Showing posts with label سمرہ. Show all posts
Showing posts with label سمرہ. Show all posts

Thursday, 24 March 2016

گلوبل وارمنگ سے گلوبل کولنگ تک

گلوبل وارمنگ سے گلوبل کولنگ تک
آرٹیکل : سمرہ ناصر
موسم انسانی زندگی میں اپنا نمایاں کارکردگی دکھاتے ہیں اور زندگی کی طرح ہی بدلتے ہیں اور یہ ہی موسم ہیں جو انسانوں کو ، چرند پرند اور پھول پودوں کو موسم کی تبدیلی کی وجہ سے خوش بخت اور خوش نما رکھتے ہیں۔ قدرت نے ہر قسم کے موسم رکھے ہیں ۔ سر دی، گرمی، خزاں ، بہار اور یہ چاروں موسم صرف پاکستان میں ہی ملتے ہیں باقی ملک میں یہ چاروں موسم نہیں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ گلوبل ورامنگ رہتی ہے اور یہ گلوبل وارمنگ کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہے ۔ کاربن ڈائی آکسائیڈدراصل کارخانوں کے دھوئے ، ٹریفک کے دھوئے اور جنگلات کے نہ ہونے کی وجہ سے بنتا ہے۔جس کی وجہ سے لوگوں کو آکسیجن اور موزی بیماری کا سامنا ہوتا ہے جس میں ا مراض جلد ، فلو، اور بہت سی نئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

لیکن پوری دنیا میں موسمی تبدیلی کی بات کریں تو یہاں گلوبل وارمنگ تو نہیں لیکن گلوبل کولنگ کا حال ہی انکشاف ہوا ہے۔ غیر ملکی میڈیا رپوٹس کے مطابق پتہ چلا کہ پوری ممالک کو پھر گلوبل کولنگ کا سامنا کرنا پڑے گا اور کولنگ عمل رواں صدی کے وسط تک جاری رہے گا۔ یہ عمل اس لیے پیش آتا ہے کہ سورج Sleepin Mode میں آجاتا ہے اور سورج ایک صدی تک Sleeping Mode میں رہتا ہے جس سے گوبل کولنگ ہونی ہے اور یہ سارے براعظم میں رہتا ہے اور ایشاءممالک میں بھی یہ موسم تبدیلی ہوگی۔ برطانوی اور امریکی اخباروں ، ٹیلیگراف اور ڈیلی میل میں پیش کی گئی ہے ۔ اخبار مذکورہ کا لکھنا ہے کہ اس سال گرمیوں میں آرکٹک میں برف سے ڈھکی سطع کا رقبہ بڑھ کر کذشتہ سال کی نسبت 60فیصد زیادہ ہوگیا ہے۔ اس وقت یہ رقبہ براعظم پورے کے آدھے رقبے کے برابر ہو چکا ہے ۔ روس کے لوگوں کے لیے کڑاکے کی سردی ایک معمولی بات ہے۔ 

ساری دنیا کی بات ہو تو سرد موسم کا اپنا ہی الگ مزہ ہے۔ مثال کے طور پر جہاں برف باری ہوئی ہو اور سردی کی شدت سے برف جمی ہو تو لوگ سکیٹنگ اور مچھلی پکڑنے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ موسم سرما میں مچھلیاں سمندر سے اوپر آتی ہے جس کی وجہ سے مچھیرو کا کاروبار میں برکت ہوتی ہے اور جو صرف اپنے شوق سے مچھلیاں پکڑتے ہیں ان کا مزہ اور دوبالا ہو جاتا ہے ا ور یورپی کے ہم وطن موسم سرما میں کھلے آسمان تلے ندیوں اور جھیلوں کے سرد پانی میں نہانا پسند کرتے ہیں۔

ماضی کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ یورپ میں موسم کافی سرد ہوجاتا تھا ۔ مثال کے طور پر 3نومبر سن 1323کو سردی کی شدت سے اٹلی کے شہر وینس کے قریب سمندر کا پانی جم گیا تھا۔ گزشتہ سال موسم سرما کے آخر تک وینس کے باشندوں کو اشیائے ضرورت کی فراہمی کے لیے جہازوں کی بجائے گھوڑا گاڑیوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایسی مثالوں سے یورپ کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے۔


بین الاقوامی ماحولیاتی تنظیم میں موصوف کے مطابق پچھلے ۰۱ برس کے دوران گلوبل وارمنگ کی رفتار میں سستی آگئی ہے۔ ماہرین کے مطابق فی الحال دنیا میں گلوبل کولنگ قدرتی عمل شروع ہوگیا ہے جو کافی مختصر عرصے یعنی تقریباََ 50سال تک جاری رہے گا۔

زمینی علم کے حوالے سے کرئہ ارض تاریخ میں کل ملا کر 4برفانی عہد ہوچکے ہیں۔ ان میں سے آخری برفانی عہد کا تقریباََ 12ہزار سال قبل اختتام ہوا۔ اس وقت جو دور ہے اس میں انسان کے لیے کافی ساز گار موسمیاتی حالات پیدا ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے دیر یا سویر نیا برفانی عہد شروع ہو جائے گا۔

آپ و ہوا میں تبدیلی سے متعلق ماہرین کے بین حکومتی گروپ نے بھی اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ آرکٹک میں برف پگھلنے اور بڑھنے کے اعمال جاری ہے۔


سائنسی مقالوں سے واضح ہے کہ بحیروں میں پانی کا ٹیمپر یچر سال بسال بڑھتا جارہا ہے۔ اس عمل سے سارے کلائمٹ سسٹم سے تعلق ہے ۔ بحیروں کے پانی کا بڑھتا ہوا ٹیمپریچر ثابت کرتا ہے کہ عالمی آب و ہوا میں مدت ایک حقیقت ہے۔
..........................................................................

Do not use english words
Article
گلوبل وارمنگ سے گلوبل کولنگ تک
 سمرہ ناصر

موسم انسانی زندگی میں اپنا نمایاں کارکردگی دکھاتے ہیں اور زندگی کی طرح ہی بدلتے ہیں اور یہ ہی موسم ہیں جو انسانوں کو ، چرند پرند اور پھول پودوں کو موسم کی تبدیلی کی وجہ سے خوش بخت اور خوش نما رکھتے ہیں۔ قدرت نے ہر قسم کے موسم رکھے ہیں ۔ سر دی، گرمی، خزاں ، بہار اور یہ چاروں موسم صرف پاکستان میں ہی ملتے ہیں باقی ملک میں یہ چاروں موسم نہیں پائے جاتے ہیں۔

پاکستان میں سب سے زیادہ گلوبل ورامنگ رہتی ہے اور یہ گلوبل وارمنگ Carbondioxideمیں اضافے ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہے ۔ Carbondioxideدراصل کارخانوں کے دھوئے ، ٹریفک کے دھوئے اور جنگلات کے نہ ہونے کی وجہ سے بنتا ہے۔جس کی وجہ سے لوگوں کو Oxygenاور موزی بیماری کا سامنا ہوتا ہے جس میں ا مراض جلد

، فلو، اور بہت سی نئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

لیکن پوری دنیا میں موسمی تبدیلی کی بات کریں تو یہاں گلوبل وارمنگ تو نہیں لیکن گلوبل کولنگ کا حال ہی انکشاف ہوا ہے۔ غیر ملکی میڈیا رپوٹس کے مطابق پتہ چلا کہ پوری ممالک کو پھر گلوبل کولنگ کا سامنا کرنا پڑے گا اور کولنگ عمل رواں صدی کے وسط تک جاری رہے گا۔ یہ عمل اس لیے پیش آتا ہے کہ سورج Sleepin Mode میں آجاتا ہے اور سورج ایک صدی تک Sleeping Mode میں رہتا ہے جس سے گوبل کولنگ ہونی ہے اور یہ سارے براعظم میں رہتا ہے اور
ایشاءممالک میں بھی یہ موسم تبدیلی ہوگی۔ برطانوی اور امریکی اخباروں ، ٹیلیگراف اور ڈیلی میل میں پیش کی گئی ہے ۔
 اخبار مذکورہ کا لکھنا ہے کہ اس سال گرمیوں میں آرکٹک میں برف سے ڈھکی سطع کا رقبہ بڑھ کر کذشتہ سال کی نسبت 60فیصد زیادہ ہوگیا ہے۔ اس وقت یہ رقبہ براعظم پورے کے آدھے رقبے کے برابر ہو چکا ہے ۔ روس کے لوگوں کے لیے
کڑاکے کی سردی ایک معمولی بات ہے۔
ساری دنیا کی بات ہو تو سرد موسم کا اپنا ہی الگ مزہ ہے۔ مثال کے طور پر جہاں برف باری ہوئی ہو اور سردی کی شدت سے برف جمی ہو تو لوگ سکیٹنگ اور مچھلی پکڑنے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ موسم سرما میں مچھلیاں سمندر سے اوپر آتی ہے جس کی وجہ سے مچھیرو کا کاروبار میں برکت ہوتی ہے اور جو صرف اپنے شوق سے مچھلیاں پکڑتے ہیں ان کا مزہ اور دوبالا ہو جاتا ہے ا ور یورپی کے ہم وطن موسم سرما میں کھلے آسمان تلے ندیوں اور جھیلوں کے سرد پانی میں نہانا پسند کرتے ہیں۔

ماضی کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ یورپ میں موسم کافی سرد ہوجاتا تھا ۔ مثال کے طور پر 3نومبر سن 1323کو سردی کی شدت سے اٹلی کے شہر وینس کے قریب سمندر کا پانی جم گیا تھا۔ گزشتہ سال موسم سرما کے آخر تک وینس کے باشندوں کو اشیائے ضرورت کی فراہمی کے لیے جہازوں کی بجائے گھوڑا گاڑیوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایسی مثالوں سے یورپ کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے۔

بین الاقوامی ماحولیاتی تنظیم میں موصوف کے مطابق پچھلے ۰۱ برس کے دوران گلوبل وارمنگ کی رفتار میں سستی آگئی ہے۔ ماہرین کے مطابق فی الحال دنیا میں گلوبل کولنگ قدرتی عمل شروع ہوگیا ہے جو کافی مختصر عرصے یعنی تقریباََ 50سال تک جاری رہے گا۔
زمینی علم کے حوالے سے کرئہ ارض (زمیں کا حصہ) تاریخ میں کل ملا کر 4برفانی عہد ہوچکے ہیں۔ ان میں سے آخری برفانی عہد کا تقریباََ 12ہزار سال قبل اختتام ہوا۔ اس وقت جو دور ہے اس میں انسان کے لیے کافی ساز گار موسمیاتی حالات پیدا ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے دیر یا سویر نیا برفانی عہد شروع ہو جائے گا۔

آپ و ہوا میں تبدیلی سے متعلق ماہرین کے بین حکومتی گروپ نے بھی اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ آرکٹک میں برف
پگھلنے اور بڑھنے کے اعمال جاری ہے۔
سائنسی مقالوں سے واضح ہے کہ بحیروں میں پانی کا ٹیمپر یچر سال بسال بڑھتا جارہا ہے۔ اس عمل سے سارے کلائمٹ سسٹم سے تعلق ہے ۔ بحیروں کے پانی کا بڑھتا ہوا ٹیمپریچر ثابت کرتا ہے کہ عالمی آب و ہوا میں مدت ایک حقیقت ہے۔
Fotos are used only for academic purpose


Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, Department of Media & Communication Studies, University of Sindh 
#Globalwarming, #Environment, #ClimateChange, #SimraNasir, #SohailSangi

Thursday, 28 January 2016

Hyderabadi Charlie Chaplien by Simra Nasir

پروفائیل        
  حیدرآباد کا چھوٹا چارلی چیپلین 
 تحریر :  سمرہ ناصر
         ٹوٹل لفظ ۔660 
”جینا یہاںمرنا یہاں۔۔۔اس کے سوا جانا کہا۔۔۔“ کچھ لوگوںکی زندگی واقعی اس گانے کی مانند ہے۔وہ ایک ہی جگہ پر اپنی ساری زندگی وقف کردیتے ہیں۔او ر ا س ہی جگہ کو اپنی آخری جگہ بنا دیتے ہیں۔اس دنیا میںبہت سے مزاحیہ کردار ہیں جو اپنی پرواہ کیے بغیر ہمیں خوش کر تے ہیں ِ۔ایک ایسا ہی کردار حیدرآباد کے ریسٹورنٹ POINT300ُمیںہے۔وہ کارٹون کریکٹر کا ڈریس اپ کر کے بچوں اور بڑوں کے لیے مخصوص بن رہا ہے ۔یہ ہیںمحمد جمن جو بچوں کے لیے MICKEYMOUSEٰٰٰ کے نام سے وہاں جانے جاتے ہیں۔

بیس سالہ پاجمن پانچ سال سے یہاں کام کر رہے ہیں ۔ سجا گو © ٹھ کے رہائشی محمدجمن کے والد کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں وہ اپنے گھروالوں کو زیادہ خوشحال رکھنے کے لیے چارلی چیپلین بن گئے ہیں۔MICKEYMOUSE کے گیٹ اپ میں محمد جمن چارلی چیپلین سے لے کر مائیکل جیکسن تک کا روپ د ھار لیتا ہے ۔ مزے مزے کے چٹکو ں سے بچوں اور بڑوں کو گدگودانا اور بریک ڈانس کر کے مزے کو اور بڑھانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔بظاہر ہمیں یہ لوگ بہت خوش نظر آتے ہیں ۔ لیکن وہ یہ سب اپنی مجبوری کی وجہ سے کرتے ہیں ۔ 
محمد جمن مائیکل جیکسن کے بہت بڑے فین ہیں اوربریک ڈانس بھی خوب جانتے ہیں ۔بچے ان سے متاثر اور خوش بھی ہوتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کے ہم لوگوں کے لیے خوشی کا باعث تو بنتے ہیں لیکن یہی لوگ کبھی کبھی ا ہمیں د ھتکار دیتے ہیں اور ان کو غریب ہونے کا طعنہ       بھی مارتے ہیں ۔یہ بات انہیںناگوارگزرتی ہے۔محمد جمن کے ساتھ سولہ سالہ رضوان بھی اسی شعبہ میں کام کرتا ہے۔ دونوں کا کہنا ہے کہ ”ہم بھی پڑھ لکھ جاتے تو آج عزت سے رہ رہے ہوتے ۔لیکن مجبوری انسان کو کہاںلا کر کھڑا کر دیتی ہے، یہ بات وہ ہی سمجھ سکتا ہے جس پر گزرتی ہے ۔ہمارا بھی حق ہے کہ ہم خوش رہیں ،سکون کی زندگی گزاریں ، لوگ ہم سے اچھی طرح سے بات کر یں لیکن ان سب کے لیے ہم تب تک اچھے ہیںجب تک ہم انھیں ہنسارہے ہوتے ہیں ۔“

 زندگی بھی زمین کی طرح ہے جہاں موسم کی طرح تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔ سکندر صنم پاکستان کے نامور مزاحیہ کرداروں میں جانا جاتا ہے ۔وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔انھوں نے اپنی کامیڈی سے لوگوں کا دل جیت لیا ہے ۔انہوں نے بھی مجبوری اور غربت کی وجہ سے ہی اس کام کو اپنایا ۔شاید ہی کوئی اس بات کو سمجھ سکتا کے دوسروں کو خوش کرنے والا خود اندر سے خوش نہیںہوتا ۔

محمدجمن کو یقین ہے کہ ایک دن اس کی بھی زندگی تبدیل ہوگی۔ان کا کہنا ہے کہ ہم دوسرں کو خوش کر کے ان کہ چہروں کو روشن کرتے ہیں مسکراہٹ پھیلاتے ہیں ان کے آنسوں دور کرتے ہیں لیکن اپنے آنسوں چھپانے کے لیے ہم ان کی خوشی میںپیش پیش رہتے ۔
 ہم میں سے زندہ وہی رہے گا    جو دلوںمیںزندہ رہے گا 
 اور دلوںمیں زندہ و ہی رہتے ہیں  جو آسانیاںبانٹتے ہیں ِ،محبتیںبانٹتے ہیں 
ایسے لوگ ہی اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے آج تک زندہ ہے محنت ہی انسان کو آگے بڑھنے کا موقع دےتی ہے ۔محمد جمن بھی اسی حوصلے اور جذبے کے ساتھ اور محنت ولگن سے اپنے اس شعبے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ کیا کوئی اس کیو پروموٹ کرنے والا ہے؟ جو ان کو ایک ماناہا ماکیڈین بنا دے یا پھر وہ حیدرآباد کے کسی چھوٹے سے ہوٹل پر اسی طرح زندگی گزار دے گا؟

وہ اپنی زندگی کوتھوڑا فلمی کرداروں سے بہت متاثر ہو کراپنے اس پیشے کو شارخ خان کا ایک ڈائلاگ کہتے ہیں: ’ ’ دل توں سبھی کے پاس ہوتا ہے لیکن ہر کوئی د ل والا نہیں ہوتا“ 
ہمیں بھی محمد جمن کی طرح اپنا دل بڑا رکھنا چاہیے ۔ زندگی ہنسی خوشی بسر کرے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پروفائیل
حیدرآباد کا چھوٹا چارلی چیپلین
تحریر : سمرا شیخ





جینا یہاں مرنا یہاں۔۔۔ اس کے سوا جانا کہا۔۔

حقیقت یہی ہے کہ کچھ لوگوں کی زندگی اس گانے کی مانند ہے۔وہ ایک ہی جگہ پر اپنی ساری زندگی وقف کردیتے ہیں۔اسی جگہ کو اپنی آخری جگہ بنا دیتے ہیں۔اس دنیا میں بہت مزاحیہ کردار ہیں جو اپنی پروا کیے بغیر ہمیں خوش کر تے ہیںِ ۔ایک ایسا ہی کردار حیدرآباد کے ریسٹورنٹ POINT300ُمیں ہے۔ وہ کارٹون کریکٹر کا دریس اپ کر کے بچوں اور بڑوں کے لیے محضوظ بن رہا ہے ۔محمد جمن جو بچوں کے لیے MICKEYMOUSEٰٰٰ کے نام سے وہاں جانے جاتے ہیں۔

پانچ سال سے یہاں کام کر رہے ہیں اور ان کی عمر بیس سال ہے ان کا تعلق للجا گوٹ سے ہے ۔ محمد جمن کے والد کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں اور محمد جمن اپنے گھروالوں کو اور بھی زیادہ خوشحال رکھنے کے لیے چارلی چیپلین بن گئے ہیں۔MICKEYMOUSE کے گیٹ اپ میں محمد جمن چارلی چیپلین سے لے کر مائیکل جیکسن تک کا روپ ڈھال لیتا ہے ۔

اپنے مزے مزے چیٹکولیوں سے بچوں اور بڑوں کو گدگودانا اور بریک ڈانس کر کے مزے کو اور بڑھانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔بظاہر ہمیں یہ لوگ بہت خوش نظر آتے ہیں کیوں کہ وہ ہمیں خوش رکھ رہے ہوتے ہیں لیکن وہ یہ سب اپنی مجبوری کی وجہ سے کرتے ہیں ۔


محمد جمن مائیکل جیکسن کے بہت بڑے فین ہیں بریک ڈانس بھی خوب جانتے ہیں ۔بچے ان سے متاثر اور خوش بھی ہوتے ہیں ۔محمد جمن کا کہنا ہے کے ہم لوگوں کے لیے خوشی کا باعث تو بنتے ہیں لیکن یہی لوگ کبھی کبھی ان کو دہدکار دیتے ہیں اور ان کو غریب ہونے کا تانا بھی مارتے ہیں ۔

یہ بات محمد جمن اور ان کے ساتھی پرناگوارگزرتی ہے۔ محمد جمن کے ساتھ سولہ سال کا رضوان بھی اسی شعبہ میں کام کرتا ہے ان دونوں کا کہنا ہے کہ ہم بھی پڑھ لکھ جاتے تو آج
عزت سے رہ رہے ہوتے ۔۔۔لیکن مجبوری انسان کو کہاں لا کر کھاڑا کر دیتی ہے یہ بات وہ ہی سمجھ سکتا ہے جس پر گزرتی ہے ۔ہمارا بھی حق ہے کہ ہم خوش رہیں سکون کی زندگی گزارے لوگ ہم سے اچھی طرح سے بات کرے اس بھی ہم خوش ہے لیکن ان سب کے لیے ہم تب تک اچھے ہیں جب تک ہم انھیں ہنسارہے ہوتے ہیں ۔

کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز مستقل نہیں ہوتی بھلے وہ کوئی پریشانی اور مشکلات ہی کیوں نہ ہو۔ زندگی بھی زمین کی طرح گھومتی رہتی ہے اور موسم کی طرح تبدیل ہوتی ہے ۔ہم بات کرے اپنی ایک مشہور ہنستی سکندر صنم کی جن کا نام پاکستان کے نامور مزاحیہ کرداروں میں جانے جاتے ہیں ۔یہ اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن پوری دنیا کے لیے مثال بن چکے ہیں


 ۔انھوں نے اپنی کامیڈی سے لوگوں کا دل جیت لیا ہے ۔وہ بھی کوئی بچپن سے مشہور نہیں تھے سکندر صنم نے مجبوری اور غربت کی وجہ سے ہی اس کام کو اپنایا لیکن کوئی بھی اس بات کو سمجھ نہیں سکتا کے دوسروں کو خوش کرنے والا کبھی بھی خود خوش نہیں ہوتا وہ بس مجبوری کے تحت یہ کام کرتے ہیں۔

محمد جمن بھی اسی بات پر یقین رکھتا ہے کہ ایک دن اس کی بھی زندگی تبدیل ہوگی۔

محمد جمن کا یہ کہنا ہے کہ ہم دوسرں کو خوش کر کے ان کہ چہروں کو روشن کرتے ہیں مسکراہٹ پھیلاتے ہیں ان کے آنسوں دور کرتے ہیں لیکن اپنے آنسوں چھپانے کے لیے ہم ان کی خوشی میں پیش پیش رہتے ۔

ہم میں سے زندہ وہی رہے گا جو دلوں میں زندہ رہے گا
اور دلوں میں زندہ و ہی رہتے ہیں جو آسانیاں بانٹتے ہیںِ ،محبتیں بانٹتے ہیں



ایسے بھی لوگ ہیں دنیا میں جو اپنی صلاحیاتوں کی وجہ سے آج تک زندہ ہے ان میں سے ہمارے اپنے معین اختر بھی ہیں جو اپنے فنی کامیابی کی وجہ سے خوب جانے جاتے ہیں۔وہ ایک مزاحیہ کرداری ،فلم ڈائیرکٹری،گلوکاری میں ماہر تھے۔محنت ہی انسان کو آگے بڑھنے کا موقع دیتی ہے ۔

محمد جمن بھی اسی حوصلے اور جذبے کے ساتھ اور محنت ولگن سے اپنے اس شعبے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ کیا کوئی اس کیو پروموٹ کرنے والا ہے؟ جو ان کو ایک ماناہا ماکیڈین بنا دے یا پھر وہ حیدرآباد کے کسی چھوٹے سے ہوٹل پر اسی طرح زندگی گزار دے گا؟

وہ اپنی زندگی کوتھوڑا فلمی کرداروں سے بہت متاثر ہو کراپنے اس پیشے کو شارخ خان کا ایک ڈائلاگ کہتے ہیں۔

دل توں سبھی کے پاس ہوتا ہے لیکن ہر کوئی د ل والا نہیں ہوتا


ہمیں بھی محمد جمن کی طرح اپنا دل بڑا رکھنا چاہیے ۔دوسروں کے دکھ سکھ میں برابر کا شریک ہونا چاہیے اور ہم اس دنیا میں دوسروں کا خیال رکھنے آئے ہیں توں بنا کسی مطلب سے زندگی ہنسی خوشی بسر کرے ۔