیل کے لیے ایک بہترین گراو ¿نڈ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

 سردیوں میں بوڑھے بزرگ دھوپ کھاتے ٬ چھوٹے بچے آپس میں کھیلتے اور نوجوان موبائل پر لگے نظر آتے ہیں جبکہ گرمیوں میں نوجوانوں اور بزرگوں کا رش تروتازہ ہوا کے لیے نظر آتا ہے رات کے ٹائم غنی پارک کو ڈیٹ پوائنٹ بھی کہا جاتا ہے۔

اس پارک جس جگہ ہے وہاں کچھ عرصہ پہلے دلدل ہوا کرتی تھی جسے اب بنا کر ایک خوبصورت پارک کا نام دے دیا گیا
ہے۔

شروع میں یہاں بچوں کے لیے جھولے لگائے گئے تھے جس سے یہ خاص بچوں کی توجہ کا مرکز بنا لیکن آہستہ آہستہ  بچوں کی یہ خوشی دور ہوگئی اور جھولے خراب ہونے کی وجہ سے انھیں ہٹا دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی تقریبات ہوتی ہیں جن میں ہر طرح کی سیاسی پارٹیوں پارٹیز کے جلسے، جلوس، شادی بیاہ کی تقریبات ٬ مینا بازار ٬ رنگ برنگے فیسٹیول ٬ فٹ بال٬ ٹینس٬ اور ہر طرح کے گیمز کھیلے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مختلف پروگرامز بڑی تعداد میں منعقد ہوتے ہیں۔ریلی میں جانے کے لیے لوگوں کو ایک مخصوص ٹائم دے دیا جاتا ہے اور پھر اسی ٹائم پر ریلی غنی پارک سے ہی نکالی جاتی ہے اور وہیں اختتام پزیر بھی ہوتی ہے۔ 

بچوں کا کہنا ہے کہ وہاں با قاعدہ کرکٹ کے لیے پچز ہیں جس کی وجہ سے کھیل کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے اس لیے ہم کھیل کے لیے غنی پارک کا رخ کرتے ہیں یہاں تازہ ہوا سے کھیل میں ہار اور جیت کا مقابلہ بہت زبردست ہوتا ہے اور ہم سب دوست یہاں کھیل سے زیادہ غنی پارک کا مزہ لینے آتے ہیں۔ 

الیکشن کے زمانے میں ”جیتے گی بھئی جیتے گی“ تو کبھی ”راجہ کی آئے گی بارات“ جیسی مختلف قسم کی آوازوں سے گونجتا ہے جہاں ایک طرف یہ لوگوں کے لیے ایک تفریح کی جگہ ہے وہیں جو لوگ اس کے آ س پاس رہتے ہیں ان کے لیے پریشانی کی بھی وجہ ہے ان سب کے لیے روز روز کا شوروگل ان کی زندگی میں بہت سی پریشانیوں کا سبب بنتا ہے لیکن زےادہ تر لوگوں کا دھیان اب اس آواز کی طرف نہیں جاتا کیونکہ انھیں اب ان آوازوں کی عادت سی ہوگئی ہے 

غنی پارک کو سرکاری باغ کہنا درست نا ہوگا کیونکہ یہ ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی کی بدولت دلدل سے غنی پارک کی شکل میں منتقل ہوا کوئی بھی ریلی ہو ٬ ۱۴ اگست کا جشن ہو یا نئے سال کی آتش بازیاں سب سے پہلے غنی پارک ہی میں رونق کا سماں ہوتا ہے

غنی پارک میں ٹورنامینٹ ہوتے ہیں جس میں بہت سی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں ٹنڈوالہیار میں ۳ سال پہلے مختلف اسکولوں نے مل کر ٹورنامینٹ رکھا جس میں تمام اسکولوں نے آگے بڑھ کر حصہ لیا لیکن اس سے پہلے اسکولوں نے اپنی ٹیمیں تیار کرنے کے لیے پورے اسکول سے بچوں کو چن چن کر نکالا اور ایک مضبوط ٹیم تیار کی اور پھر ان کا آپس میں میچ رکھا نویں کلاس کا دسویں کلاس سے اور گیارہویں کلاس کا بارہویں کلاس سے پھر ان چارو ں ٹیموں میں سے جن دو ٹیموں نے فتح حاصل کی ان کا ایک دوسرے سے فائنل کروایا گیا اور فائنل جس ٹیم کا مقدر بنا اس کو اسکول کی طرف سے ددسرے اسکولوں کی فائنل ٹیم سے مقابلے کے لیے بھیجا گیا اور آ خر میں ایگل ہاو ¿س ہائیر سکینڈری اسکول نے پورے ٹنڈوالہیار سے کامیابی حاصل کی اور دوسرے نمبر پر فاو ¿نڈیشن پبلک اسکول نے دوسری پوزیشن حاصل کی 

اس میچ کے دوران اسکولوں کی لڑکیاں کالے برکھے میں میچ دیکھنے آتیں تھیں جس سے ٹنڈوالہیار کے لوگوں نے ایک نیا ہی نام نکال دیا تھا ’ غنی پارک میں کالے کوے ‘ اس کے علاوہ رمضانوں میں بھی ٹورنامینٹ ہوتے ہیں اور ٹیمیں دوسرے شہروں یا گاو ¿ں سے آکر حصہ لیتی ہیں اور ساتھ ہی ڈھول بجا کر ماحول کو تازگی بغشتے ہیں اور اپنی اپنی ٹیموں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں

غنی پارک لوگوں کے لیے ایک مکمل گزرگاہ ہے غنی پارک کے سامنے رہنے والے ایک لڑکے کا کہنا ہے کہ اچھی ہوا کی وجہ سے میرے والد صاحب ایک دفعہ گرمی کے باعث اور لائٹ نا آنے کی وجہ سے تختہ لگا کر غنی پارک میں سو رہے تھے کہ اچانک ایک کتا بھونکا ان کی آنکھ کھلی تو انھوں نے کتے کو اپنی طرف آتا دیکھا وہ ایک دم چونک اٹھے اور سامان کی پرواہ کئے بغیر گھر کی طرف
 دوڑ لگائی غنی پارک لوگوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے غنی پارک کبڈی اور مرغے کی لڑائیوں کا اہم مرکز ہے ویسے تو غنی پارک ایک عام سا میدان ہے لیکن لوگ کسی طور بھی اسے عام نہیں سمجھتے


Misbah-ur-Ruda
2k14/MC/52
Feature: Gani Park
Medium : Urdu 

Profile of Ghulam Mustafa Abbasi by Faryal



 پروفائل غلام مصطفٰي عباسي
فريال عباسي -
 
دڙي شھر ۾ ھڪ مڊل ڪلاس خاندان کان تعلق رکندڙ غلام مصطفٰي عباسي جنهن جي پيدائش 1938 ۾ دڙي شھر ۾ ٿي . تڏھن جي دور ۾ پاڪستان ۽ انڊيا هڪ قوم هئي ۽ تعليم حاصل ڪرڻ ھڪ عام ماڻهو جي لا۽ ڪافي مشڪل هو، اهو ائين جو تنهن جي زماني ۾ تعليم حاصل ڪرڻ جي لا۽ پري وڏن شھرن وڃڻو پوندو هو ڇو تہ ننڊڙن شھرن ۾ صرف ڏھ درجا پڙھايا ويندا هئا  اڳئي دور ۾ مائيٽ گهڻو ڪري پنهنجي ٻارڙن کي ڪاروبار ۾ آڻندا هئا تہ جئين هنن جو اهو ڪاروبار نسل بہ نسل موجود هجي ور اڄ جي دور ۾ اها سوچ آھستس آھستي ختم ٿيندي اچي .

غلام مصطفٰي عباسي کي پڙھڻ جو شوق هو ۽ والي بال جو هڪ بهترين رانديڪر هو ۽ ميٽرڪ کان پو۽ هائير ايجوڪيشن لا۽ نورمحمد هائي اسڪول حيدرآباد ۾ داخلا ورتي يارنهن ڪلاس جي تعليم حاصل ڪندي وقت نورمحمد هائي اسڪول ۾ والي بال جو ڪيپٽن ٿي رهيو جڏھن ٻارنهن ڪلاس پڙهي ورتئين تہ پنهنجي شھر ڏانهن واپس رک ڪيائين ۽ والي بال جي هڪ بهترين ٽيم جوڙين جنهن ۾  اڄ بہ  انهن  جي رڪارڊ ۾ هڪ بهترين رانديڪر جي حوالي نالو موجود آهي .

1955  ننڊي عمر ۾ عباسي لائبريري کوليائين جنهن ۾ اسلامي تاريخ ، سنڌي تاريخ، ادب، شاعري، جاسوسي ادب، ۽ ٻين
موضون جا ڪتاب پڻ شامل هئا انهي ڪتابن مان شھر جي تمام نوجوانن ، شاگردن، ۽ شھرين برپور فائدو ورتو اڄ بہ اها لائبريري  سندس گهر ۾ موجود آهي پر شھرين جي لاپرواهي جي موجب ڪجھ ڪتاب وڃائجو ويا . انهن لائبريري مان اڄ سندس نسل بہ پڻ فائدو وٺي رهي آھي .

پاڻ زنده دل تبيعت جو ماڻھو آهي هميشہ بيسهارا ماڻهون جي مدد ڪرڻ سندس اولين ترجيح رهي آهي پاڻ ڪڏهن ڪنهن جو محتاج نہ بڻائين هميشہ محنت مزدوري ڪري پنهجو خرچ ڪڊئين گذر سفر ڪرڻ لا۽ سڄي عمر سونارڪو ڪم  ڪندو رهيو سونارڪي جو هنر حيدرآباد مان سکهي پو۽ پنهنجي باڻيجن کي بہ سکيا ڏنائين دڙي شھر ۾ سندس مڪان هڪ اعلا درجي تي آهي هڪ بهترين رانديڪر ، هڪ بهترين استاد، هڪ بهترين سونارو اڄ بہ شھر جي ماڻھو توڙي ٺٽي شھر مان بہ ماڻهو پنهنجي سونارڪي ڪم سان ايندا آهن پر اڄ ھو هن حالت ۾ ناهي جو سونارڪو ڪم ڪري سڳهي ڪڻس پٽ جي گهڻي خواهش هئي پر الله کي جيڪو منظور هوندو آهي اهو ئي ٿيندو آهي ڪڻس ماشاالله پنج ڌيئرون آھن  ۽ پنهنجي ڀائيٽن جي پڙھائي ۾ برپور ڪردار ادا ڪيائين جيئن عمر وڌندي رهي هڪ مايوسي ۾ مبتلا ٿيندو رهيو سونارڪو ڪم تڪ ڇڏي ڏنائين ڪافي بيمار رهڻ لڳو هاڻي هو پنهنجي گهر ۾ آرام ڪندو آهي ۽ فريش ٿيڻ لا۽ گهر جي پاسي اوطاق تي وڃي پنهنجي دوستن سان ڪچهري ڪري واپس موٽندو آهي .

جنهن پنهنجي سموري زندگي محنت مزدوري ۾ گذاري انسانن سان محبت ۽ پيار وارو رشتو قائم رکيائين ۽ پنهنجي نسل سميت سڀنين کي محبت ۽ پيار جو سبق ڏيندو اچي چاهي امير هجي يا غريب هجي سڀنين سان هڪ هي رويو رکندو آهي اڄ انهن جا چاهيندڙ شاگرد انهن لا۽ دعاڳو آهن تہ شل اهڙا استاد اسان جي ملڪ ۽ پوري دنيا ۾ هجن تہ نفرت جي جنگ ختم ٿي سڀ پيار ۽ محبت سان رهن . 


فريال عباسي 
  2k14/MC/119 :رول نمبر

Abdul Aleem Khanzado Profile by Tehniat Khan

Nothing unique, its CV type


TEHNIAT KHAN-PROFILE
2K14-MC-99
       PROF: ABDUL ALEEM KHANZADA

“Success is a result of enthusiasm without it, nothing worthwhile was ever achieved.” Such an example is Prof.engr Abdul Aleem Khanzada. He came to life on June 1st in 1952. He was born Sakrand, Sindh. Whereas he started his educational life from his home town. He was matriculated from science group by nearby school, D.C high school Sakrand district in 1969 he scored 1st division and further he stood 2nd division in the year 1971 in Intermediate with pre-engineering group from Government college Nawabshah, Sindh.

As he was an intelligent student of his time, further he studied B.E in Chemical department with 2nd and 3rd position is four years, whereas he also finished his LLB in 1981 from University of Sindh. While he was studying law his family forced him to get married. Besides getting married he continued his studying life and married life together also studied hard. He went to London for the training of Educational Management in the year 1992 from University of Sussex Brighton United Kingdom (UK).

Though he was working as a lecturer (BS-17) in Mehran University College of Engineering since 23rd October, 1976 till 8th September, 1982; after that as an assistant Professor (BS-18) and Associate Professor (BS-19) from 1982 till February, 1996.

With his abilities, he raised up his children with good education with the same spirit. In the year 1998, he was served as Controller of Examination (BS-20) at Mehran University till July, 2007. Soon he became the (BS-20) for Board of Intermediate Secondary Education for Mirpurkhas. He worked until 2011. And then chairman for Hyderabad Board of Intermediate till the year 2014. Within the same year he got retired by his profession.

He is an example for the upcoming generation, studying hard and working continuously with his practical life might be difficult for him but he had the spirit to do it. He gave his 38 years in the vast field of education. He the creature and example for the youth.

Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi


Department of Media and Communication Studies, University of Sindh

ZAYNAB SHAH Interview by Tehniat


Interview by Tehniat Khan 
DJ ZAINY (ZAYNAB SHAH)

Syeda Zaynab Shah is the youngest DJ of Pakistan. 
She is 18 years old was born on March 17th in the year 1997. 
She was raised up in Hyderabad. Music seems her life. 
It’s what she says her soul and eternal love.

Hyderabad. Music seems her life. It’s what she says her soul and eternal love.

Q: When and how did you started your career in music as DJ?
Ans: Well, I was into music since I had my senses developed. I used to make fun of songs by playing multiple tracks at the same time. Apart from that I used to participate in computer exhibition at my school. Since nursery so I was good at playing instruments and made experiments to learn and play in front of crowds without any flaw.

Q: How did you convinced your family that they may allow you for this field?
Ans: As I mentioned, that I’m into music since my childhood so it wasn’t difficult to convince my family. My father use to say me every time that do whatever you like he supported me for my passion.

Q: What about your family, how many family members you are and where did you belong from?
We are six family members. My mother father a brother and three sisters including me. We live separately and we belong from Morro Sindh.

Q: While continuing your normal life, did you ever aimed to be a DJ at such a young age? Besides this what did you aimed to be?
Ans: Well, to be honest I never aimed to be a DJ, my aim was to be a Civil Engineer. I cleared the test two times but unexpectedly due to some issues I couldn’t join University. I was performing as DJ .
Q: You are the youngest DJ of Pakistan, how it feels to you?
Ans: It feels extremely good, most of the people admire me. It’s completely fun being a public figure you hearing the positive vibes and yes the most interesting hearing to negative ones.

Q: Did you faced any difficulties in your past life?
Ans: Yes! I did faced many of the problems the reason behind this is that am a female DJ. Apart peoples are having a narrow mentality. Although, I react as a bitch in front of them; meanwhile the beginning was very hard for me. I am a girl they are not allowed me to abuse or to approach me. As time passed everything settled itself.

Q: As music seems your passion, how many times you have performed live?
Ans: I have been playing live about 34 times including the public and private events.

Q: When did you performed first and that time what was your age?
Ans: in the mid of February, it was De-Terrace party at Cantonment. I was just 17 that time.

Q: How you manage your DJ life and family together?
Ans: It’s easy managing the family and my career life at the same time, while when I have loads of events my family do get disappoint for me.

Q: How much you have studied? Did your DJ life affected on your studies?
Ans: So far I just cleared my intermediate in Engineering group. Likewise I did appeared for universities test and I cleared them too but I couldn’t appear in the interview in Quaid-e-Awam University. I can’t leave my home town so I continued music now. For the upcoming year I will be joining Mass Communication in Sindh.

Q: If you get a chance to motivate girls for the field of music, what will be your message to them?
Ans: My message to the girls will be, “Just be bold, and face the consequences around you. Trust yourself, be determined to your aim.”

Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi


Department of Media and Communication Studies, University of Sindh

Thursday 28 January 2016

Circuit House Hyderabad


سمعیہ کنول
رول نمبر ۹۵
فیچر
سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد
سمعیہ کنول
 سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد ، شہر حیدرآباد کی ان قدیم عمارتوں میں سے ہے جو انگریزوں کی تعمیر کردہ ہیں اور تا حال زیرِ استعمال ہیں۔ سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد انگریزوں نے ۱۹۱۲ میں تعمیر کرواےا تھاجو ان کے سرکاری افسروں کے لئے ایک مخصوص عمارت تھی جہاں دوسرے شہروں سے آئے ہوئے افسران صاحبان ٹھرا کرتے تھے۔آج بھی سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد اسی کام کے لئے استعمال کےا جاتا ہے مگر اب فرق اتنا ہے کہ اب یہ سرکاری عمارت حکومت پاکستان کے افسران کے لئے مخصوص کر دی گئی ہے۔

سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد میں رکنے والے ناموں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بڑے بڑے نام شامل ہیں ، جن میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح جو پاکستان وجود میں آنے کے قبل تشریف لائے تھے، اان کے بعد ذولفقار علی بھٹو ، ان کی دختر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ،دورہ حکومت کے وزیر اعظم نواز شریف اور چیف منسٹر سندھ قائم علی شاہ موجود ہیں ۔

سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد میں رہل پہل زیادہ نہیں ہوتی مگر جب منسٹروں کی آمد کا امکان ہوتا ہے تو یہاں کی رونق اور سکیورٹی بہت بڑھادی جاتی ہے، مین سرکٹ ہاﺅس کی بلڈنگ میں صدر پاکستا ن ،وزیراعظم اور پاکستان کے سیاستدانوںکے بڑے نام ٹھرا کرتے ہیںاسی ہاﺅس کے احاطے میں ایک NXCنامی بلڈنگ موجود ہے جہاں قومی،وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے منسٹر ٹھرا کرتے ہیں ،مین سرکٹ ہاﺅ س ایک خوبصورت بلڈنگ ہے جس میں افسران کے کمروں کے علاوہ ایک میٹنگ حال موجود ہے جہاں سے منسٹر صاحبان پریس ریلیفس اور پریس کانفرنسس کرتے ہیںاگر وہ حال مہمانوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے چھوٹا پڑتا ہے تو پریس کانفرنس وہاں موجود ایک گارڈن میں منعقد کی جاتی ہیں ،جہاں خوش رنگ اور خوشبودار پھول اس بلڈنگ کی خوبصورتی بڑھاتے اور اسے مہکاتے ہیں۔

سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد کی سکیورٹی کے تمام فرائض ڈپٹی کمشنر سنبھالتے ہیں اور اس بلڈنگ کے نظم و نسق کی تمام ذمہ داریاں بھی ڈپٹی کمشنر کے پاس موجود ہوتی ہیں ،کسی بھی منسٹر ، چیف منسٹر ، وزیراعظم یا صدر کی آمد سے پہلے ڈپٹی کمشنر یہ اطلاع سرکٹ ہاﺅس پہنچا دیتا ہے اور انہیں سیکیورٹی خدشات کی بناءپر پابند بھی کرتا ہے کہ اس متعلق کوئی بھی معلومات باہر نہ جا سکے تاکہ کسی بھی غلط رونما ہونے والے واقعہ سے بچا جا سکے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کے مختلف سرکٹ ہاﺅسس کا جلاﺅ گھیراﺅ کیا گیا تھا مگر سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد کو یہ شرف حاصل ہے کہ نا اس بلڈنگ کا کوئی شیشہ ٹوٹا اور نہ کوئی ٹائر اور پیٹرول پمپ اس کی نظر کیا گیا۔ سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد کو کسی طریقے کا جانی و مالی نقصان نہیں پہنچا یا گیاتھا ۔

ہر دورہ حکومت میں سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد میں منسٹروں کی آمد کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے،وزیراعظم پاکستان نواز شریف اپنی پچھلی حکومت میں سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد تشریف لائے تھے اور ۲۰۱۴ میں قائم علی شاہ کی آمد واقع ہوئی تھی۔حیدرآباد صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے چناچہ یہاں قومی، صوبائی اور وفاقی حکومت کے ممبران کی آمد کا سلسہ زیادہ وقت تھمتا نہیں دکھتا۔ 

Profile of Raziqdino Sonaro by Misbah

پروفائل
                    طلبہ سیاست سے حکیم تک کا سفر : رازق ڈنو سونارو 
   

پروفائل   تحریر و تحقیق: مصباح


کچھ لوگ تاریخ پڑھ کر تاریخ کو سمجھتے ہیں لیکن خوش نصیب وہ ہیں جو تاریخ کا حصہ رہتے ہیں۔ اور یوں تاریخ بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ کہانی ایک جیالے کی ہے جو سنار تھے ، پہلے سیاسی کارکن اور بعد میں حکم بن گئے۔ 

پیپلز پارٹی ضلع ٹنڈوالہیار کے انفارمیشن سیکریٹری رزاق ڈنو سونارو ۲۵ فروری ۱۹۵۶ میں پیدا ہوئے۔ شہباز کالونی ٹنڈواالہیار میں رہتے ہیں۔ ا بتدائی تعلیم اپنے ضلع سے حاصل کرنے کے بعد میٹرک اور انٹر ایس ۔ ایم کا لج سے کیا ۔پوسٹ گریجویٹ پولٹیکل سائنس میں کیا۔ اور ایم ۔اے ۱۹۷۷ میں سندھ یونیورسٹی سے کیا۔ آپ ۱۹۷۰ سے پی۔پی ۔پی کے میمبر ہیں۔

ان کا خاندانی کاروبار سونار کا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکیم بھی ہیں۔ہیپٹائٹس ۔بی اور ہیپٹائٹس ۔سی کا علاج بھی کرتے ہیں کسی عطا کئے ہوئے نسخے کے ذریعے ۔ خاندانی زبان سرائیکی ہے۔لیکن آپ کو انگلش ٬اردو٬سندھی٬ہندکو ٬مارواڑی غرض مقامی تمام زبانوں پر عبور حاصل ہے۔

 ۲۶جون ۱۹۸۹ میں شادی ہوئی آپ کی ۳ بیٹیاں اور ۵ بیٹے ہیں ٬ آپ کی زوجہ بھی پی۔پی۔پی کی جرنل سیکریٹری ہیں۔ ضلع ٹنڈوالہیار میں مختیار بانو نام سے جانی جاتی ہیں۔ ۲ بےٹے پی۔پی۔پی میں عملہ طور تنظیم میں شامل ہیں۔ آپ کا ایک بیٹا نوکری جبکہ ایک سب سے بڑا بیٹا حادثے میں شہید ہوگیا اور ایک بےٹی اور ۲ بیٹے پڑھ رہے ہیں آپ کے کوئی بھائی نہیں ہیں جبکہ ۲ بہنیں ہیں۔ 

 رازق ڈنو سونارو ایس۔ایم کالج طلبہ یونین کے صدر بھی رہے ہیں۔ اور ۱۷۷۷ میں ڈگری کالج میں رہے۔ سیاسی مسئلے پر دو کتابیں لکھیں سندھی زبان میں۔ جس میں اس وقت کے حالات و صورتحال کے مطابق مطالبے کئے۔ ۱۹۸۱ کے بعد پی۔پی۔پی کے ہر کام میں آگے بڑھ کرحصہ لیتے ہیں۔

رازق ڈنو سونارو لوگوں کی خدمت میں ہر وقت حاضر رہے ہیں۔آپ ٹنڈواالہیار کی ایک بہت مشہور اور باوقار شخصیت ہیں۔ لوگ دور دور سے آپ کے پاس علاج کے لئے آتے ہیں۔ آپ کا علاج بہت فائدہ مند ہے۔ 

بچپن سے پی۔پی۔پی مےں دلچسپی ہونے کی وجہ سے پی۔پی۔پی میں شمولیت اختیار کی۔ آپ ایک سیاسی کارکن بھی ہیں قوم کی خدمت انجام دینے کے لئے اور اپنی پارٹی سے متعلق کام کے لئے اسلام آباد٬ لاہور ہر بڑے شہر میں جاتے رہتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں۔

آپ سے پہلی ملاقات ۱۹۷۸ میں کی۔ ہر کارکن اپنے لیڈر کے نقشے قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔کیونکہ ہر لیڈر کارکنان کے لئے مشعل راہ ہوتا ہے۔ جن کے مطابق وہ اپنی زندگی کے فیصلے کرتے ہیں۔ 

پیپلز پارٹی میں ۴۰ سال سے پہلے سے موجود ہیں۔اس وقت پیپلز پارٹی کے چئیرمین زوالفقار علی بھٹو سے فروری ۱۹۷۰ میں حیدرآباد میں ملاقات کی۔ ٹنڈواالہیار شہر کے پہلے پی۔پی۔پی صدر محمد رمضان سونارو جو رازق ڈنو سونارو کے ماموں تھے۔ ان ہی کے ساتھ چھوٹے کارکن کی طرح کام کرنا شروع کیا۔ 

۱۹۷۷ میں جب مارشل لا ختم ہوئی تو لاڑکانہ سے روہڑی اور روہڑی سے کراچی پھر حیدرآباد تک سفر کیا اور بہت لمبی ملاقات کی ۔ اسی ملاقات میں غلام مصطفی جتوئی، ممتاز بھٹو اور میر مرتضی بھٹو بھی موجود تھے۔ 

آپ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام بڑے بڑے عہدیداروں سے پی۔پی۔پی کے جلسے، جلوس اور اکثر وزیراعظم ہاﺅس سمیت المرتضی ہاﺅس میں بھی ملاقات ہوئی ۔ ان کے دوستانہ مزاج کو رازق ڈنو سونارو کہتے ہیں: میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ آپ نے سید قائم علی شاہ ، بلاول بھٹو ، آصف علی زرداری سب سے ملاقات کی ہوئی ہے۔ اور سب کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ رازق ڈنو سونارو پارٹی قیادت کے بہت قریب رہے ہیں۔

رازق ڈنو سونارو کو ان کی اعلی کارکردگی پر مختلف قسم کے اعزازات بھی ملے ہیں آپ کو حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ آپ کے کہنے کے مطابق خانہ کعبہ میں آپ کے چھوٹے بیٹے کی پیشانی پر اللہ نام ظاہر ہوا ۔ اور بڑے بیٹے کو پہلے ہی پتہ چل جاتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ 

آپ ایک جفاکش انسان ہیں جو لوگوں کے کام آنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ لوگ آپ میں موجود صلاحیتوں سے واقف ہیں اور آپ پر پورا یقین بھی کرتے ہیں۔ آپ کے پاس مسائل لے کر آتے ہیں تا کہ آپ ان کا کوئی حل نکال سکیں۔آپ ٹنڈوالہیار کے علاوہ بھی دوسرے شہروں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں اور اس سے قبل بھی بہت بار دے چکے ہیں۔ 

آپ نے اپنی پوری زندگی فلاح وبہبود کے کاموں کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ اپنی زندگی کا ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے دل کے بائے پاس کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو نے سرکاری طور پر پانچ لاکھ روپے دیے لیکن اللہ کی مہربانی سے اینجوگرافی کے زریعے دل کا وال کھل گیا اور آپریشن کی ضرورت نہ پڑی تو میں نے چار لاکھ اسی ہزار ایک لیٹر(لفافے) کے ساتھ واپس کردئیے ۔ جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھے بلاول ہاﺅس میں بلا کر شاباشی دی یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ 

اس کے علاوہ بھی میری بہت سی یادیں پی۔پی۔پی سے آراستہ ہیں ، جو کسی تعریف کی محتاج نہیں ہیں۔

رازق ڈنو سونارو میں بہت سی خداداد صلاحیتیں موجود ہیں۔ آپ دائرے میں رہ کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں آپ کو ایک سلجھا ہوا شخص یا کارکن کہنا غلط نہ ہوگا۔
PROFILE- RAZIQ DINO SONARO
 MISBAH-UR-RUDA     

       ROLL NO: 2K14/MC/52
Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, Department of Media & Communication Studies, University of Sindh 

Hyderabadi Charlie Chaplien by Simra Nasir

پروفائیل        
  حیدرآباد کا چھوٹا چارلی چیپلین 
 تحریر :  سمرہ ناصر
         ٹوٹل لفظ ۔660 
”جینا یہاںمرنا یہاں۔۔۔اس کے سوا جانا کہا۔۔۔“ کچھ لوگوںکی زندگی واقعی اس گانے کی مانند ہے۔وہ ایک ہی جگہ پر اپنی ساری زندگی وقف کردیتے ہیں۔او ر ا س ہی جگہ کو اپنی آخری جگہ بنا دیتے ہیں۔اس دنیا میںبہت سے مزاحیہ کردار ہیں جو اپنی پرواہ کیے بغیر ہمیں خوش کر تے ہیں ِ۔ایک ایسا ہی کردار حیدرآباد کے ریسٹورنٹ POINT300ُمیںہے۔وہ کارٹون کریکٹر کا ڈریس اپ کر کے بچوں اور بڑوں کے لیے مخصوص بن رہا ہے ۔یہ ہیںمحمد جمن جو بچوں کے لیے MICKEYMOUSEٰٰٰ کے نام سے وہاں جانے جاتے ہیں۔

بیس سالہ پاجمن پانچ سال سے یہاں کام کر رہے ہیں ۔ سجا گو © ٹھ کے رہائشی محمدجمن کے والد کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں وہ اپنے گھروالوں کو زیادہ خوشحال رکھنے کے لیے چارلی چیپلین بن گئے ہیں۔MICKEYMOUSE کے گیٹ اپ میں محمد جمن چارلی چیپلین سے لے کر مائیکل جیکسن تک کا روپ د ھار لیتا ہے ۔ مزے مزے کے چٹکو ں سے بچوں اور بڑوں کو گدگودانا اور بریک ڈانس کر کے مزے کو اور بڑھانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔بظاہر ہمیں یہ لوگ بہت خوش نظر آتے ہیں ۔ لیکن وہ یہ سب اپنی مجبوری کی وجہ سے کرتے ہیں ۔ 
محمد جمن مائیکل جیکسن کے بہت بڑے فین ہیں اوربریک ڈانس بھی خوب جانتے ہیں ۔بچے ان سے متاثر اور خوش بھی ہوتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کے ہم لوگوں کے لیے خوشی کا باعث تو بنتے ہیں لیکن یہی لوگ کبھی کبھی ا ہمیں د ھتکار دیتے ہیں اور ان کو غریب ہونے کا طعنہ       بھی مارتے ہیں ۔یہ بات انہیںناگوارگزرتی ہے۔محمد جمن کے ساتھ سولہ سالہ رضوان بھی اسی شعبہ میں کام کرتا ہے۔ دونوں کا کہنا ہے کہ ”ہم بھی پڑھ لکھ جاتے تو آج عزت سے رہ رہے ہوتے ۔لیکن مجبوری انسان کو کہاںلا کر کھڑا کر دیتی ہے، یہ بات وہ ہی سمجھ سکتا ہے جس پر گزرتی ہے ۔ہمارا بھی حق ہے کہ ہم خوش رہیں ،سکون کی زندگی گزاریں ، لوگ ہم سے اچھی طرح سے بات کر یں لیکن ان سب کے لیے ہم تب تک اچھے ہیںجب تک ہم انھیں ہنسارہے ہوتے ہیں ۔“

 زندگی بھی زمین کی طرح ہے جہاں موسم کی طرح تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔ سکندر صنم پاکستان کے نامور مزاحیہ کرداروں میں جانا جاتا ہے ۔وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔انھوں نے اپنی کامیڈی سے لوگوں کا دل جیت لیا ہے ۔انہوں نے بھی مجبوری اور غربت کی وجہ سے ہی اس کام کو اپنایا ۔شاید ہی کوئی اس بات کو سمجھ سکتا کے دوسروں کو خوش کرنے والا خود اندر سے خوش نہیںہوتا ۔

محمدجمن کو یقین ہے کہ ایک دن اس کی بھی زندگی تبدیل ہوگی۔ان کا کہنا ہے کہ ہم دوسرں کو خوش کر کے ان کہ چہروں کو روشن کرتے ہیں مسکراہٹ پھیلاتے ہیں ان کے آنسوں دور کرتے ہیں لیکن اپنے آنسوں چھپانے کے لیے ہم ان کی خوشی میںپیش پیش رہتے ۔
 ہم میں سے زندہ وہی رہے گا    جو دلوںمیںزندہ رہے گا 
 اور دلوںمیں زندہ و ہی رہتے ہیں  جو آسانیاںبانٹتے ہیں ِ،محبتیںبانٹتے ہیں 
ایسے لوگ ہی اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے آج تک زندہ ہے محنت ہی انسان کو آگے بڑھنے کا موقع دےتی ہے ۔محمد جمن بھی اسی حوصلے اور جذبے کے ساتھ اور محنت ولگن سے اپنے اس شعبے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ کیا کوئی اس کیو پروموٹ کرنے والا ہے؟ جو ان کو ایک ماناہا ماکیڈین بنا دے یا پھر وہ حیدرآباد کے کسی چھوٹے سے ہوٹل پر اسی طرح زندگی گزار دے گا؟

وہ اپنی زندگی کوتھوڑا فلمی کرداروں سے بہت متاثر ہو کراپنے اس پیشے کو شارخ خان کا ایک ڈائلاگ کہتے ہیں: ’ ’ دل توں سبھی کے پاس ہوتا ہے لیکن ہر کوئی د ل والا نہیں ہوتا“ 
ہمیں بھی محمد جمن کی طرح اپنا دل بڑا رکھنا چاہیے ۔ زندگی ہنسی خوشی بسر کرے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پروفائیل
حیدرآباد کا چھوٹا چارلی چیپلین
تحریر : سمرا شیخ





جینا یہاں مرنا یہاں۔۔۔ اس کے سوا جانا کہا۔۔

حقیقت یہی ہے کہ کچھ لوگوں کی زندگی اس گانے کی مانند ہے۔وہ ایک ہی جگہ پر اپنی ساری زندگی وقف کردیتے ہیں۔اسی جگہ کو اپنی آخری جگہ بنا دیتے ہیں۔اس دنیا میں بہت مزاحیہ کردار ہیں جو اپنی پروا کیے بغیر ہمیں خوش کر تے ہیںِ ۔ایک ایسا ہی کردار حیدرآباد کے ریسٹورنٹ POINT300ُمیں ہے۔ وہ کارٹون کریکٹر کا دریس اپ کر کے بچوں اور بڑوں کے لیے محضوظ بن رہا ہے ۔محمد جمن جو بچوں کے لیے MICKEYMOUSEٰٰٰ کے نام سے وہاں جانے جاتے ہیں۔

پانچ سال سے یہاں کام کر رہے ہیں اور ان کی عمر بیس سال ہے ان کا تعلق للجا گوٹ سے ہے ۔ محمد جمن کے والد کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں اور محمد جمن اپنے گھروالوں کو اور بھی زیادہ خوشحال رکھنے کے لیے چارلی چیپلین بن گئے ہیں۔MICKEYMOUSE کے گیٹ اپ میں محمد جمن چارلی چیپلین سے لے کر مائیکل جیکسن تک کا روپ ڈھال لیتا ہے ۔

اپنے مزے مزے چیٹکولیوں سے بچوں اور بڑوں کو گدگودانا اور بریک ڈانس کر کے مزے کو اور بڑھانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔بظاہر ہمیں یہ لوگ بہت خوش نظر آتے ہیں کیوں کہ وہ ہمیں خوش رکھ رہے ہوتے ہیں لیکن وہ یہ سب اپنی مجبوری کی وجہ سے کرتے ہیں ۔


محمد جمن مائیکل جیکسن کے بہت بڑے فین ہیں بریک ڈانس بھی خوب جانتے ہیں ۔بچے ان سے متاثر اور خوش بھی ہوتے ہیں ۔محمد جمن کا کہنا ہے کے ہم لوگوں کے لیے خوشی کا باعث تو بنتے ہیں لیکن یہی لوگ کبھی کبھی ان کو دہدکار دیتے ہیں اور ان کو غریب ہونے کا تانا بھی مارتے ہیں ۔

یہ بات محمد جمن اور ان کے ساتھی پرناگوارگزرتی ہے۔ محمد جمن کے ساتھ سولہ سال کا رضوان بھی اسی شعبہ میں کام کرتا ہے ان دونوں کا کہنا ہے کہ ہم بھی پڑھ لکھ جاتے تو آج
عزت سے رہ رہے ہوتے ۔۔۔لیکن مجبوری انسان کو کہاں لا کر کھاڑا کر دیتی ہے یہ بات وہ ہی سمجھ سکتا ہے جس پر گزرتی ہے ۔ہمارا بھی حق ہے کہ ہم خوش رہیں سکون کی زندگی گزارے لوگ ہم سے اچھی طرح سے بات کرے اس بھی ہم خوش ہے لیکن ان سب کے لیے ہم تب تک اچھے ہیں جب تک ہم انھیں ہنسارہے ہوتے ہیں ۔

کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز مستقل نہیں ہوتی بھلے وہ کوئی پریشانی اور مشکلات ہی کیوں نہ ہو۔ زندگی بھی زمین کی طرح گھومتی رہتی ہے اور موسم کی طرح تبدیل ہوتی ہے ۔ہم بات کرے اپنی ایک مشہور ہنستی سکندر صنم کی جن کا نام پاکستان کے نامور مزاحیہ کرداروں میں جانے جاتے ہیں ۔یہ اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن پوری دنیا کے لیے مثال بن چکے ہیں


 ۔انھوں نے اپنی کامیڈی سے لوگوں کا دل جیت لیا ہے ۔وہ بھی کوئی بچپن سے مشہور نہیں تھے سکندر صنم نے مجبوری اور غربت کی وجہ سے ہی اس کام کو اپنایا لیکن کوئی بھی اس بات کو سمجھ نہیں سکتا کے دوسروں کو خوش کرنے والا کبھی بھی خود خوش نہیں ہوتا وہ بس مجبوری کے تحت یہ کام کرتے ہیں۔

محمد جمن بھی اسی بات پر یقین رکھتا ہے کہ ایک دن اس کی بھی زندگی تبدیل ہوگی۔

محمد جمن کا یہ کہنا ہے کہ ہم دوسرں کو خوش کر کے ان کہ چہروں کو روشن کرتے ہیں مسکراہٹ پھیلاتے ہیں ان کے آنسوں دور کرتے ہیں لیکن اپنے آنسوں چھپانے کے لیے ہم ان کی خوشی میں پیش پیش رہتے ۔

ہم میں سے زندہ وہی رہے گا جو دلوں میں زندہ رہے گا
اور دلوں میں زندہ و ہی رہتے ہیں جو آسانیاں بانٹتے ہیںِ ،محبتیں بانٹتے ہیں



ایسے بھی لوگ ہیں دنیا میں جو اپنی صلاحیاتوں کی وجہ سے آج تک زندہ ہے ان میں سے ہمارے اپنے معین اختر بھی ہیں جو اپنے فنی کامیابی کی وجہ سے خوب جانے جاتے ہیں۔وہ ایک مزاحیہ کرداری ،فلم ڈائیرکٹری،گلوکاری میں ماہر تھے۔محنت ہی انسان کو آگے بڑھنے کا موقع دیتی ہے ۔

محمد جمن بھی اسی حوصلے اور جذبے کے ساتھ اور محنت ولگن سے اپنے اس شعبے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ کیا کوئی اس کیو پروموٹ کرنے والا ہے؟ جو ان کو ایک ماناہا ماکیڈین بنا دے یا پھر وہ حیدرآباد کے کسی چھوٹے سے ہوٹل پر اسی طرح زندگی گزار دے گا؟

وہ اپنی زندگی کوتھوڑا فلمی کرداروں سے بہت متاثر ہو کراپنے اس پیشے کو شارخ خان کا ایک ڈائلاگ کہتے ہیں۔

دل توں سبھی کے پاس ہوتا ہے لیکن ہر کوئی د ل والا نہیں ہوتا


ہمیں بھی محمد جمن کی طرح اپنا دل بڑا رکھنا چاہیے ۔دوسروں کے دکھ سکھ میں برابر کا شریک ہونا چاہیے اور ہم اس دنیا میں دوسروں کا خیال رکھنے آئے ہیں توں بنا کسی مطلب سے زندگی ہنسی خوشی بسر کرے ۔

Road accidents in sindh

آرٽيڪل:  سنڌ ۾ وڌنڌڙ روڊ حادثا ۽ زيان ٿيندڙ انساني جانيون،،،!!!
مشتاق علي جمالي 2k14/mc/142   
سوچان ٿو ته هڪ ماءٌ پورا 9 مهينا جنهن ٻار  کي پنهنجي پيٽ ۾ پالي ٿو ان جو لاقانونيت سان
سرشار هن معاشري ۾ ڪهڙو مستقبل هوندو؟ ڇا پورا  9 مهيناممتا جي پيٽ   ۾ پلجڻ بعد هو ڀوت
بنگلا بڻيل سرڪاري اسپتال جي گندي ۽ بدبو دار بستري  تي اکيون کوليندو؟ ڇا هو جڏهن بانبڙا پائڻ
واري عمر تائين پهچندو  ته ڪنهن کليل گٽر ۾ ڪري ڌرتي ماءٌ  جي هنج ۾ وڃي آرامي ٿيندو؟ يا
جيڪڏهن گٽرن ۾  ڪرڻ کان بچي وڏو ٿيندو ته اسڪول وڃڻ لاءِ کيس اها ئي وين ملندي؟ جنهن جي
ڇت تي 10 کان وڌيڪ سلئنڊر رکيل هوندا آهن ۽ ان جو ڊرائيور ڀنڳ ۽ چرس جي نشي ۾ ٽن ٿي روڊ
تي هلائڻ بدران هوا ۾ اڏامندو هجي ؟ ۽ ان وين جو مستقبل سلئنڊر ڦاٽڻ سبب سڙي وڃڻ ،ڪنهن گاڏي
سان ٽڪرائجڻ يا ڪلٽي ٿيڻ ئي هجي ؟ ۽ نتيجي ۾ سوار سڀ مسافر موت جي چنبي ۾ هليا ويندا هجن.
جيڪڏهن اتفاق سان ڪو بچي به ته ايمبولنس نه هجڻ يا اسپتال ۾ ڊاڪٽر نه هجڻ سبب زندگي جي جنگ
هارائي ويندو هجي؟ ان ٻار جو مستقبل ڇا هوندو؟ جتي جي شاهراهن تي موت جو راڪاس هلندو هجي؟
سوچيان ٿو ته مائرون رڳو روڊ حادثن ۾ ذيان ٿيندڙ جانين جا انگ اکر پڙهن، تڏه به هو ٻارن جي جنم ڏيڻ
کان اڳ هڪ هزار ڀيرا سوچينديون جئين اڄڪلهه ڏڪار سبب ٻارن جي موت تي ٿري مائرون سوچينديون آهن پر اها حقيقت آهي ته سنڌ ۾ هر سال روڊ حادثن ۾ مرندڙ ماڻهن جو انگ ٽارگيٽ ڪلنگ، دهشت گردي ۽ قبيلائي
تڪرارن جي مرندڙ ماڻهن کان ڏهه ڀيرا وڌيڪ هجي ٿو.روزاني جون اخبارون اهڙين حادثن  سان ڀريون
ڀريون پيون آهن. ڪي حادثا ته اهڙا زخم ڏيئي ويا آهن جيڪي شايد ڪڏهن به ڀرجي نه سگهن.انهن جيان
دولتپور وين حادثو به هڪ آهي، جنهن ۾ گلن جھڙا اسڪولي ٻارڙا هميشه لاءِ سمهي رهيا هئا هڪ رپورٽ
موجب سال 2015ع ۾ روڊ حادثن جو ملڪي  رڪارڊ به سنڌ جي حصي ۾ آيو اسان رڳوان ئي
صوبي جي ضلعي مٽياري جو ذڪر ڪريون ته به دنيا جو سڌريل قومون سڪتي ۾ اچي وڃن پر اسان
جي دل روز روز اهڙن حادثن کي ڏسي پٿر بڻجي وئي آهي.  رپورٽ موجب  مٽياري ضلعي ۾ هر مهيني
100 کان به وڏيڪ روڊ حادثا ٿين ٿا  جن ۾ مجمعي طور 10 کان 20 انساني جانيون  ضايع ٿي
وينديون آهن ۽ 90 کان 100 ماڻهون زخمي يا معذور ٿي وڃن ٿا ، اهڙي طرح هر سال 10،000 کان وڌيڪ ننڍا وڏا روڊ حادثه ٿين ٿا. جن جي نتيجي ۾ مجموعي طور 150 کان 200 ماڻهون موت
جي منهن ۾ هليا وڃن ۽ ۽ 9 کان 10 هزار ماڻهون زخمي ۽ معزور ٿي عذاب واري زندگي گذارين ٿا.
ڪاوش جي رپورٽ مطابق حادثن دوران زخمين کي اسپتال پهچائڻ لاءِ موٽروي پوليس وٽ ايمبولينس سروس
به ناهي، ايڌي يا ڇيپا جون ايمبولينسون پهچڻ تائين  ڪيترائي زخمي فوت ٿي وڃن ٿا.ان کان علاوه
سڄي سنڌ ۾ ڪوئيڪ رسپانس سروس به موجود ناهي . جنهن سبب هنگامي حالتن ۾  تمام گھڻيون ڏکيائيون
پيش اچن ٿيون ۽ ٻيو وري قومي شاهراه ۽ مختلف هاءِويز سميت روڊن جي حالت پڻ تمام گھڻي خراب
آهي، جنهن سبب حادثه معمول بڻجي ويا آهن. ٽرئفڪ وڌيڪ هجڻ باوجود روڊ سوڙها آهن.ڊرائيور جي
غفلت، دوران ڊرائيونگ نشي جو استعمال ڪرڻ ۽ لڳاتار 12_12 ڪلاڪ ڊرائيونگ ڪرڻ سبب ب حادثه
ٿين ٿا..
ملڪي سطح تي روڊ حادثن جو رڪارڊ ملڻ بعد به اختيار ڌڻين نوٽس نه ورتو، هي رڪارڊ ته هڪ الارم
آهي، جيڪڏهن اهو الارم اسان جي هوش ۾ اچڻ جو سبب نه ٿو بڻجي ته پوءِ نيٺ ڇا ڪجي ؟ ڇا هوش
۾ اچڻ لاءِ اسان کي ڪنهن وڏي ۽ خطرناڪ حادثي جو انتظار ڪرڻ گھرجي؟
سنڌ حڪومت کي گھرجي ته هو روڊ حادثن ۾ روز درجنين ماڻهن جي مرڻ جو تڪڙو نوٽس وٺي،  حادثن
جي روڪٿام لاءِ موثر قدم کڻي ته جيئن هڪ ماءَ جي جھولي خالي نه ٿئي ۽ مائرون ٻار ڄڻڻ کان اڳ
انجي مستقبل بابت سوچين ..
Mushtaque Ali Jamali
 2k14/MC/142

Interview wtih Rehamt Ali Meerali

Who has taken this interview? why u are not writting ur name , roll number  etc in the file. 
موسيقي قوم جي سڃاڻپ هوندي آهي
انٽرويو ممتازجمالي

رحمت علي ميرالي. ( سنڌ جو ڪلاسيڪل راڳي )

موسيقي جتي روح جي غذه مڃي ويندي آهي اتي موسيقي کي سنڀاليندڙن کي روح جو راڻو مڃيو ويندو آهي موسيقي هڪ اهڙي شيءَ آهي جنهن کي ٻڌڻ سان انسان پنهنجي وڃايل وجود ڏانهن واپس ۽ اميد تي قائم دنيا تي وڃي پهچندو آهي اهڙين روح جي راڻڻ سان ۽ انسان سوچ کي پنهنجي وڃال وجود ۽ اميد جي دنيا سان ملائيندڙن جهڙن شخصن مان اسان جي سنڌ ڀري پئي آهي جيتي تاريخ جي ورڪن کان وٺي ڪري حال جي هلندڙ پني تي سوين اهڙا موسيقار فنڪار ملندا جنهن جي آواز ۽ انداز جو مثال هزارين ڪوهن تائين ٻڌا ۽ ڏنا ٿا وڃن، بلوچستان جي ضلعي اوستا محمد سان تعلق رکندڙ راڳي خاندان جي گهر ۾ جنم وٺندڙ رحمت علي مرالي جنهن کي اڄوڪي سنڌي موسيقي جي دنيا ۾ استاد رحمت مرالي چيو ويندو آهي سو بـه اهڙو روح جو راڻو آهي، جنهن سنڌي موسيقي ۾ پنهنجي پياري آواز ۽ آلاپ سان  پنهنجو هڪ الڳ نالو ۽ سڃاڻپ ٺاهي ورتي. هن جا ويچار سنڌي موسيقي جي باري ۾ ٻين گلوڪارن کان مختلف آهن. هن جو روشني نيوز پيپر کي ڏنل انٽرويو هيٺ پيش ءِ خدمت آهي.

سوال: توهان ڇا سوچي موسيقي جي چونڊ ڪئي.؟
جواب:اسان جي سنڌ صوفين جي ڌرتي آهي ۽ اتي هزارين  بزرگ ولي آهن ۽ اڪثر ڪري اتي ميلا ٿيندا رهندا آهن ۽ انهن ميلن ۾ راڳ رنگ بـه ٿيندو رهندو آهي، هڪ ڏنهن شڪارپور جي ڀرسان هڪڙي پير سائين ٻٺڍل فقير جو ميلو لڳو، جتي راڳ جو پرگرام هو ان ۾ بابا مون کي وٺي ويو، ان ميلي ۾ صوفي ڪلام ڳيا پيا وڃن تـه مون اهو محسوس ڪيو تـه بابا ان ڪلامن کي گهرائي سان محسوس ڪري رهيو هو، پوءِ بابا ان ڏنهن کان  پاڻ صوفي ڪلام ڳائيڻ شروع ڪيا، ۽ گهر ۾ هڪ موسيقي جو ماحول هوندو رهيو، ان کان بعد منهنجو سڀ کان وڏو ڀاءَ همت فقير بـه راڳي ٿيو ۽ ان کان ننڍو ڀاءَ شمن علي ٿيو ان کان بعد منهنجو شوق  ٿيو  مون سوچيو جڏهن منهنجو سڄو خاندان راڳ ڳائي ٿو تـه مان بـه ڳائي سگهان ٿو، ۽ آئون بـه راڳ سکڻ شروع ڪيو، ان وقت منهنجو استاد عبدالغفور سومرو هيو جنهن مونکي راڳ جي سکيا ڏني جيڪو هن وقت خيرپور يونورسٽي ۾ موسيقي جي سکيا ڏيندو آهي.

سوال: موسيقي جو ثقافت سان ڪيترو تعلق آهي؟
جواب: ڪائينات ۾ جيڪي آواز آهن اهي موسيقي آهن چاهي اهو انسان جو آواز هجي چاهي اهو ڪنهن پکي جو آواز هجي يا کڻي قدرتي شين جو آواز هجي اهي سڀ مو سيقي آهن جيڪا اسان جي ڪنن تائين اچي ٿي، اگر ثقافت جي حساب سان ڏٺو وڃي تـه هر خطي جي هر قوم جي هر ملڪ جي پنهنجي الڳ الڳ موسيقي هوندي آهي، جئين هر قوم ملڪ خطي جي سڃاڻپ ٻولي مان لڳائي سگهجي ٿي ۽ ان قوم جي تاريخ بـه ٻولي ذريعي بچي سگهي ٿي تـه ٻولي کي بچائيڻ لاءِ شاعري ۽ موسيقي هوندي هوندي آهي ۽ ٻولي خود ثقافت آهي انهي ڪري اهي شيون ضروري آهي ڪنهن قوم لڪه کي تاريخ ۽ هلندڙ زماني ۾ زنده رکڻ لاءِ.

سوال: ڇا پنهنجي ڪلامن جو ذريعي ڪو پيغام ڏيندا آهيو؟ اگر ڏيندا آهيو تـه ڪهڙو؟
جواب: منهنجي هميشـه اها ڪوشش هوندي آهي تـه آئون اهڙي شاعري کڻا جنهن ۾ ڪو پيغام هجي، سماج کي سٺي نصيحت ڏجي جيئن شاهـه جي شاعري آهي شيخ اياز جي شاعري آهي استاد بخاري جي شاعري آهي جنهن ۾ ماحول کي هڪـه سٺو پيغام ملندو آهي تـه مان بـه تقريبن اهڙي شاعري ڳائيندو آهي.
سوال: توهان اڄ جي تيز موسيقي کي ڪئين ٿا ڏسو ڇا اها سُرن سازن جي ملاپ ۾  آهي؟
جواب: اڄ جا ماڻهون ۽ بڌندڙ سرن کي نٿا ٻڌن آهي سازن کي پسند ڪندا آهي ، اهڙي حوالي سان ڪافي حد تائين جيڪي رپيڊ ڪلام آهن جنهن کي رميڪس بـه چيو ويندو آهي انهي ۾ ڪافي حد تائين سر ساز آهن اها ٻي ڳالهـه آهي تـه ان سرن سازن کي نئو انداز ڏنو ويو آهي باقي سنڌي جي جديد موسيقي ۾ اهي شِيون گهٽ ملن ٿيون.
سوال: دنيا جي موسيقي ۾ ڏينهون ڏينهن تبديلي ايندي ٿي وڃي  ڇا هن وقت تائين سنڌي موسيقي ۾ ڪا واضع تبديلي آئي آهي.؟
جواب: ڪجهـه اهڙا نوجوان فنڪار پيدا ٿيا آهن جنهن پنهنجي پاڻ کي پاڻ مڃايو آهي جنهن ۾ کوڙ سارا نالا اچي ٿا وڃن ، انهن مڪمل سکيا وٺي ڪري پوءِ هن موسيقي جي ميدان ۾ لٿا آهن، انهي جي ڪري ڪافي تبديلي آئي آهي، پر جيڪي نوان اڻڄان گلوڪار آيا آهن انهن جي ڪري ڪافي سنڌي موسيقي کي نقصان پڻ رسيو آهي پر ان ۾ نون فنڪارن جو ڏوهـه ناهي ڇاڪاڻ جو انهن کي شوق هوندو آهي گلوڪاري جو مگر انهن کي ڪو سکيا ڏيندڙ مـه هوندو آهي ۽ پوءِ جهٽ ۾ اسڪرين تي ايندا آهن انهي جي ڪري ائين ٿيندو آهي.

سوال: توهان هميشـه سنجيده ڪلام ڳائندا آهيو انهي جو ڪو سبب.؟
جواب: منهنجي هميشـه اها ڪوشش رهي آهي تـه مان اهڙو ڪلام ڳايان جنهن ۾ ڪو پيغام هجي جيڪو ماحول سان ميلي ۽ اهڙي شاعري جنهن ۾ ڪو پيغام هجي اها مونکي شيخ اياز استاد بخاري اياز گل جهڙن شاعرن جي شاعري ۾ ميلي ٿي ۽ اهڙي شاعري هميشـه سنجيدگي سان ڳائي ويندي آهي .

سوال: توهان جي نظر ۾ ڪامياب فنڪار ڪهڙو هوندو آهي.؟
سڀ کان پهريان هن شعبي ۾ اچڻ کان پهريان سکيا تمام لازم آهي،  اگر ڪو هيتي اچي ٿو ۽ سکيل آهي جواب: تـه اهو شخص ڪا نئي شيءَ آڻي سگهي ٿو نئي ڪريئيشن ڪري سگهي ٿو، اگر سکيل ئي نـه هوندو تـه پوءِ گزارو ئي ڪري سگهي ٿو جنهن کي اسين سنڌي ۾ ڄوڳاڙ چوندا آهيون تـه منهنجي نظر ۾ اهو ئي ڪامياب جيڪو شاعري ڪري سگهي ادب جي ڄاڻ هجيس، ادب سان وابسطـه هجي ۽ پاڻ شاعري ڪرڻ ڄاڻي اگر شاعري نٿو ڪري تـه ڪم سي ڪم شاعري جي باري انهي ڪي مڪمل ڄان رکي.
اثر پوي ٿو؟
اوهان سنڌي ميڊيـا کي ڪهڙو پيغام ڏيڻ چاهيندو؟

مان اهو پيغام ڏيندس جيڪي دوست سيکل ناهن انهن کي هڪ دم اڳتي نـه کڻي اچن انهن ڱي اسڪرين تـه هڪ دم نـه آڻڻ اسان جون جيڪي تاريخي ڌنو آهن انهي سان جوٺ ڪئي وئي، اسان جي شاعري سان جوٺ ڪئي وئي آئي، اڄ ڪلهـه اهڙي شاعري ڳائي ٿي وڃي ۽ اهو ڪلام جڏهن چينل ٿي هلي ٿو تـه اسان پنهنجي فيملي سان ويهي ڪري اهو گانو ٻڌي نٿا سگهون. سو مان اهو ئي چوندس تـه سنڌي کي ميڊيا وارا ڪاروبار نـه بڻائيڻ ۽ جيڪي پراڻا راڳي آهن انهن جو قدر ڪن جئين اسان جي موسيقي امر رهي ۽ بچي سگهي.

Nudity in films and its effects on society

Chha twhan khey article ander pahnjo nalo, roll number  aen Final likhan main ko problem ahy?
Ketra dafa chayo ahy.. smjh main galeh nathi achi? 
 Matlb harubhru b gher zumewari dekharni ahy....
                  فحاشي فلمون ۽ ان جو سماج تي اثر         
آرٽيڪل
ممتازجمالي
                      گزريل ٽين ڏهاڪن کان دنيا ڀر ۾ جيتري فلمي دنيا ۾ ترقي آئي آهي اها ڪنهن ٻي شعبي ۾ شايد ئي آئي هجي، جيتي ڪافي سال اڳ سائيلينٽ فلمون وڏي شوق سان ڏٺيون وينديون هيون ان جاءِ تـه اڄ ٿري ڊي فلمون اچي ويون آهن، جيتي ون فريمنگ ڪيمرا استعمال ڪئي ويندي هئي اتي اڄ جديد ڪيمرائون اچي ويون آهن، مگر فلمون جهڙيون بـه هجن ان جي پنهنجي الڳ سڃاڻپ هوندي آهي، ڪجهـه فلمون تمام مختصر تـه ڪجهـه وري تمام ڊگهيون هونديون آهن ڪجهـه فلمون سلسلي وار اينديون آهن تـه ڪجـهه وري ري ميڪ ۾ اينديون آهن.
                 پر ان هر فلمن جو موضوع الڳ هوندو آهي ڪجهـه فلمون پيار محبت تـه ڪجهـه وري سماج جي برائين تي هونديون آهن، ڪجهـه قدرت جي بناوت ۽ تصوارتي شئين تي ٺهنديون آهن، ۽ ان ۾ هڪڙي قسم جون فلون اهڙيون هونديون آهن جيڪي بنا ڪنهن اخلاقي حد جي جنسي ميلاپ ڏکارين ٿيون، جنهن کي انگريزي ۾ ”پارن موويز“ ۽ سنڌي۾ فحاشي فلمون سڏيندا آهي.
              هڪ گوگل رپورٽ موجب دنيا ۾ سڀ کان وڏو ڪاروبار ڪندڙ اهي فلمون آهي ۽ هر هڪ سيڪنڊ جي اندر دنيا ۾ اندازن 3 لک ڊلر اهڙين فلمن تي خرچ ايندو آهي ۽ آمريڪا اهڙين فلمن جو ڳڙهـه آهي جيتي هر 39 منٽن بعد هڪ فحاشي ”پارن“ فلم ٺهندي آهي، دنيا جي تيز ترين ۽ وڌيڪ ڪاروبار ڪندڙ اهي فلمون پاڪستان ۾  نـه بلڪي ڏينهون وڌينديون ٿيون وڃن پر سماج اندر برائين جو جڙ بـه بڻجي رهيون آهن ۽ ان سان گڏ ڪاروبار بـه بڻجي ويون آهن..
            فوڪس نيوز ايجنسي جي هڪـه رپورٽ موجب گوگل سرچ ۾ پاڪستان پهرين ملڪن ۾ آهي جتي فحاشي فلمون آن لائن وڏي انگ ۾  سرچ ڪيون ٿيون وڃن،  تعجب جي ڳالهـه اها بـه آهي تـه انهي رپورٽ موجب سعودي عربـيـه، ترقي ايران ۽ مسلمان ملڪه پڻ سرفهرست ۾ آهن.
           سيپٽمبر 2011 ع ۾ هڪ پاڪستاني هيڪر سپريم ڪورٽ جي آفيشل ويبسائيٽ هيڪ ڪئي، جنهن پاڪستان ۾ هڪ وڏو چرچو پڻ مچايو هو، پر جڏهن ان هيڪر پنهنجي ڊمانڊ رکي تـه ماڻهون توڙي ڪجهـه قانوني ماهرن پڻ ان جي حمايت ڪئي، ان هيڪر پاڪستان اندر فحاشي فلمن تي بندش جي گهر ڪئي هئي، ۽ وري ڪجهـه وقت بعد پاڪستان ٽيليڪميونيڪيشن اٿارٽي جي آفيشل ويب سائيٽ هيڪ ٿي، ۽ ان ۾ بـه هيڪر پاڪستان اندڙ اهڙين فلمن جي ڪاروبار ۽ اهڙين فلمن جي ويبسائيٽس جي بندش جي گهر ڪئي، ۽ مجبورن پاڪستاني حڪومت تحرڪ ۾ آئي، ۽ ان اهڙين فلمون هلائيندڙ 1000 مشهور ۽ وڏيون ويبسائيٽون بند ڪيون ويون.
آنلائين بندش  مان ڪو خاص فائيدو نـه پيو، ڇو جو ڪافي سافٽ ويئر ان بلاڪ ۾ اهي ساڳيون فلمون ڏکارين پيون ۽ انهي جي خبر خود ”پي ٽي اي“ وارن کي چنگي ريت آهي، ان سان گڏو گڏ ساڳي وقت پاڪستان ۾ فحاشي فلمن جون سي ڊيز بازارن ۽ مارڪيٽ ۾ کولي عام وڪامڻڻ لڳيون، جنهن جي ڪري انهن فلمن جي روڪٿام نا ممڪن نظر آئي.
اهو ئي نـه پاڪستان جي اندڙ هوٽلن ۽ وڏين توڙي ننڍين سنيمائون تي اهي فلمون پڻ ڏکاريون پيون وڃن.
انهي فلمن جي بندش جا خاص سبب آهن ، جهڙي طرح ڊرگ الڪول چرس انساني زندگي لاءِ خطرو آهن اهڙي طرح ماڻهون سمجهن ٿا تـه فحاشي فلمون ڏسڻ سان ڪو خطرو ناهي، اهڙين پارن فلم ڏسندڙ  جو اهو چوڻ آهي تـه اهي اهڙيون فلمون ڏسي پنهنجو وقت پاس ڪن ٿا ۽ ان جو ان تي ڪو خاص اثر نٿو پئي، پر جهڙي طرح ڊرگ الڪول جا سائيڊ افيڪٽ آهن اهڙي طرح فحاشي فلمن جا ڪجهـه سائيڊ افيڪٽ آهن ۽ اهي افيڪٽ اڳتي وڌي وڏو خطرناڪ ٿين ٿا، ۽ انساني زندگي تي هڪـه وڏو ناڪاري اثر وجهن ٿا.
اهي فحاشي فلمون سماج تي اهڙو اثر ڇڏن ٿيون جو انسان هر طرح سان ڪمزور ٿي وڃي ٿو، هڪ ساڪيولوجيڪل رپورٽ موجب اهي فحاشي فلمون انساني زندگي تي تمام گهڻو ناڪاري اثر وجهن ٿيون فحاشي فلمون ڏسڻ سان انسان هڪ خيالي دنيا ڏانهن هليو ويندو آهي ان جي دماغ شئين کي ياد ڪرڻ جي صلاحيت گهٽائي ڇڏيندو آهي.
سماج سڌارڪ ماروي پنهور جو چوڻ آهي تـه فحاشي فلمن جي ڪري سماج ۾ ريپ جا ڪيس درپيش ٿين ٿا انهي سان گڏو گڏ سيڪسول حيراسمينٽ جهڙا واقعـه پڻ وڌن ٿا.
قانوني ماهر ۽ وڪيل حميد رند چيو تـه ٻارن سان جنسي ڏاڍائي جا ڪيس ايندا آهن جنهن پويان تقريبن اهڙين فلمن جو اثر هوندو آهي.
حڪومت کي گهرجي تـه اهڙن فلمن جي بندش لاءِ هڪ الڳ قانون پاس ڪرايو وڃي جنهن تي اهڙين فلمن جي ڪاري ڪاروبار ڪندڙ سان گڏ ٺاهيندڙ ۽ ڏسندڙ تي قانوني جرم لاڳو ڪيو وڃي ڇاڪاڻ جو جيڪڏهن نوجوان اهڙين فلمن ڏانهن وڌندا رهيا تـه اهي مستقبل ۾ هلي ڪري وڏي نقصان کي منهن ڏيندا.