Needs more attribution. plz disscuss
سائرہ ناصر ؔ : فیچر
رول نمبر: 2K14/MC/84
مکھی محل
ہندو -پاک کے بہت سے شہروں کی طرح شہر حیدرآباد بھی اپنی شاندار تعمیراتی شاہکاروں کی وجہ سے مشہور ہے ۔تاہم بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریات کی وجہ سے اکثریت حویلیاں اور محلات ہندو باشندوں نے تعمیر کروائے جو طویل تقسیم سے پہلے ختم ہو چکے ۔ جن میں سے ایک وقت سے بچایا ہوا سندھی ہندو خاندان ورثہ کا گھر مکھی محل ہے ۔
شاندار فنِ تعمیر کا شاہکار نمونہ مکھی محل آج سے تقریباًسو دہائیوں قبل مکھی جیتھا نند بِن پرتم داس ( ۱۸۳۳ - ۱۹۲۷)نے ۱۹۲۰ میں اپنی خواہش اور پسند کے عین مطابق تعمیر کروایا اور اسے مکھی ہاؤس نہیں بلکہ مکھی محل کا نام دیا اور ۱۹۲۷ میں رحلت کے بعد اپنی بیواہ اور دو بیٹوں کے نام کر گئے ۔ مکھی ہاؤس پّکے قلعے کے مرکزی دروازے اور ہوم اسٹیڈ ہال کے برعکس جائے پر واقع ہے ۔اس کی 833-3 مربع گز پیمائش کا ذکر شہری سروے نمبر 983 وارڈ D میں کیا گیا ہے ۔
بقول مکھی خاندان کی ۹۵ سالہ دھرم کے: ۱۹۷۵ میں ہماری مٹیاری کی ذرعی ذمین میں دلچسپی رکھنے والے ساتھیوں نے یہ افواہ پھیلا دی تھی کہ مکھی خاندان کی جان کو خطرہ ہے اس لئے ہم مکھی محل چھوڑ کر چلے گئے تھے
مکھی خاندان کے جانے کے بعد متروکہ حکام نے آ مدنی کے لئے قبضہ کیا اور دکان قائم کی ،پھر رینجرز کو حفاظت کے لئے تعینات کیا گیا لیکن انہوں نے عمارت کا غلط استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔سردی سے بچاو کے لئے کھڑکی کے فریم کو آگ جلانے کے لئے استعمال کرتے تھے ۔ رینجرز کے بعد گھر خدیجہ خدیجہ گرلز ہائی اسکول کے حوالے کر دیا گیا ۔
متعدد ایجنسیوں کی مکھی ہاؤس کی شاندار ساخت پر قبضہ کی کوشش کے باوجوداس کی شان کو تبدیل نہ کیا جا سکا ۔ لہذا ۲۰۰۹ میں اینٹیکیوٹس ڈپارٹمنٹ کے ون مین آرمی کلیم اللہ لاشاری نے چارج سنبھالا اور مکمل ۱۶ تصاویرکی مدد سے پانچ سال مکھی محل کو ا’سکی اصل حالت میں لانے کے لئے کام کیا ، اور ۲۰۱۳ کو مکھی ہاؤس میوزیم کا افتتاح کیا جس میں مکھی خاندان کے ارکان نے شمولیت کی جن میں سے دھرم اور اندرو نے اپنے گھر کے کونے کونے سے جڑی بچپن کی یادوں کو دہرایا ۔
مکھی جیتھانند کے ۲۷ ورثاء جس میں آپکے بھائی کے بچّوں میں سے اندرو نے حکومت کو مکھی ہاؤس کو عوام کے لئے میوزیم کے طور پر کھولنے کی اجازت دی اس شرط کے ساتھ کہ اگر حکومت نے اس پر قبضہ کیا یا اسے غلط مقصد میں استعمال کیا تو یہ واپس لے لیا جائیگا ۔
مکھی محل پنر جہان انداز میں بنایا گیا ہے۔ گھر کے تمام آرائشی سازوسامان محل کے ہیں عمارت کی تعمیر میں اعلی معیار کا ماربل ،جودھپور کا پتھر اور پلاسٹر آف پیرس کا مواد استعمال کیا گیا تھاہے۔ ساگوان لکڑی بڑے پیمانے پر عمارت میں استعمال کی گئی ۔ دروازے اور کھڑکیوں میں شیشم کی لکڑی استعمال کی گئی ہے جس پر دلکش ڈیذائننگ گلاس لگے ہوئے ہیں۔دیواروں پر پھولوں کے ڈیذائن ہیں ۔
مکھی ہاؤس کے مرکزی دروازے کے اردگرد مضباط دیوار ہے ۔ دائیں جانب سیڑیوں سے چڑھتے ہی بڑے صحن میں داخل ہوتے ہیں ۔ جس کے متعلق مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہاں پر مکھی فیملی اپنی عبادت کرتے تھے اور پرساد تقسیم کرتے تھے ۔ گراونڈ فلور۸ کمروں پر مشتمل ہے ہر کمرے میں تین سے چار دروازے ہیں ۔ ہر دروازہ دوسرے کمرے میں کھلتا ہے ۔ہر کمرے میں متعدد ہوادان ہیں ۔برآمدے کے مشرقی حصّے سے دو باتھ روم اور ایک سنڈاس ہے ۔
ایک لکڑی کی سیڑھی صحن کی مغربی سمت سے پہلیمنزل کی طرف جاتی ہے ۔ پہلی منزل چھ بیڈروم اور ایک چھوٹے سے ہال پر مشتمل ہے ،جبکہ مشرقی اور مغربی جانب مزید دو کمرے اور اسٹور روم ہے ۔ دونوں کمرے کشادہ ہال کیساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ جنوبی جانب ایک برآمدہ اور بالکنی ہے جس کے مشرقی حصے میں دو باتھروم اور ایک سنڈاس ہے ۔اندرونی دیواریں مختلف قسم کی پینٹنگز سے سجی ہوئی ہیں ۔
حیدرآباد کے دل میں دفن فنِ تعمیر کا شاہکار نمونہ جسے توجہ کا مرکز ہونا چاہئے اور اور بہتر رہنمائی ہونی چاہئے لیکن افسوس وہ اپنے اطراف میں بھی پہچان سے محروم ہے جسکا پتہ وہاں کہ علاقہ مکین کی لاعلمی سے ہوا ۔۳۰ سال سے رہائش پزیر اشرف کا کہنا ہے کہ : یہ ایک صرف عمارت ہے جو مختلف لوگو ں کے قبضے میں رہ چکی ہے ۔
۵۸ سالوں سے رہائش پزیر محمد یوسف کا کہنا ہے کہ : یہ عمارت ہندو طریقت کی بہترین مثال ہے کیونکہ ہندووں کی یہ روایت ہے کہ وہ کوئی عمارت یا دھرم شالاضرور تعمیر کرتے ہیں جو کہ انسانی فلاح کے کام آتی ہے۔مکھی محل بھی بے آسرا اور مسافر لوگوں کے ٹہرنے کے لیے بہترین ٹھکانا تھا خاص کر کہ ہندو وہاں رات گزارتے اور صبح اپنی منزل کی جانب بڑھ جاتے ۔اب مکھی محل کو سندھ حکومت نے قبضہ میں لے کر اسے میوزیم بنا دیا ہے جس کے افتتاح پر سندھ حکومت کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔
Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, Department of Media & Communication Studies, University of Sindh
No comments:
Post a Comment