Showing posts with label سائرہ. Show all posts
Showing posts with label سائرہ. Show all posts

Tuesday, 2 February 2016

مکھی محل - سائرہ ناصر

Unchecked
 Needs more attribution. plz disscuss


سائرہ ناصر ؔ : فیچر 
رول نمبر: 2K14/MC/84


                                       مکھی محل

ہندو -پاک کے بہت سے شہروں کی طرح شہر حیدرآباد بھی اپنی شاندار تعمیراتی شاہکاروں کی وجہ سے مشہور ہے ۔تاہم بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریات کی وجہ سے اکثریت حویلیاں اور محلات ہندو باشندوں نے تعمیر کروائے جو طویل تقسیم سے پہلے ختم ہو چکے ۔ جن میں سے ایک وقت سے بچایا ہوا سندھی ہندو خاندان ورثہ کا گھر مکھی محل ہے ۔


شاندار فنِ تعمیر کا شاہکار نمونہ مکھی محل آج سے تقریباًسو دہائیوں قبل مکھی جیتھا نند بِن پرتم داس ( ۱۸۳۳ - ۱۹۲۷)نے ۱۹۲۰ میں اپنی خواہش اور پسند کے عین مطابق تعمیر کروایا اور اسے مکھی ہاؤس نہیں بلکہ مکھی محل کا نام دیا اور ۱۹۲۷ میں رحلت کے بعد اپنی بیواہ اور دو بیٹوں کے نام کر گئے ۔ مکھی ہاؤس پّکے قلعے کے مرکزی دروازے اور ہوم اسٹیڈ ہال کے برعکس جائے پر واقع ہے ۔اس کی 833-3 مربع گز پیمائش کا ذکر شہری سروے نمبر 983 وارڈ D میں کیا گیا ہے ۔



بقول مکھی خاندان کی ۹۵ سالہ دھرم کے: ۱۹۷۵ میں ہماری مٹیاری کی ذرعی ذمین میں دلچسپی رکھنے والے ساتھیوں نے یہ افواہ پھیلا دی تھی کہ مکھی خاندان کی جان کو خطرہ ہے اس لئے ہم مکھی محل چھوڑ کر چلے گئے تھے 


مکھی خاندان کے جانے کے بعد متروکہ حکام نے آ مدنی کے لئے قبضہ کیا اور دکان قائم کی ،پھر رینجرز کو حفاظت کے لئے تعینات کیا گیا لیکن انہوں نے عمارت کا غلط استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔سردی سے بچاو کے لئے کھڑکی کے فریم کو آگ جلانے کے لئے استعمال کرتے تھے ۔ رینجرز کے بعد گھر خدیجہ خدیجہ گرلز ہائی اسکول کے حوالے کر دیا گیا ۔


متعدد ایجنسیوں کی مکھی ہاؤس کی شاندار ساخت پر قبضہ کی کوشش کے باوجوداس کی شان کو تبدیل نہ کیا جا سکا ۔ لہذا ۲۰۰۹ میں اینٹیکیوٹس ڈپارٹمنٹ کے ون مین آرمی کلیم اللہ لاشاری نے چارج سنبھالا اور مکمل ۱۶ تصاویرکی مدد سے پانچ سال مکھی محل کو ا’سکی اصل حالت میں لانے کے لئے کام کیا ، اور ۲۰۱۳ کو مکھی ہاؤس میوزیم کا افتتاح کیا جس میں مکھی خاندان کے ارکان نے شمولیت کی جن میں سے دھرم اور اندرو نے اپنے گھر کے کونے کونے سے جڑی بچپن کی یادوں کو دہرایا ۔


 مکھی جیتھانند کے ۲۷ ورثاء جس میں آپکے بھائی کے بچّوں میں سے اندرو نے حکومت کو مکھی ہاؤس کو عوام کے لئے میوزیم کے طور پر کھولنے کی اجازت دی اس شرط کے ساتھ کہ اگر حکومت نے اس پر قبضہ کیا یا اسے غلط مقصد میں استعمال کیا تو یہ واپس لے لیا جائیگا ۔ 


مکھی محل پنر جہان انداز میں بنایا گیا ہے۔ گھر کے تمام آرائشی سازوسامان محل کے ہیں عمارت کی تعمیر میں اعلی معیار کا ماربل ،جودھپور کا پتھر اور پلاسٹر آف پیرس کا مواد استعمال کیا گیا تھاہے۔ ساگوان لکڑی بڑے پیمانے پر عمارت میں استعمال کی گئی ۔ دروازے اور کھڑکیوں میں شیشم کی لکڑی استعمال کی گئی ہے جس پر دلکش ڈیذائننگ گلاس لگے ہوئے ہیں۔دیواروں پر پھولوں کے ڈیذائن ہیں ۔ 



مکھی ہاؤس کے مرکزی دروازے کے اردگرد مضباط دیوار ہے ۔ دائیں جانب سیڑیوں سے چڑھتے ہی بڑے صحن میں داخل ہوتے ہیں ۔ جس کے متعلق مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہاں پر مکھی فیملی اپنی عبادت کرتے تھے اور پرساد تقسیم کرتے تھے ۔ گراونڈ فلور۸ کمروں پر مشتمل ہے ہر کمرے میں تین سے چار دروازے ہیں ۔ ہر دروازہ دوسرے کمرے میں کھلتا ہے ۔ہر کمرے میں متعدد ہوادان ہیں ۔برآمدے کے مشرقی حصّے سے دو باتھ روم اور ایک سنڈاس ہے ۔

 ایک لکڑی کی سیڑھی صحن کی مغربی سمت سے پہلیمنزل کی طرف جاتی ہے ۔ پہلی منزل چھ بیڈروم اور ایک چھوٹے سے ہال پر مشتمل ہے ،جبکہ مشرقی اور مغربی جانب مزید دو کمرے اور اسٹور روم ہے ۔ دونوں کمرے کشادہ ہال کیساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ جنوبی جانب ایک برآمدہ اور بالکنی ہے جس کے مشرقی حصے میں دو باتھروم اور ایک سنڈاس ہے ۔اندرونی دیواریں مختلف قسم کی پینٹنگز سے سجی ہوئی ہیں ۔


حیدرآباد کے دل میں دفن فنِ تعمیر کا شاہکار نمونہ جسے توجہ کا مرکز ہونا چاہئے اور اور بہتر رہنمائی ہونی چاہئے لیکن افسوس وہ اپنے اطراف میں بھی پہچان سے محروم ہے جسکا پتہ وہاں کہ علاقہ مکین کی لاعلمی سے ہوا ۔۳۰ سال سے رہائش پزیر اشرف کا کہنا ہے کہ : یہ ایک صرف عمارت ہے جو مختلف لوگو ں کے قبضے میں رہ چکی ہے ۔


۵۸ سالوں سے رہائش پزیر محمد یوسف کا کہنا ہے کہ : یہ عمارت ہندو طریقت کی بہترین مثال ہے کیونکہ ہندووں کی یہ روایت ہے کہ وہ کوئی عمارت یا دھرم شالاضرور تعمیر کرتے ہیں جو کہ انسانی فلاح کے کام آتی ہے۔مکھی محل بھی بے آسرا اور مسافر لوگوں کے ٹہرنے کے لیے بہترین ٹھکانا تھا خاص کر کہ ہندو وہاں رات گزارتے اور صبح اپنی منزل کی جانب بڑھ جاتے ۔
اب مکھی محل کو سندھ حکومت نے قبضہ میں لے کر اسے میوزیم بنا دیا ہے جس کے افتتاح پر سندھ حکومت کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔ 

Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, Department of Media & Communication Studies, University of Sindh

Tuesday, 19 January 2016

Referred back Raj Mangwani Profile

راج منگوانی
سائرہ ناصر: پروفائل 
2k14/MC/84

 آپ ایڈیٹوریل بورڈ میں ہو۔ املا کی غلطیاں بہت ہیں۔ ایک بار اور پڑھ کر ٹھیک کر لیں۔ مثلا: مشھور، ے, ی ، ھونے، مقوبلیت، ر راحمانہ ، 
ان کی شخصیت کا کسی اور سے موازنہ، متعلقہ شعبے کے لوگوں کی رائے وغیرہ  ضروری ہوتا ہے۔ آپ نے جو لکھا ہے وہ آپ کا صرف مشاہدہ ہے۔ جو کہ ایک حصہ ہے۔ باقی چیزیں؟ پروفائیل میں فوٹو بھی چاہئے ہوتی ہے۔ 
حیدرآباد کی اہم شاہراہ پر موجود عالیشان کےفے اور ریستورانٹ © ©” © © © © © © © دی گریوٹی “کے مالک راج منگوانی نے جنوری ۱۹۹۲ کو حید ر ٓباد میں آنکھ کھولی ۔ ٓپ مشھور چاول کے صنعتکاری پریم چندر کے بیٹے اور گھر کے بڑے فرزند ہیں ۔ مقامی علاقے سے مےٹرک اور انٹر کرنے کے بعد آپ نے
بی کام کے لیے جامعہ سندھ میں داخلہ لےا اور ۲۰۱۴ میں مکمل کےا ۔ 
پڑھائی مےں دلچسپی نہ ھونے کی وجہ سے والد نے ٓپکا بزنس کی جانب رجحان بڑھاےا ۔ لےکن وہاں کی روزمرہ کی زندگی ٓپکو متا ثر نہ کر سکی اور ٓپ عاجزآکر چھوڑ آئے اور اپنا ذاتی کاروبار کھولنے کا ارادہ کیا ۔ راج بچپن سے شوخ طبیعت کے مالک ہیں ۔ہر ہفتہ اتوار کو دوستوں کے ساتھ کراچی جانا وہاں کے کےفوں مےں مزہ کرنااور وہاں کے منفرد کھانوں کو کھانا ٓپکا شوق رہا ہے ۔ خاص کر کہ کراچی کے ڈاو ¿ن ٹاو ¿ن کےفے نے آپکو نہایت متاثر کیا کہ ٓاپ نے حیدرآباد میں کےفے اور ریستورانٹ کو کھولنے کا تہےہ کیا ۔ والد صاحب کی مخالفت ہونے کے باوجود اپنی ذاتی کار بیچ کر اور والدہ کی حماےت کے ساتھ آپ نے ۵۱ اپریل ۳۱۰۲ کو اپنے کےفے کا شاندار انعقادا کیا اور خوب پزیرائی حاصل کی اس دوران آپ نے کئی مشکلات کا سامنا کیا لےکن کچھ کر دکھانے کے عزم سے آپ نے ہمت نہ ہاری اور منزل کی جانب اڑان بھری اور اطالوی کھانوں کو پاکستان میں اعلی سطح پہ متعارف کروانے مےں کامےاب رہے اور اپنے مدِمقابل تمام تر ریستورانٹ کے ساتھ برابری سے مقابلہ کیا ۔ 
 آپکے ریستورانٹ کی مقوبلیت اور کامےابی کی ایک وجہ آپکا شگفتہ مزاج ہے جس سے متاثر ہو کر لوگ بار بار گروٹی کا ر’خ کرتے ہیں ۔ آپکا اخلاق اپنے اسٹاف کے ساتھ بھی بہت شائستہ اور راحمانہ ہے ۔آپکے اخلاق سے متعلق آپکے دوستوں کا کہنا ہے کہ : ”را ج ہم یاروںکا ےار ہے اور گروپ کی جان ہے ہر فن مولا ہے محفل میں جان ڈا ل دےتا ہے ۔ اگر راج ساتھ نہ ہو تو تفریح نہےں آتی اور محفل بے رونق رہتی ہے ۔ مستی مذاق کرنا اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنا راج کے لے کوئی مشکل کام نہےں۔ © © “ 

 راج فارغ اوقات مےں کھانا پکانا پسند کرتے ہےں نہ صرف پکانے کا شوق ہے بلکہ دوسروں کو بھی کھلانے کا بھرپور شوق ہےں ۔ چکن اسٹیک،چکن کراہی آپکے پسندیدہ کھانو ں میں سے ہےں۔ 
     اتنی کامیابیوں کو حاصل کرنے کے باوجود راج زندگی سے کچھ نہ امید ہےں ۔ اسکی وجہ آپکی ادھوری محبت ہے جس محبت کےساتھ۵سال زندگی کے حسین لمحات گزارے تھے انکے ساتھ زندگی کا ساتھ نصیب نہیں ہوسکا ظالم سماج اوراونچے و نےچلے طبقے کا فرق ہونے کی وجہ سے آپ ازدواجی زندگی میں نہ بندھ سکے اور علےحدگی دونوں کا مقدر بنی ۔ آپکی محبت تو اپنے پیا گھر سدھار گئی لےکن اپنی ےادیں چھوڑ گےں جس کے نتےجے مےں آپ نے سگریٹ نوشی اور شیشہ پینا شروع کیا ۔والدہ سے گھر واپسی پر ڈانٹ سے بچنے کےلئے کوئی خوشبودار چیز کھا لیا کرتے لیکن اپنے غم کی کسی کو بھنک تک نہ پڑنے دی۔ 
تمام دکھ غم بھلا کر راج نے دوبارہ زندگی کی طرف قدم بڑھاےا اور اپنے شوق تلے دباےا دیا ۔ راج سارہ دن کو اپنے بزنس کے نام کرتے ہیں مگر اسکے باوجود اپنی فٹنس کا بھرپور خےال رکھتے ہیں آپ ایک مضبوط قدوقامت کے مالک ہےں وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتے ہیں سوٹ بوٹ اور بے داغ چمکتی جلد اور رنگت جو کسی لڑکی کا خواب ہوتا ہے جاننے پر معلوم ہوا کہ دن میں چھ سات مرتبہ سبز چائے کا استعمال اسکا راز ہے ۔ 
را ج منگوانی کا نوجوان نسل کو پیغام ہے کہ اگر کچھ کر دکھانے کی لگن ہو اور عزم ہو تو وہ اپنے خوابوں کو ھو ¿حقیقت کا رنگ دے سکتا ہے۔ 

Referred back tamseel kari


Reenactment's meaning is ماضی کے واقعہ کو اداکاری کے ذریعے دوبارہ پیش کرنے کا عمل
reenactment is the action of performing a new version of an old event, usually in a theatrical performance. If you're interested in history, you might enjoy watching a reenactment of a major battle or speech. In a reenactment, people try to get the details as close to the original as possible. 
In that way all historical movies etc  fall in this category.
Chnage intro. first fully define it and then describe a new type of reenactment has been introduced etc. 

 mind it it is with ث  and not with ش
تمشیل کاری (Reenactment)

سائرہ ناصر: آرٹیکل 
رول  نمبر : 2k14/Mc/84

ماضی کے واقعہ کو اداکاری کے ذریعے دوبارہ پیش کرنے کا عمل
نوجوان لوگ زیادہ تر ترجیح رہتے ہیں اپنے وقت کو  الیکٹرونک میڈیا جیسے وڈیوگیمز ، ٹی وی   ،کمپیوٹر ) پر صرف کرنے کو  غیر الیکٹرونک میڈیا  اور سما جیات کی بنا  ء پر اگرچہ ہم نے نئی روایات بوئے وہ ترتیب دی لی ہیں سماجیات کی جوکہ ٹی وی    دیکھنے اور وڈیوگیمز کھیلنے کے ارد گرد محدود رہتی ہیں ۔ لیکن سماجی ضروریات کو یہ تمام چیزیں پورا نہیں کر تی ہیں کیوں کہ انسان بذاتِ خود سماجی جانور ہے۔میڈیا کے لوگ اس حقیقت سے آشنا ہیں اور اس رحیتر کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے ڈرامہ کی ایک نئی قسم متعارف کروائی ہے جس کو تمشیل کاری کہتے ہیں ۔ڈرامے کی یہ قسم بہت ہی نئ ہے مگر انسانی فطرت کے قریب ہونے کی وجہ سے جلو ہی اس قسم نے لوگوں میں مقبولیت حاصل کی ۔اس قسم میں سب سے زیادہ مقبولیت ان تمشیل کاروں نے حاصل کی جو جرم اور سزا سے متعلق کہانیوں پر مشتمل قید کیوکہ جرم انسان کی فطرت میں اس وقت سے ہے جب سے دنیا بنی ۔اسی طرح جرم کے خلاف جدو جہد کرنا اور اسکے خاتمے کی کوشش کرنا بھی انسانی فطرت کا لازمی حصہ ہے۔
انسانی جزبات کا اگر اندازہ لیا جائے تو ہمیںاندازہ لگاکہ جزبات توجہ مانگتے ہیں جوکہ پروان چڑھاتے ہیں سکھنے کو ، رویوں کو اور یا راست کو ۔پس ماس میڈیا بنیادی جذباتی عناصر کو بہت نحتگد سے پیوست کرتا ہے ۔اپنے روذمرہ کی پروگراسنگ میں زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لئیے  تشدد اور جنسیت میڈیا میں بنیادی جذبات کو اجاگر کرتی ہے۔ زیادہ تر نواجان لوگوں کا سامنا ہزاروں تشدد سے بھرے عوامل سے ہوتا ہے اور درجن بھر جنسیت کے عوامل کا ان کے بچپن پر بہت زیادہ اثر ہوتا  ہے جوکہ میڈیا کے لیئے باعثِ توجہ ہے۔
اس چیز کے بارے میں صداافسوس کے ساتھ ہمیں پتہ چلتا ہے جب ہم لوگوں کے ذاتی تجربات کی روشنی میں ان کے  رویوں اور بات چیت سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ماس میڈیا کوشش کرتا ہے کہ وہ ہمیں دکھائے کہ چیز کتنی شہدت انگیز ہے نہ کہ جنسی ، طاقتور ہے نہ کہ پرامن ۔اور ماس میڈیا کے ماہرین اس استحصال اور کمزوری کو پیش کرتے ہیں تمشیل کاری کی صورت میں۔
تمشیل کاری ایک فارم ہے جس کے زریعے ہم ان ھارنعات اور  واقعات کو ڈرامہ کی صوررت میں پیش کرتے ہیں جو کہ پہلے سے ہی ہمارے معاشرے میں ہو چکے ہوتے ہیں ان واقعات کی پہلے تفصیلات لی جاتی ہیں اس کے بعد اُسے کیمرے کی آنکھوں میں بند کرکےپیش کیا جاتا ہے۔مگر پاکستان میں جب تمشیل کاری نے مقبولیت حاصل کی تو لوگوں نے اسکو کمائی سمجھتے ہوئے ۔تمشیل کاروں میں اصل کی جگہ تحیلاتی کہانیوں کو جگہ دی انکا بنیادی مقصد سب سے پہلے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے اور فاص خاص کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو موجود ہ رجحانات کےبارے میں بتانا ہے۔ کہ لوگ کس طرح سے جرم میں ملوث ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں یہ تمشیل کاری بلکل ہی الٹ کردار ادا کر تی ہے۔بجائے اس کے یہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کریں یہ تمشیل کاری معاشرے میں کرائم کلچر کو فروغ  دیتی ہے تازہ ترین رجحانات کو جرائم کے اندر اپنایا ہے مجرموں نے نہ کہ ہماری قانون نافذ  کرنے والے اداروں نے جس کے نتیجے میں کرائم کا تناسب ہمارے معاشرے میں بڑھ چکا ہے۔
اس مقداری مطالعہ کا مقصد ٹی وی   دیکھنے اور خاص طور پر کرائم شوز کو دیکھنے اور ان کے اثرات کو جاننا ہےتم شیل کاری کے یہ اثرات کو فروغ دے رہے ہیں ۔جرائم ہماری زندگی کے ائوٹ انگ ہیں اگرچہ ان کا سب سے بدترین جوکہ میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا ہےبراہِ راست اثر ہے ہماری زندگیوں اور ہمارے معاشرے پر  یہ نتائج واضح ہیں جنہوں نے مجھے حیران کیا اور مجبور کیا کہ میں اپنے مطالعے کو اس میدان میں ایک نئی آئس بریک کے طور پر متعارف کرئے۔
میڈیا کے ہما رے رویوں پر دوہرے اثرات ہیں ۔جو کہ مثیت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی یہ ہمیشر عمل کر متی ہے حوصلہ افزائی کے  ساتھ حوصلہ شکنی کے ذمرے میں ہیں ۔بعض اوقات  ہم انکو ناپسند کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہم ان پروگرامز کو دیکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ ایسے پروگرامزہمارے لیے رہنمائی کا زریعہ ہیں ۔ ہاں یہ معنیٰ خیز پیغام دیتے ہیں ہم کو ہماری زندگی کی مو جودہ صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے ۔یہ ہمیں سکھا تے ہیں کہ  مختلف صورتِحال میں کس طرح سے ردِ عمل کا اظہار کرنا ہے ۔تمشیل کاری اپنی پروگراموں میں سے ایک پروگرام ہے ۔یہ ہمیں دیتے ہیں نئی طور طریقے جرائم کو جانتے کے ایک مشیت سوچ کی بنیاد پر نہ کہ منفی سوچ کی بناء پر ۔یہ ہمارے معاشرے میں غیر استحکام پیدا کرتا ہے امن اور سکون کو فروغ دینے کی بجائے ۔ مسئلہ میڈیا پرگرام کا انسانی ذہن پر اثرات کا ہے جو کہ مشبت بھی ہو سکتے ہیں اور متفی بھی ۔مشبت   اثرات کا تناسب انسانی ذہن پر کم  ہوتا ہے کیوں کی جرائمم میں لوگوں کو کس طرح سے سہولیات سے ہم کلام کیا جاتا ہے ۔
موجودہ تحقیق صرف محدود ہے ،ترقی یافتہ ممالک کو جس میں زیادہ تر مغربی ممالک شامل ہیں۔ زیادہ تر کرائی شوزکا ہمارے زہنوں پر اثر ہوتا ہے نوجوان اور بالغ ذہن زیادہ تر ان چیزوں کا شکار ہوتے  ہیں اسی لئے میں نے اپنی تحقیق میں کوششکی ہے اور جائزہ لیا ہے ۔براہِ راست ایشائی ممالک کا ۔
سوشل میڈیا کا براہِ راست اثر ہوتا ہے انسانی ذہن اور جسم پر  کیا آپ سوشل میڈیا کے عادی ہیں؟ آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ اس کو کسی وقت بھی چھوڑ سکتے ہیں لیکن آپکا جسم اور ذہن بلکل بھی مختلف رائے رکھتا ہے اس معاملے کے متعلق  زیادہ تر لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں دوستوں اور گھر والوں سے بات چیت کرکے لیکن اسکا حد سے زیادہ استعمال نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔سوشل نیٹ ورککے قریب بیٹھ کر پڑھنے سے بھی  آپ پر بہت سے مضر اثرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔
دماغ کا تمشیل کاری پر اثر:
ہمارا دماغ اربوں            نیورونزسے مل کربنا ہے جوکہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور ان کا تعلق ہوتا ہے Tubular    کے complex نظام سے جہاں پر یہ موصول کرتتے ہیں بھیجے ہوئے پیغام کو ۔
کیونکہ گناہ میں عزت ہوتی ہے زیادہ تر دماغ اچھے کی بجائے برا اثر جلدی اور خوشی سے قبول کرتے ہیں۔کیا واقعی  تمشیل کاری ہمارے زہنوں میں آلودگی بھر رہی ہے یا یہ ہمارے معاشرے کی  سبھی عکاسی ہے جہاں تک ان تمام سوالات کے جوابات کا تعلق ہے ۔میں ذاہنی طور پر یہ محسوس کر تی ہوں کہ یہ ہمارے معاشرے  کی سبھی تصویر نہیں ہے بلکہ یہ ٹی ویچینل  کے اثرات کا نتیجہ ہے ۔جوکہ  بہت سے دوسرے ممالک اور خاص طور پر پاکستان کو تاباہی کی طرف لے جارہے۔
اب مقامی چینل اس تشدد کو ان پروگراموں سے پھیلا رہے ہیں اور یہ تمشیل کاری بغیر تحقیق کے ہوئی ہیں ۔کسی حد تک یہ ہمارے معاشرے کی تصویر پیش کرتے ہیں لیکن یہ ہمارے ذہنوں کو آلودہ کر رہی ہیں 
مندرجہ ذیل مشاہدہ اس سلسلے میں نیچے دیا گیا ہے۔
نئی جرائم کا تعارف 
جرم کرنے کے طریقوں میں جدت 
موجودہ ٹیکنیک کو پھلانا۔
اسلحہ سازی کی معا شرے میں نمائش۔
ان کرائم شوز کو دیکھنے کے بعدذہن خود بخود تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اور یہ تبدیلیاں انسانی عوامل کو کنٹرول کرتی ہیں ۔
مطالعہ کہتاہے کرمنل رویوں کی جنسیائی بنیادیں اب بہت مضبوطی سے قائم ہو گئ ہیں۔زیادہ تر پروگرام پاکستانی چینلز پر صرف اس لئے چلائے جاتے ہیں کہ ان کو زیادہ اچھا تناسب ملے باقی پروگرامز کی نسبت ۔
مندرجہ زیل اس میں سے کچھ ہیں۔
جرم کہانی 
میری کہانی میری زبانی
شبیر تو دیکھے گا 
(تمشیل کاری کے پروگراموں کا پاکستان میں صر خیل ہے جو کہ Express T.V  پر نشر ہوتا ہے )
قیدی کہانی
دہشت
کھوجی
سرِعام (کی چھان بین
ایسا بھی ہوتا ہے۔
ایساکرے گا تو مرے گا ۔
10۔ ٹارگٹ