Thursday, 24 March 2016

دعائیہ کتبے سمرہ ناصر

It seems short. we need 600 words. Photo are also required

دعائیہ کتبے
Simra Nasir, فیچر: سمرہ ناصر
”اب نہ وہ محل رہے ، نہ دربار اور نہ ہی ایسی مساجد جہاں مہینوں تک سنگ تراشی کا کام ہوتا ہے۔ اب تو زیا دہ تر لوگوں کی قبروں کے کتبے لکھکر ہی گزر بسر ہوتا ہے۔“

سنگ تراش محمد رفیق کتبے سے مراد وہ عبارت ہے جو لوح قبر یا مسجد پر کندہ کی جاتی ہے یا پھر وہ نظم یا نشر جو کسی کی تعریف میں بطور تاریخ پیش طاق پر لکھتے ہیں۔

پہلے عموماََ یہ تحریر پتھر کی سلیٹ پر کھدوائی جاتی تھی جس کی جگہ اب مختلف قسم کے پتھر ، ٹف ٹائل اور ڈیزائن دار سنگ مرمر نے لے لی ہے۔
یہ سنگ تراشی کے کام کا عروج مغلیہ دور سے ملا۔ تب محلوں مقبروں اور مسجد وں میں بڑے پیمانے پر سنگ تراشی کا کام ہوتا تھا۔ جوکہ اب سمٹتا سمٹتا قبروں کے کتبو اور افتتاحی سلیٹوں تک محدود ہو گیا ہے۔ ماضی میں کتبوں پر لوگ وفات پانے والے کے حالات زندگی ، دعائیہ کلمات ، آیات وغیرہ لکھواتے تھے جبکہ اب تو صرف مرنے والے کا نام ، ولدیت ، تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات لکھواتے ہیں۔

آج مشینی دور میں دعائیے جملے پیپر پر چھاپے جاتے ہیں او ر یہ ایک فریم کی صورت بن جاتے ہیں۔ حیدرآباد میں الوحید اسکوئر اسٹیشن روڈ کاریگر سجاد قاضی کا کہنا ہے کہ اب یہ دعائیہ کلمات چھپتے ہیں یہ پتھر جائنا ٹیسٹ کے نام سے ایک مٹیریل آتا ہے اس پر اللہ کے نام کی گرافی چاروں قل، آیتہ الکرسی اور دیگر زبانوں میں اقتباس وغیرہ بھی چھاپی جاتی ہے اور یہ مختلف رنگوں میں بھی ہوتی ہیں اور سب سے زیادہ اس میں سنہری رنگ کا کام ہوتا ہے ۔ یہ چائنا شیٹ 200روپے میں مل جاتی ہے۔ بابائے قوم جن کے تصاویر ہم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں دیکھتے ہیں وہ چائنا شیٹ پر بنی ہوتی ہے۔

حیدرآباد صدر میں اس کام کو بنایا جاتا ہے ۔ سجاد فریم میکر کے نام سے دکان ہے اور اس کے مالک بھی خود ہیں ۔ا س فریم ورک کے کام میں مفسلک ہو لیکن اب اس کام میں پہلے جیسی بات نہیں رہی پہلے لوگ اپنے گھروں میں دعا ئیہ جملے یا ایسی کوئی آیات لکھوانا اہم سمجھتے تھے ۔ آپ یہ رجحان بہت ہی کم ہوگیا ہے۔ سجاد احمد کا کہنا ہے کہ لاثانی کی ایک لکڑی کے ساتھ انتہائی خوب صورتی کے ساتھ نام کندہ کیے جاتے ہیں۔

Under supervision of Sir Sohail Sangi

#SohailSangi, #Hyderabad,   #SimraNasir, 

 

No comments:

Post a Comment