Showing posts with label فراز احمد. Show all posts
Showing posts with label فراز احمد. Show all posts

Monday, 15 February 2016

Department of Statistics an introduction



شعبہ اسٹیٹسٹکس : ایک تعارف
تحریر: فراز احمد رول نمبر ۲۲
جامعہ سندھ کا شعبہ اسٹیٹسٹکس ۱۹۶۴ ؁ میں قیام ؂؂؂؂؂؂ میں آیا اور تین سال کے قلیل عرصے میں ایک خود مختار شعبہ کی حیثیت سے تدریسی عمل جاری رکھا پھر ۱۹۷۲ ؁ میں اسے شعبہ ریاضی کے ساتھ منتجم کر دیا گیا پھر کچھ عرصے بعد اس کی خود مختار حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے دوبارہ الگ کر دیا گیا اور جب سے اب تک یہ ایک آزاد اور خودمختار شعبہ کی حیثیت سے اپنی سر گرمیاں سر انجام دے رہا ہے۔ شعبہ اسٹیٹسٹکس کو ۹ مئی ۱۹۹۳ ؁ کو اولڈ کیمپس سے جامشورو میں منتقل کر دیا گیا اور اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر رشید احمد شاہ نے اس کا افتتاح کیا جسے تمام تر وقتی سہولیات سے آراستہ کیا گیا جس میں ۲ ڈیجیٹل کمپیوٹر لیب اور ایک سیمینار لائیبریری بھی شامل ہے جس تمام تر طلباء و طالبات مستفید ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ سہولت بھی طلبہ کو میسر ہے اور لائیبریری میں ۲۳۰۰ سے زائد کتابیں میسر ہیں
جنھیں وہ اپنی ریسرچ اور پڑھائی کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔

شعبہ اسٹیٹسٹکس ۴ سالہ بیچلر پروگرام (stat) اور ڈپلومہ پروگرام متعارف کرایا گیا اور ۱۹۹۰ ؁ میں ایم،ایس ،سی متعارف کرایا گیا جس میں ۵۵ طلبہ و طلبات کا داخلہ ہوا ، ۲۰۰۲ ؁ میں جامعہ کی طرف سے ایم،فل اور پی،ایچ ،ڈی پروگرام بھی کروایا جانے لگا ، جس میں اس وقت ۷ سات طالب علم ریسرچ اسٹڈیز میں اپنی ڈگری مکمل کر رہے ہیں ۔

شعبہ اسٹیٹسٹکس میں اس وقت ۹ فیکلٹی ممبران اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں جیئر مین پروفیسر میر غلام حیدر تالپور ہیں۔ جبکہ پانچ اسسٹنٹ پروفیسر ۱ امداد حسین سومرو ، ۲ اشتاق احمد جونیجو ، ۳ عمر علی رند ، ۴ جاوید اقبال چانڈیو ، ۵ نازیہ پروین گل جو کہ اس وقت اپنی پی،ایچ،ڈی مکمل کرنے جامعہ کی طرف سے ہالینڈ گئی ہوئی ہیں جو کہ متوقع مئی ۲۰۱۶ ؁ تک واپس آجائیں گی ، ان کے ساتھ ایک لیکچرار اور ایک ٹیچنگ اسسٹیٹ شامل ہیں اور ایک پروفیسر ڈاکٹر راجہ محمد الیاس visiting faculty کے طور پر اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں ڈاکٹر راجہ محمد الیاس اپنی رٹائنٹمنٹ تک اس شعبہ کے بطور چیئرمیں اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں ۔

اس وقت شعبہ میں ۷ طالب علم پی یچ ڈی ۲ طالب علم ایم فل، 291 بیچلر پروگرام، 2 ایم اے پریویس اور4 ایم ایس سی میں تعلیمات مکمل کر رہے ہیں جن کی مجموعی تعداد 326 طلبہ و طلبات پر مشتمل ہے یہاں یہ بات بھی قا بل ذکر ہے یہاں کے اکثر اساتذہ کرام اور اسٹاف ممبر اسی شعبہ سے زیر تعلیم ہوکر یہیں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں خواہ وہ ٹیچرز ہوں یا اسٹاف ممبر شعبہ کی طرف سے کئی ریسرچ پیپرز مختلف عنوان پر شائع کئے گئے ہیں جو کہ قومی اور بین القوامی جنرل کا حصہ بنا ہے شعبہ کی اہمیت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور اس شعبہ کو ہر اہمیت حاصل ہے جس کی وجہ سے اس کے اہل تعلیم یافتہ کا کافی مطالبہ ہے نجی اور عوامی تنظیم میں بھی ان افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر بھی 4 شعبہ میں آسامیاں درکاتی کی جاتی ہے جو کہ Federal Bureau of Statistic ، Population Census Organization، Agriculture Census Organization اور Bureau of Statistic اور مختلف تنظیمات صوبائی سطح پر نوکری کے مواقع فراہم کر رہی ہیں اور اسکے علاوہ اور بینکوں میں بھی اس کی کافی مانگ ہے 

شعبہ دوران تعلیم ہی طلبہ و طالبات کو تربیتی دوروں میں بینکوں اور مختلف آفسوں کے دوروں سے کام کی نویت اور آنے والے مستقبل کے درپیش مسائل سے بھی آگاہ کرتا ہے کہ طالب علم جہاں سے جا کر اپنے کریئر کی شروعات کرے تو اُسے کسی پریشان کی سامنا نہ کرنا پڑے ۔ان تمام تر سہولیات کے باوجود بھی اس بات کی ضرورت نظر آتی ہے کہ شعبہ کی اس اہمیت سے آگاہی کی جائے تاکہ ہماری نوجوان نسل ان شعبوں میں اپنے ذوق و شوق کے ساتھ حصہ لے سکیں اور ان تمام تر سہولیات سے فائدہ اُٹھا کہ اپنے ملک کی فلاح و بہبود کے لئے بھی کام کرسکیں ۔

Tuesday, 19 January 2016

Referred back photostat on decline

فراز احمد ۔ آرٹیکل 
فوٹو اسٹیٹیٹ کاروبار کا کم ہوتا رجحان
5 Ws and 1 H are always in media writing. Some figures are needed. for example number of shops are reducing, etc
یوں تو ہمارے ملک میں معاشی لحاز سے ہر کاروبار میں غریب کا کوئی پرسان حال نہیں لیکن اس میں ایک نمایان طبقہ جو کے فوٹو اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ہے ۔ فوٹواسٹیٹ کا کاروبار ۰۵۹۱ کی دہائی میں (زیروز) کے نام شروع ہوا ، فوٹو اسٹیٹ کا کاروبار پاکستان میں سنہ ۰۸۹۱ کی دہائی شروع ہوا پھر بعد ازاں وقت کے ساتھ ساتھ سادی فوٹوکاپی سے پاﺅڈر فوٹوکاپی میں منتقل ہوا جس کے بعد وقت کی جدت کےساتھ ساتھ ۰۰۰۲ کی دہائی میں ڈیجیٹل فوٹوکاپی بھی آ گئی جس کی وجہ سے پرنٹر کنیکشن، فیکس مشین، اسکیننگ میںکافی آسانی پیدا ہوگئی۔ جس کے بعد فوٹواسٹیٹ میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی جو کہ کلر فوٹوکاپی ہے جس میں تمام تر سر آرائشیں موجود تھیں جس کا باآسانی استعمال ہے۔
اس کاروبار کا سب سے بڑا انحصار گورنمنٹ دفاتر، ایجوکیشن سیکٹر پر مشتمل تھا فوٹواسٹیٹ کاروبار میں کمی کے رجحان کی کافی وجوحات ہیں جس کی نمایاں وجہ پیپر ورک کا کام سوفٹ کاپی اور آن لائن ہوتے جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ سستے داموں پرنٹرز کے دستیاب ہونے کی وجہ سے آفسوں میں ہی لگا لئے گئے جو کی وجہ سے اس کاروبار میں نمایاں کمی آئی اس کے ساتھ ساتھ فوٹواسٹیٹ کا کاروبار ان مشینوں کی برآمدات پر بھی مشتمل تھا باکستان میں یہ تمام مشینیں بیرون ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں پاکستان میں اس کی کوئی سند موجود ہی نہیں تو تمام تر مشینیں استعمال شدہ منگائی جاتی تھیں جو کہ ۰۱۰۲سنہ کی دہائی کی آخر میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں درآمدات میں کسٹم دیوٹی ۰۵ فیصد بڑھائی جانے کی وجہ سے اس کی خریداری میں منفی اثرات پڑے اور اس میں بتدریج اضافہ ہی دیکھنے میں آراہا ہے لوڈشیڈنگ کیی بھی وجہ سے اس پر کافی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جو ایک فوٹوکاپی ۲ روپے فی پیپر پڑتی ہے وہ جنریٹر پر ۴ روپے فی پیپر پڑتی ہے۔ مٹیریل کا مہنگا ہونا بھی اس میں شامل ہے پشین کی رپیرننگ، لیبر، دکان کا کرایہ اور دیگر چیزیں شامل ہیں جس کے بعد مسکل سے ہی ان کا گزر بسر ہو پاتا ہے، ان مشینوں کے ٹیکنیشن بھی بہت ہی کپ دستیاب ہوتے ہیں اور جو ہیں بھی وہ لا علمی کے باعث ایک مشین کے چھوٹے سے فالٹ کی وجہ سے بھی مسین سکریپ ہوجاتی ہے جو کہ اس کاروباری حضرات کے لئے بہت بڑا علمیہ ہے جس کی وجہ سے اس کاوبار سے وابستہ لوگ مالی خسارے کی وجہ سے دور ہوتے جارہے ہیں مستقبل میں بھی اس کاروبار کے بڑھنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی جس کی وجہ کاغذ کا درخت کی کٹائی سے بننا ہے اور گلوبل وارمنگ میں بھی تبدیلی آرہی ہے اور دنیا میں اسی بات پر زور دیا جارہا ہے کہ ہارڈ کاپی کی بجائے اب سافٹ کاپی پر منتقلی پر زور دیا جارہا ہے اور آہستہ آہستہ ہارڈکاپی کا رجحان بالکل ہی ختم ہوجائے گا۔