Thursday, 28 January 2016

Hyderabadi Charlie Chaplien by Simra Nasir

پروفائیل        
  حیدرآباد کا چھوٹا چارلی چیپلین 
 تحریر :  سمرہ ناصر
         ٹوٹل لفظ ۔660 
”جینا یہاںمرنا یہاں۔۔۔اس کے سوا جانا کہا۔۔۔“ کچھ لوگوںکی زندگی واقعی اس گانے کی مانند ہے۔وہ ایک ہی جگہ پر اپنی ساری زندگی وقف کردیتے ہیں۔او ر ا س ہی جگہ کو اپنی آخری جگہ بنا دیتے ہیں۔اس دنیا میںبہت سے مزاحیہ کردار ہیں جو اپنی پرواہ کیے بغیر ہمیں خوش کر تے ہیں ِ۔ایک ایسا ہی کردار حیدرآباد کے ریسٹورنٹ POINT300ُمیںہے۔وہ کارٹون کریکٹر کا ڈریس اپ کر کے بچوں اور بڑوں کے لیے مخصوص بن رہا ہے ۔یہ ہیںمحمد جمن جو بچوں کے لیے MICKEYMOUSEٰٰٰ کے نام سے وہاں جانے جاتے ہیں۔

بیس سالہ پاجمن پانچ سال سے یہاں کام کر رہے ہیں ۔ سجا گو © ٹھ کے رہائشی محمدجمن کے والد کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں وہ اپنے گھروالوں کو زیادہ خوشحال رکھنے کے لیے چارلی چیپلین بن گئے ہیں۔MICKEYMOUSE کے گیٹ اپ میں محمد جمن چارلی چیپلین سے لے کر مائیکل جیکسن تک کا روپ د ھار لیتا ہے ۔ مزے مزے کے چٹکو ں سے بچوں اور بڑوں کو گدگودانا اور بریک ڈانس کر کے مزے کو اور بڑھانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔بظاہر ہمیں یہ لوگ بہت خوش نظر آتے ہیں ۔ لیکن وہ یہ سب اپنی مجبوری کی وجہ سے کرتے ہیں ۔ 
محمد جمن مائیکل جیکسن کے بہت بڑے فین ہیں اوربریک ڈانس بھی خوب جانتے ہیں ۔بچے ان سے متاثر اور خوش بھی ہوتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کے ہم لوگوں کے لیے خوشی کا باعث تو بنتے ہیں لیکن یہی لوگ کبھی کبھی ا ہمیں د ھتکار دیتے ہیں اور ان کو غریب ہونے کا طعنہ       بھی مارتے ہیں ۔یہ بات انہیںناگوارگزرتی ہے۔محمد جمن کے ساتھ سولہ سالہ رضوان بھی اسی شعبہ میں کام کرتا ہے۔ دونوں کا کہنا ہے کہ ”ہم بھی پڑھ لکھ جاتے تو آج عزت سے رہ رہے ہوتے ۔لیکن مجبوری انسان کو کہاںلا کر کھڑا کر دیتی ہے، یہ بات وہ ہی سمجھ سکتا ہے جس پر گزرتی ہے ۔ہمارا بھی حق ہے کہ ہم خوش رہیں ،سکون کی زندگی گزاریں ، لوگ ہم سے اچھی طرح سے بات کر یں لیکن ان سب کے لیے ہم تب تک اچھے ہیںجب تک ہم انھیں ہنسارہے ہوتے ہیں ۔“

 زندگی بھی زمین کی طرح ہے جہاں موسم کی طرح تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔ سکندر صنم پاکستان کے نامور مزاحیہ کرداروں میں جانا جاتا ہے ۔وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔انھوں نے اپنی کامیڈی سے لوگوں کا دل جیت لیا ہے ۔انہوں نے بھی مجبوری اور غربت کی وجہ سے ہی اس کام کو اپنایا ۔شاید ہی کوئی اس بات کو سمجھ سکتا کے دوسروں کو خوش کرنے والا خود اندر سے خوش نہیںہوتا ۔

محمدجمن کو یقین ہے کہ ایک دن اس کی بھی زندگی تبدیل ہوگی۔ان کا کہنا ہے کہ ہم دوسرں کو خوش کر کے ان کہ چہروں کو روشن کرتے ہیں مسکراہٹ پھیلاتے ہیں ان کے آنسوں دور کرتے ہیں لیکن اپنے آنسوں چھپانے کے لیے ہم ان کی خوشی میںپیش پیش رہتے ۔
 ہم میں سے زندہ وہی رہے گا    جو دلوںمیںزندہ رہے گا 
 اور دلوںمیں زندہ و ہی رہتے ہیں  جو آسانیاںبانٹتے ہیں ِ،محبتیںبانٹتے ہیں 
ایسے لوگ ہی اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے آج تک زندہ ہے محنت ہی انسان کو آگے بڑھنے کا موقع دےتی ہے ۔محمد جمن بھی اسی حوصلے اور جذبے کے ساتھ اور محنت ولگن سے اپنے اس شعبے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ کیا کوئی اس کیو پروموٹ کرنے والا ہے؟ جو ان کو ایک ماناہا ماکیڈین بنا دے یا پھر وہ حیدرآباد کے کسی چھوٹے سے ہوٹل پر اسی طرح زندگی گزار دے گا؟

وہ اپنی زندگی کوتھوڑا فلمی کرداروں سے بہت متاثر ہو کراپنے اس پیشے کو شارخ خان کا ایک ڈائلاگ کہتے ہیں: ’ ’ دل توں سبھی کے پاس ہوتا ہے لیکن ہر کوئی د ل والا نہیں ہوتا“ 
ہمیں بھی محمد جمن کی طرح اپنا دل بڑا رکھنا چاہیے ۔ زندگی ہنسی خوشی بسر کرے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پروفائیل
حیدرآباد کا چھوٹا چارلی چیپلین
تحریر : سمرا شیخ





جینا یہاں مرنا یہاں۔۔۔ اس کے سوا جانا کہا۔۔

حقیقت یہی ہے کہ کچھ لوگوں کی زندگی اس گانے کی مانند ہے۔وہ ایک ہی جگہ پر اپنی ساری زندگی وقف کردیتے ہیں۔اسی جگہ کو اپنی آخری جگہ بنا دیتے ہیں۔اس دنیا میں بہت مزاحیہ کردار ہیں جو اپنی پروا کیے بغیر ہمیں خوش کر تے ہیںِ ۔ایک ایسا ہی کردار حیدرآباد کے ریسٹورنٹ POINT300ُمیں ہے۔ وہ کارٹون کریکٹر کا دریس اپ کر کے بچوں اور بڑوں کے لیے محضوظ بن رہا ہے ۔محمد جمن جو بچوں کے لیے MICKEYMOUSEٰٰٰ کے نام سے وہاں جانے جاتے ہیں۔

پانچ سال سے یہاں کام کر رہے ہیں اور ان کی عمر بیس سال ہے ان کا تعلق للجا گوٹ سے ہے ۔ محمد جمن کے والد کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں اور محمد جمن اپنے گھروالوں کو اور بھی زیادہ خوشحال رکھنے کے لیے چارلی چیپلین بن گئے ہیں۔MICKEYMOUSE کے گیٹ اپ میں محمد جمن چارلی چیپلین سے لے کر مائیکل جیکسن تک کا روپ ڈھال لیتا ہے ۔

اپنے مزے مزے چیٹکولیوں سے بچوں اور بڑوں کو گدگودانا اور بریک ڈانس کر کے مزے کو اور بڑھانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔بظاہر ہمیں یہ لوگ بہت خوش نظر آتے ہیں کیوں کہ وہ ہمیں خوش رکھ رہے ہوتے ہیں لیکن وہ یہ سب اپنی مجبوری کی وجہ سے کرتے ہیں ۔


محمد جمن مائیکل جیکسن کے بہت بڑے فین ہیں بریک ڈانس بھی خوب جانتے ہیں ۔بچے ان سے متاثر اور خوش بھی ہوتے ہیں ۔محمد جمن کا کہنا ہے کے ہم لوگوں کے لیے خوشی کا باعث تو بنتے ہیں لیکن یہی لوگ کبھی کبھی ان کو دہدکار دیتے ہیں اور ان کو غریب ہونے کا تانا بھی مارتے ہیں ۔

یہ بات محمد جمن اور ان کے ساتھی پرناگوارگزرتی ہے۔ محمد جمن کے ساتھ سولہ سال کا رضوان بھی اسی شعبہ میں کام کرتا ہے ان دونوں کا کہنا ہے کہ ہم بھی پڑھ لکھ جاتے تو آج
عزت سے رہ رہے ہوتے ۔۔۔لیکن مجبوری انسان کو کہاں لا کر کھاڑا کر دیتی ہے یہ بات وہ ہی سمجھ سکتا ہے جس پر گزرتی ہے ۔ہمارا بھی حق ہے کہ ہم خوش رہیں سکون کی زندگی گزارے لوگ ہم سے اچھی طرح سے بات کرے اس بھی ہم خوش ہے لیکن ان سب کے لیے ہم تب تک اچھے ہیں جب تک ہم انھیں ہنسارہے ہوتے ہیں ۔

کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز مستقل نہیں ہوتی بھلے وہ کوئی پریشانی اور مشکلات ہی کیوں نہ ہو۔ زندگی بھی زمین کی طرح گھومتی رہتی ہے اور موسم کی طرح تبدیل ہوتی ہے ۔ہم بات کرے اپنی ایک مشہور ہنستی سکندر صنم کی جن کا نام پاکستان کے نامور مزاحیہ کرداروں میں جانے جاتے ہیں ۔یہ اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن پوری دنیا کے لیے مثال بن چکے ہیں


 ۔انھوں نے اپنی کامیڈی سے لوگوں کا دل جیت لیا ہے ۔وہ بھی کوئی بچپن سے مشہور نہیں تھے سکندر صنم نے مجبوری اور غربت کی وجہ سے ہی اس کام کو اپنایا لیکن کوئی بھی اس بات کو سمجھ نہیں سکتا کے دوسروں کو خوش کرنے والا کبھی بھی خود خوش نہیں ہوتا وہ بس مجبوری کے تحت یہ کام کرتے ہیں۔

محمد جمن بھی اسی بات پر یقین رکھتا ہے کہ ایک دن اس کی بھی زندگی تبدیل ہوگی۔

محمد جمن کا یہ کہنا ہے کہ ہم دوسرں کو خوش کر کے ان کہ چہروں کو روشن کرتے ہیں مسکراہٹ پھیلاتے ہیں ان کے آنسوں دور کرتے ہیں لیکن اپنے آنسوں چھپانے کے لیے ہم ان کی خوشی میں پیش پیش رہتے ۔

ہم میں سے زندہ وہی رہے گا جو دلوں میں زندہ رہے گا
اور دلوں میں زندہ و ہی رہتے ہیں جو آسانیاں بانٹتے ہیںِ ،محبتیں بانٹتے ہیں



ایسے بھی لوگ ہیں دنیا میں جو اپنی صلاحیاتوں کی وجہ سے آج تک زندہ ہے ان میں سے ہمارے اپنے معین اختر بھی ہیں جو اپنے فنی کامیابی کی وجہ سے خوب جانے جاتے ہیں۔وہ ایک مزاحیہ کرداری ،فلم ڈائیرکٹری،گلوکاری میں ماہر تھے۔محنت ہی انسان کو آگے بڑھنے کا موقع دیتی ہے ۔

محمد جمن بھی اسی حوصلے اور جذبے کے ساتھ اور محنت ولگن سے اپنے اس شعبے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ کیا کوئی اس کیو پروموٹ کرنے والا ہے؟ جو ان کو ایک ماناہا ماکیڈین بنا دے یا پھر وہ حیدرآباد کے کسی چھوٹے سے ہوٹل پر اسی طرح زندگی گزار دے گا؟

وہ اپنی زندگی کوتھوڑا فلمی کرداروں سے بہت متاثر ہو کراپنے اس پیشے کو شارخ خان کا ایک ڈائلاگ کہتے ہیں۔

دل توں سبھی کے پاس ہوتا ہے لیکن ہر کوئی د ل والا نہیں ہوتا


ہمیں بھی محمد جمن کی طرح اپنا دل بڑا رکھنا چاہیے ۔دوسروں کے دکھ سکھ میں برابر کا شریک ہونا چاہیے اور ہم اس دنیا میں دوسروں کا خیال رکھنے آئے ہیں توں بنا کسی مطلب سے زندگی ہنسی خوشی بسر کرے ۔

No comments:

Post a Comment