Showing posts with label مزنہ رئیس. Show all posts
Showing posts with label مزنہ رئیس. Show all posts

Monday, 25 April 2016

Aqib Mehmood profile by Mizan Raees


عاقب محمود (ڈائریکٹر آف سائبر کرائم ) پروفائل
مزنہ رئیس الدین 
B.S III MC/156/2K15

ٹیلٹ انسان کے لئے خدا کی طرف سے دیا ہوا ایک انمول تحفہ ہے جسے ہر کوئی استعمال کرنا نہیں جانتا ۔ مگر یہ ہی ٹیلنٹ انسان کو فقیر سے امیر اور پتھر کو ہیرا بنا دیتا ہے ۔ ان ہی پتھروں میں سے ایک تراشا ہو اہیرا عاقب محمود ہیں عاقب محمود کا تعلق پاکستا ن کے مشہور شہر لاہور سے ہے اور لاہور کے معزز گھرانوں میں سے ایک ہے ۔ 

عاقب محمود نے ایک امیر ترین فیملی میں آنکھیں تو کھولی مگر وقت کس کا وفادار نہیں ہوتا اور کبھی ایک جیسا ہی نہیں ہوتا۔ اور کبھی ایک جیسا ہی نہیں ہوتا۔ ایسا کچھ عاقب محمود کے ساتھ بھی ہواعاقب کے والد ڈاکٹر خالد محمود ایک حادثاتی موت کا شکار ہو گئے جب عاقب محمود کی عمر 5سال تھی ۔ اور عاقب نے مشکل اور کڑے وقت کا سامنا کیا۔ اور غربت کا شکار ہو گئے جس کی وجہ ان کی دادی بنیں جنہوں نے انکو ان کا جائز حق دینے سے انکار کر دیا ۔ 

 انسان اگر ہمت کرے تو کیا نہیں کر سکتا یہ ہی بات عاقب محمود نے گرہ سے باند ھ لی اور 12سال کی عمر میں گھر سے باہر ٹریفک سگنل پر اخبار بیچنے نکل پڑے ۔ برا وقت ہمیشہ کا ساتھی بھی نہیں ہوتا اور خوش قسمتی بھی انسان کا ساتھ دے ہی جاتی ہے اور ایسا ہی عاقب محمود کی ملاقات ٹریفک سگنل پر ایک برٹش سفارت کار سے ہوئی جو آپ کو انگلش میں کم عمری میں بہترین انگلش بولنے کے ٹیلنٹ کی بناءپر آپ کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ اور عاقب کے بقول انہوں نے یہ ٹھان لی تھی کہ وہ کچھ کرکے دکھائیں گے ۔

 فروری 2008 میں عاقب نے ایک مائکروسافٹ کی چھوٹی سے برانچ قائم کی ۔ اور پھر اس کے بعد Avira اینٹی وائرس کی زبان میں منتقل کی اور اپنے آفیسر کو حیران کر دیا ۔ عاقب نے کئی سافٹ ویئربھی بنائے اور ساتھ ہی ایوارڈز حاصل کرنے کا سفر طے کرتے چلے گئے ۔ عاقب نے جب مائکروسافٹ کا امتحان پاس کیاتو انہوں نے گوگل ایپ کے بارے میں سوچا اور آخر کار یہ ثابت کر کے دکھا یا کہ وہ واقع ایک ٹیلنڈانسانوں میں سے ایک ہیں ۔ دسمبر 2011میں عاقب نے گوگل ایپ کو پیچھے چھوڑ کر پاکستان میں گوگل ایپ کے امتحان میں بھی سب سے زیادہ مارکس حاصل کرنے کا تاج بھی اپنے سر کر لیا۔
 آج عاقب محمود بحثیت ڈائریکٹر سائبر لاء انٹیلی جنس برائے ایشیا و مشرق وسطیٰ اور انٹرنیشنل سائبر کرائیم کنٹرول ہیں اور اس کے سوا بھی عاقب محمود لوگوں کی مدد کرنے میں کوشان رہتے ہیں عاقب محمود کی مدد سے آج سوشل میڈیا کے لاکھوں بینک اکاو ¿نٹس ، بلیک میلنگ ، اور نیو ڈئی جیسے کیس کو حل کر چکے ہیں اور مسلسل ایسے ہی کیس سے لوگوں کی مدد کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔
 وہ دو گولڈ میڈل، سات سلور میڈل حاصؒ کئے۔ وہ گوگل، مائکرو سافٹ اور فیس بک کے Authorized ہیں 
جناب کو کتابیں لکھنے کا بھی شو ق ہیں دو کتابیں لکھ چکے ہیں اور آجکل تیسری کتاب لکھ رہے جو انکی ذاتی زندگی پر مبنی ہے اور عنوات ”توہین محبت ہے “ اور اس کے سوا عاقب محمود انتہائی دھیمے مزاج اور لیجے کے مالک ہیں ۔جس کی وجہ کم عمری میں کڑے وقت او رمشکلات کا سامنا کرنا ہیں ۔
عاقب اکثر غیر ملکی دوروں پر ہھتے ہیں۔ پچھلے پانچ مہینوں میں 21ملکوں کا دورہ کر چکے ہیں ۔

عاقب محمود کے ذاتی شوقوں میں کسی قسم کا نشہ تو نہیں پایا جاتا مگر وہ چائے کا استعمال نشے کی طرح کرتے ہیں ۔

عاقب محمود ان لوگوں کے لئے ایک زندہ مثال ہیں جو کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔ایک اخبار بیچنے والے سے لے کر ایک Cyber line کا ڈائریکڑ بننے تک کا سفر صرف اپنی انتھک محنت اور جدوجہد سے یہ ثابت کردیا کہ اگر ہمت کرے انسان تو کیا کچھ نہیں کر سکتا ۔

 Mizan Raeesuddin
B.S III MC/156/2K15

Practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi
Department of Media and Communication Studies, University of Sindh 

#AqibMehmood,  #Profile, #MizanRaees, 

تیلیوں کا پیشہ اور روایات Mizan Raees

فیچر 
تیلیوں کا پیشہ اور روایات
تحریر: مزنہ رئیس الدین 
سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں ان ہی پیشوں میں سے ایک پیشہ تیل کا روبار ہے اور اس پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگ تیلی کہلاتے ہیں ۔ تیلی لوگوں کی ھاری اکثریت کالی موری میں آباد ہے ۔ جو کہ ہیراآباد کے اختتام پر شروع ہو تاہے کالی موری سے پہلے یہاں کمبھاروں کا محلہ بھی ہوا کرتا تھا اور تیلی بھی آباد تھے ۔ مگر کمبھاروں کے بعد یہ علاقہ کالی موری کے نام سے جانا جاتا ہے اور اب یہاں تیلی لوگ آباد ہیں تیلیوں سے مراد یہ نہیں کہ وہ تیل میں نہا کر رہتے یا تیل لے کر گھومتے ہیں ۔ یہ ایک قسم کی ذات ہے۔ تیلی لوگ تقریبا 40, 50سال قبل انڈیا سے پاکستان ہجرت کر کے آئے ۔ کا آبائی علاقہ باڑمیئر ہے ۔ 
تیلیوں کا رہن سہن ، ، زبان ، چال چلن روایات کچھ الگ قسم کی ہی ہیں ۔ یہ لوگ سالوں سے تیل کا کاروبار کرتے آرہے ہیں ۔ اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان کے کاروبار میں مردوں کے ساتھ ان کی عورتیں بھی شامل ہیں مرد حضرات اگر تیل کی گھانیوں میں کام کرتے ہیں تو خواتین بھی کم نہیں وہ بھی گھر بیٹھ کر مختلف قسم کی جڑی بوٹیوں سے تیل بنا کر فروخت کرتی ہیں ۔ گھانی سے مراد جس جگہ یہ کام سر انجام دیا جاتاہے اس کو گھانی کہا جاتاہے۔ گھانی میں تیل نکالنے کے لئے مختلف قسم کی مشینیں لگی ہوئی ہیں جن سے مختلف قسم کے تیل نکالے جاتے ہیں ۔ ان چکی نماں مشینوں میں سرسوں ، جامھے ، دھنیہ ،ناریل،وغیرہ کو ڈال کر پیسا جاتاہے اور پھر اس میں مختلف قسم کی جڑی بوٹیوں سے تیل بنایا جاتاہے۔

 الگ الگ مقامات پر الگ الگ طریقوں سے کام کیا جاتاہے جیسا کہ شکار پور میں لکڑی کی چکی نما قسم کی مشین سے بیل کو باندھ کر اور اس کو گھما کر بھی تیل نکالا جاتاہے ہاں البتہ اس کام میں بیل کا بھی تیل نکل جاتاہے یہ الگ بات ہے۔

تیلیوں کی روایات اور رہن سہن ، بھی بالکل مختلف اور عجیب قسم کا ہے خواتین انتہائی قسم کی گھریلو ہیں۔ پڑھنے لکھنے کا بھی رجحان بالکل نہیں پایاجاتا۔ مرد حضرات پینٹ شرٹ کے لباس کو بالکل بھی زیب تن نہیں کرتے ۔سادہ قمیض شلوار ہی زیب تن کیا جاتا ہے جبکہ خواتین فراک کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ والے لباس کو زیب تن کر تی ہیں پھر 80سالہ بڑھیا ہی کیوں نہ ہو وہ بھی اپنی اس روایت کو مرتے دم تک قائم رکھتی ہے ۔ 
اور بات کی جائے ان کی زبان کی تو وہ بھی کافی دلچسپ ہوتی ہے ہاں سامنے والے کو سمجھنا کافی مشکل ہوتاہے ”پانی کو پوئی “ چار پائی کو ماچا اور ساس کو ہاو ¿ بول کر پکارا جاتاہے ۔ ایک خاص کی روایت یہ بھی ہے کہ خواتین مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے سامنے بھی گھونگھٹ ڈال کر آتی ہیں ۔
دیکھا جائے تو یہ پیشہ اب کافی حد تک ختم ہوتا جا رہا ہے اور گھانیوں کا رجحان بھی کافی حد تک کم ہو گیا ہے کیونکہ اب اس جدید دور میں تیل کی بڑی بڑی فیکٹریوں نے گھانی کی جگہ لے لی ہے جس کی وجہ سے تیلوں کا پروفیشن اب ختم ہو تا جا رہا ہے مگر ابھی بھی کچھ تیل کی گھانیاں باقی ہےں کیونکہ ابھی روایتوں کے پابند لوگ ان ہی سے تیل خریدتے ہیں ان کا ماننا یہ ہے کہ گھانی سے خریدا ہوا تیل ہی اصلی ہوتاہے جبکہ فیکٹریوں سے آیا ہوا تیل ملاوٹ سے بنایا جاتاہے ۔

ان تلوں میں تیل نہیں جیسی مشہور کہاوت تیل کی گھانیوں کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ قول تیلیوں کے یہ کاروبار اب زیاد ہ نہیں چلتا مگر تیلی ہونے کی حیثیت سے وہ یہ ختم بھی نہیں کر سکتے ان کا معاشرہ بہ طور تیلی ہی ان کا اجاگر رکھتا ہے اور وہ فخر محسوس کرتے ہیں تیل بنا کر بیچنے پر اور بہ طور تیلی ہونے پر ۔


This practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi, 

BS-III, Department of Media & Communication Stuies, University of Sindh 

#MizanRaees, #Teli, #Hyderabad, 

Tuesday, 19 January 2016

Mizna Interview

Kch Khas nhe photo chahye. dekhen if u can improve it 

mizna raisuddin

2k14/156/Mc
"interview"



interview of 
Madam mehvis bhatti
مس مہوش حیدرآباد میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم بھی حیدرآباد میں ہی حاصل کی اور بزنس اینڈ فاینینس میں گولڈ میڈلسٹ رہیں اور پورے حیدرآباد میں ٹاپ کیا.
س : آپ کا پورا تعارف -
ج : میں حیدرآباد سے بلونگ کرتی ہوں یہیں تعلیم حاصل کی اور آج یونیورسٹی اوف سندھ میں ڈیپارٹمنٹ آف کامرس میں طلبہ کو علم کی روشنی سے روشناس کر رہی ہوں .
س : آپ نے اپنے کیریئر کا آغاز کس طرح کیا? 
ج: میں نے اپنے کیریر کا آغاز ایک کوچنگ سینٹر میں طلبا کو پڑھا کر کیا تھا اور پھر بس آج اس مقام پر پہنچ گی .
س : آپ کی آج تک کی اچیومنٹس ? 
ج : ویسے تو الله کے کرم سے کافی اچیومنٹس ہیں مگر سب سے بڑ ی اچیومنٹ گولڈ میڈلسٹ بننا تھی اور ٹاپ کرنا تھا.
س : کس چیز نے آپکو متاثر کیا کے آپ نے فنانس پڑھا ? 
ج : مجھے بچپن سے ہی فنانس اور اکاؤنٹنگ پڑھنے کا شوق تھا اور بس اس ہی انٹرسٹ کی وجہ سے میں نے یہ منتخب کیا اور الله نے اس مقام پر پہنچایا .
س : آپ کو سوشل ورک اور فلاح و بہبود کے کام کرنا کیسا لگتا ہے ?
س : سوشل ورک اور فلاح و بہبود کے کام بھی میں بہت شوق سے کرتی ہوں اور اکثر لوگوں کو مفت تعلیم بھی فراہم کرتی ہوں اور آرگنائزیشن کے زریۓ بھی غریب لوگوں کی مدد کرتی ہوں مجھے اچھا لگتا ہے لوگوں کی مدد کرنا .
س : آپ کے لحاظ سے پاکستان میں سکوپ کیا ہے اس فیلڈ کا? 
ج : دیکھیں سکوپ تو فنانس کا ہر جگا ہر ملک میں ہے کیوں کے بینکنگ کا نظام تو ہر ملک میں ہی ہے تو ظاہر ہے پاکستان میں بھی ہے . 
س : لکچرار شپ کے سوا اور دوسری اکٹو اٹز ? 
ج : میں اس کے سوا ایڈمنسٹریٹو اور کنسلٹنٹ ورک کرتی ہوں اور ریسرچ کرنا اور کتابیں پڑھنا بھی میری سرگرمیوں میں رہتا ہے .
س : یونیورسٹی میں لیکچرر شپ کب ملی?
ج : ٢٠١١ میں مجھے لیکچرر شپ ملی اور میں نے سندھ یونیورسٹی جوائن کی .
س : یوتھ کے لئے کوئی خاص پیغام?
ج : میرا پیغام یہ ہی ہے کے اگر آپ کامیابی چاھتے ہیں تو محنت کو عبادت کی طرح کریں ضرور کامیابی ملےگی . 

Changing trends in fashon by Mizna

Edited
 Mizna-final
مزنہ رئیس 
2k14/MC
   فیشن کی دوڑ آرٹیکل
بدلتا فیشن

آج کے فیشن کو جنگل میںلگی آگ سے تشبیہ دیا جا سکتا ہے. ہر شخص فیشن کی دوڑ میں شامل ہے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنا چاہتا ہے .
پاکستان اقتصادی طور پر بھلے مستحکم نہ ہو پر دنیائے فیشن میں ضرور مستحکم ہے۔ہر انسان یہی چاہتا ہے کے نئی روایتوں اور نئے زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے ۔ اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لانا انسان کی فطرت میں شامل ہے . 

فیشن کا سب سے بڑا بدلاﺅ خاص طور پر لباسوں میں دیکھا جا سکتا ہے .فیشن گِرگٹ کی مانند ہے جو کہ وقت کے ساتھ رنگ بدلتا رہتا ہے ، کبھی پیروں تک لمبی قمیض ہے تو کبھی گھٹنوں تک چھوٹی ، کبھی چوڑی دار پاجامہ ہے تو کبھی پٹیالا شلوار، کبھی چوڑے پائنچے والے فلیپر ہیں تو کبھی سگریٹ پینٹ غرض یہ کہ موسم سے ذیادہ تیز تبدیلی کی رفتار فیشن کی ہے۔ تہذیب کچھ یوں تھی کے خواتین لمبے بال اور مرد چھوٹے بال رکھتے تھے پر آج کا کلچر اس کے برعکس ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ ہر انسان فیشن کے جنون میں ہے اور یہ جنون وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے . 

مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ انسان کو زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لئے ہر قدم اٹھانا پڑتا ہے اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ اگر ایسا نہ کریں تو معاشرہ جاہل ، پسماندہ سوچ جیسے کلمات سے نوازتا ہے، جو کہ ہمارے معاشرے کا کڑوا سچ ہے۔ 

فیشن کو اندھی تقلیدبنانے میںمشہور شخصیات کا بھی حصہ ہے ۔ لوگ اپنے آئڈیل کے پہناوے، اسٹائل کو کاپی کرنا پسند کرتے ہیں ، نہ صرف پہناوا بلکہ ہیئر اسٹائل ,گلاسز ,جوتے ,پرس یہاں تک کہ ان کی طرح چال چلت کو بھی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر چاہے سلمان خان کی طرح کندھوں تک بال ہوں یا عامر خان کی طرح گنجے سَر پر نشان کا فیشن ۔

مختلف ممالک میں فیشن بھی مختلف ہی دیکھے جاتے ہیں . ۵۱۰۲ کی درجہ بندی کے مطابق فیشن کی دنیا میں حکمرانی کا تاج انگلستان اور امریکا کے سر پر ہے ۔ ساری دنیا اور ہمارا ملک پاکستان بھی ان کے نقشِ قدم پر گامزن ہے۔ خاص طور پر اَپر کلاس طبقہ مغربی تہذیب کو اپنانا فیشن سمجھتا ہے۔ جسکی دیکھا دیکھی مڈل کلاس طبقہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے۔ جس طرح جِینس شرٹ فیشن ہے اسی طرح اجرک سوٹ بھی ثقافتی فیشن ہے بس فرق بنانے والوں اور اسکے ذریعے کمانے والوں کا ہے۔

 کشیدہ کاری، سندھی کڑھائی ، ور گج اور کاشی کا کام اندرون ِ اور بیرونِ ملکوں میں اہمیت کا حامل ہے جس کی وجہ سے کئی غریب گھروں کا چولھا جلتا ہے۔ اسی فیشن کی وجہ سے جہاں روزگار کے مواقع ملتے ہیں وہیں مہنگی قیمتوں کی وجہ سے جیب پر بھاری اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 Original
 Mizna-final
مزنہ رئیس 
میڈیم : اردو
کیٹگری : آرٹیکل
بدلتا فیش 
دنیا میں آگ کی طرح پھیل رہا ہے.ارد گرد دیکھا جائے تو یہ ہی نظر آتا ہے کے ہر بندہ فیشن کے بارے میں اچھی طرح آگاہ ہے یا پھر یوں کہا جاسکتا ہے کے ہر شخص اس دوڑ میں آگے نکلنا چاہتا ہے .
پاکستان دنیا کا تیسرا ملک ہے جو اقتصادی طور پر مستحکم نہیں ہے مگر پھر بھی یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کے پاکستان کا کوئی بھی شعبہ اس سے بے خبر ہو .ہر انسان یہی چاہتا ہے کے نئی روایتوں اور نیے زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے .یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کے وہ ہمیشہ اپنی زندگی میں بدلاو ¿ چاہتا ہے .جیسا کے سب سے بڑا بدلاو ¿ لباسوں میں دیکھا جاسکتا ہے .آج سے تقریباً ?? سے ?? سال پہلے جس طرح کے لباس پہنے جاتے تھے ان کا اب نام و نشان بھی نظر نہیں آتا .یہ فرق اس بات سے واضح نظر آتا ہے کے تقریباً ?? سال پہلے خواتین کے لباس میں کمیز کے ساتھ شلوار ہوا ر کر تی تھی مگر اب شلوار کی جگہ کیپری پاجاما ,سگرٹ پاجامہ اور فلیپر پاجامہ نے لے لی ہے اور پرانے زمانے کی خواتین بڑے بالوں کو اہمیت دیتی تھیں اور مرد چھوٹے بال رکھتنے تھے مگر آج کا نظام کچھ الٹا ہے جیسا کے خواتین چھوٹے بالوں کو فیشن سمجھتی ہیں اور مرد بڑے بال رکھنے لگے ہیں .نظر دوڑائی جائے تو ہر انسان فیشن کے جنوں میں ہے اور یہ جنوں وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے .مگر سچ یہ بھی ہے کے انسان کو زمانے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے زمانے کے فیشن کی پیروی کرنی پڑتی ہے اور یہ ضرورت بن چکا ہے .اگر ہم زمانے کے مطابق اپنے اندر بدلاو ¿ نہیں لاین گے تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کے یہ لوگ جاہل ہیں اور پھر سوسائٹی بھی قبول نہیں کر پاتی یہ کڑوا تو ہے مگر سچ ہے .
آجکل ہر بندا کسی سیلبرٹی کی طرح نظر آنا چاہتا ہے.انکی طرح دکھنا اور ان کے اسٹائل کو اپنانا چاہتا ہے .ان کے کپڑے ,ہیر اسٹائل ,گلاسز ,جوتے ,پرس یہاں تک کے ان کی طرح چلنے اور بولنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور اس کے سوا اب تو مشینری اور دوسری چیزوں میں بھی بدلاو ¿ لاتے ر?تے ہیں جیسے موبائل ہو یا لیپ ٹاپ گاڑی ہو یا موٹر سائیکل یا پھر گھر کی کوئی مشینری ہی کیوں نہ ہو ہر چیز زمانے اور فیشن کے حساب سے نئی طرز کا لیتے ہیں اور یہ بدلاو ¿ آج سے نہیں پرانے زمانے سے ہے کے انسان اپنے اندر بدلاو ¿ لانا چاہتا ہے اور مسلسل لا رہا ہے جیسا کے ?? کی دہائی کا مشہور ہیرو جسے دنیا چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے نام سے جانتی ہے .اس کے زمانے میں بھی لوگوں نے ہیر اسٹائل وحید مراد جیسے رکھنا شروع کردئے تھے اور پھر امیتابھ کو دیکھ کر گلے میں مفلر ڈالنے کا فیشن چلا تھا اور اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ فیشن بھی بدلتے ر?تے ہیں اور لوگ اپنے آپ کو نہے طرز کے فیشن میں ڈھالتنے ر?تے ہیں اور یہ سچ ہے کے اس بدلتے فیشن کے ذمے دار بھی صرف ہم ہی ہیں .کہا جاتا ہے کے .
"چیزیں نہیں بدل رہیں ,ہم بدل رہے ہیں "
ہر نو جواں اپنے لک بدل رہا ہے .نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہمیشہ اسمارٹ اور ہر چیز میں آگے نظر آنا چاھتے ہیں .اور یہ بھی انسان کی فطرت میں ہی شامل ہے کے وہ ہمیشہ داد حاصل کرنے کا طلبگار رہتا ہے .
مختلف ممالک میں فیشن بھی مختلف ہی دیکھے جاتے ہیں . فیشن کی دنیا پر حکمرانی یو کے اور یو ایس اے کو زیادہ ہے اور ہمیشہ رہی ہے اور ہمارا ملک بھی ان کو دیکھ کر ان ہی کے نقش و قدم پر چل پڑتا ہے کسی دوسرے ملک میں فیشن کے آتے ہی ہمارے ملک کے اپر کلاس لوگ اس فیشن کو اپنانے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ اپر کلاس کو دیکھ کر مڈل کلاس اور مڈل کلاس سے لوور کلاس کے لوگ اس فیشن کو اپنانے لگتے ہیں کیوں کہ فیشن ہمیشہ اوپر کی طرف سے ہی نیچے کی طرف آتا ہے .فیشن میں بدلاو ¿ بھی آتے ر?تے ہیں. اور اب دیکھا جاتا ہے کے جب اپر کلاس طبقے کے پاس اپنے پیٹرن ختم ہونے لگے ہیں تو وہ اب دیہاتی پیٹرن ا ور ڈیزائن اور پرانے طرز کے فیشن کو دوبارہ ابھار دے رہے ہیں اور اپناتے جارہے ہیں جیسا کہ پرانے زمانے میں لمبی لمبی قمیضیں زیب تن کی جاتی تھی مگر پھر آہستہ آہستہ چھوٹی قمیضوں کو زیب تن کیا جانے لگا تھا مگر اب پھر سے لمبی قمیضیں فیشن میں ان ہوگئی ہیں .اور دیہاتی پیٹرن اور اسٹائل کو بھی فیشن میں اپنایا جارہا ہے مثلا : تھر کی کشیدہ کاری 
سندھی کڑھائی ور گج 
اور کاشی کا کام وغیرہ 
شامل ہیں . ان تمام اسٹایل کو اب فیشن میں لایا جارہا ہے . جو جدید دور کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہ سارے کام آج کے زمانے کے مطابق ہورہے ہیں .








 Room for improvement
Mizna Raisuddin

2k14/156/MC

category:Article
بدلتا فیشن 
 مزنہ رئیس الدین 
دنیا میں آگ کی طرح پھیل رہا ہے.ارد گرد دیکھا جائے تو یہ ہی نظر آتا ہے کے ہر بندہ فیشن کے بارے میں اچھی طرح آگاہ ہے یا پھر یوں کہا جاسکتا ہے کے ہر شخص اس دوڑ میں آگے نکلنا چاہتا ہے .
پاکستان دنیا کا تیسرا ملک ہے جو اقتصادی طور پر مستحکم نہیں ہے مگر پھر بھی یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کے پاکستان کا کوئی بھی شعبہ اس سے بے خبر ہو .ہر انسان یہی چاہتا ہے کے نئی روایتوں اور نیے زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے .یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کے وہ ہمیشہ اپنی زندگی میں بدلاؤ چاہتا ہے .جیسا کے سب سے بڑا بدلاؤ لباسوں میں دیکھا جاسکتا ہے .آج سے تقریباً ١٥ سے ٢٠ سال پہلے جس طرح کے لباس پہنے جاتے تھے ان کا اب نام و نشان بھی نظر نہیں آتا .یہ فرق اس بات سے واضح نظر آتا ہے کے تقریباً ١٠ سال پہلے خواتین کے لباس میں کمیز کے ساتھ شلوار ہوا ر کر تی تھی مگر اب شلوار کی جگہ کیپری پاجاما ,سگرٹ پاجامہ اور فلیپر پاجامہ نے لے لی ہے اور پرانے زمانے کی خواتین بڑے بالوں کو اہمیت دیتی تھیں اور مرد چھوٹے بال رکھتنے تھے مگر آج کا نظام کچھ الٹا ہے جیسا کے خواتین چھوٹے بالوں کو فیشن سمجھتی ہیں اور مرد بڑے بال رکھنے لگے ہیں .نظر دوڑائی جائے تو ہر انسان فیشن کے جنوں میں ہے اور یہ جنوں وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے .مگر سچ یہ بھی ہے کے انسان کو زمانے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے زمانے کے فیشن کی پیروی کرنی پڑتی ہے اور یہ ضرورت بن چکا ہے .اگر ہم زمانے کے مطابق اپنے اندر بدلاؤ نہیں لاین گے تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کے یہ لوگ جاہل ہیں اور پھر سوسائٹی بھی قبول نہیں کر پاتی یہ کڑوا تو ہے مگر سچ ہے .
آجکل ہر بندا کسی سیلبرٹی کی طرح نظر آنا چاہتا ہے.انکی طرح دکھنا اور ان کے اسٹائل کو اپنانا چاہتا ہے .ان کے کپڑے ,ہیر اسٹائل ,گلاسز ,جوتے ,پرس یہاں تک کے ان کی طرح چلنے اور بولنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور اس کے سوا اب تو مشینری اور دوسری چیزوں میں بھی بدلاؤ لاتے رهتے ہیں جیسے موبائل ہو یا لیپ ٹاپ گاڑی ہو یا موٹر سائیکل یا پھر گھر کی کوئی مشینری ہی کیوں نہ ہو ہر چیز زمانے اور فیشن کے حساب سے نئی طرز کا لیتے ہیں اور یہ بدلاؤ آج سے نہیں پرانے زمانے سے ہے کے انسان اپنے اندر بدلاؤ لانا چاہتا ہے اور مسلسل لا رہا ہے جیسا کے ٧٠ کی دہائی کا مشہور ہیرو جسے دنیا چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے نام سے جانتی ہے .اس کے زمانے میں بھی لوگوں نے ہیر اسٹائل وحید مراد جیسے رکھنا شروع کردئے تھے اور پھر امیتابھ کو دیکھ کر گلے میں مفلر ڈالنے کا فیشن چلا تھا اور اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ فیشن بھی بدلتے رهتے ہیں اور لوگ اپنے آپ کو نہے طرز کے فیشن میں دھالتے رهتے ہیں اور یہ سچ ہے کے اس بدلتے فیشن کے ذمے دار بھی صرف ہم ہی ہیں .کہا جاتا ہے کے .
"چیزیں نہیں بدل رہیں ,ہم بدل رہے ہیں "
ہر نو جواں اپنے لک بدل رہا ہے .نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہمیشہ اسمارٹ اور ہر چیز میں آگے نظر آنا چاھتے ہیں .اور یہ بھی انسان کی فطرت میں ہی شامل ہے کے وہ ہمیشہ داد حاصل کرنے کا طلبگار رہتا ہے .