Showing posts with label بلال مسعود. Show all posts
Showing posts with label بلال مسعود. Show all posts

Wednesday, 9 March 2016

بلال مسعو د - حیدر آباد میں سینما گھرو ں کا فقدان

Revised version recieved  too late
----------------------
Too many composing and language mistakes. Please revisit it and correct them, a few are underlined. 
What ever u wrote its away from topic. U should  have given population of Hyderabad, and number of cinemas in past which was not catering the r requirement. U have talked about over all film industry of Pakistan.  Make it Hyderabad based. some figures, reports experts opinion etc. Referred back. Let me know when u are  refiling it. 

Ur feature topic is also not approved and u are not responding despite repeated  emails and reminders
نا م: بلال مسعو د       رو ل نمبر :  132
آرٹیکل

               حیدر آباد میں سینما گھرو ں کا فقدان

 پاکستانی فلم انڈسٹری ایک عر صے سے تاریخی میں ڈوبی ہو ئی تھی ۔ انڈین فلمو ں کا را ج تحا ۔ اور حکو مت نے بھی انڈین فلمو ں نما ئش پر پابند ی لگا دی جسکا اجا م سینما گھرو ں کی تباہی ہو ا ۔ پر جس طر ح پر تاریک را ت کے بعد اجا لا ہو تا ہے اسی طرح رو ل کے بعد عرو ج آتا ہے ۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے 1970 سے شکا ز زوال کا اختتا م پا نچ سا ل قبل ایک شاندار واپسی کے سا تھ ہو ا ۔ 

نجی چینلز اور پروڈکشن کمپنیز نے پاکستا نی فلم انڈسٹری کی گر تی دیوارکو دوبارہ سیا رہدیا اور لو گو ں کے زہنو ں میں انکے پسند ید ہ چیزوں کا نقش دوبا رہ تاز ہ کیابہترین فلز کی صو ر ت میں جس نے پاکستا نیو ں کا اور خا ص طو ر پر نوا جوا نو ں کا درمیا ں سینما گھرو ں کی طر ف مبزول کیا ۔ انڈین اداکا رو ں سے رجحا ن دوبا رہ اپنے پاکستان اداکارو ں کی طر ف لو ٹ گیا فلم انڈسٹری کی اس تروی کے سا تھ ضرو ر ت اس با تکی بھی تھا کہ اس تر قی کے سا تھ ضرو ر ت اس با ت کی بھی تھا کہ سینما گھرو ں کی تعداد بھی بڑھا ئی جا ئے ۔ 

مگر یہا ں توحال بر عکس یہی تھا ۔ بجا ئے فلم انڈسٹری کی کا میا بی کے ساتھ سینما گھروں کی تعداد بھی بڑھا ئی جا ئے مگر یہا ں تو حا ل بر عکس ہی تھا ۔ سینما گھرو ں کی تعمیر کی طر ف تو جہ رہنے کے التی گنگا بہنیں لگی اور خا ص طور پر پاکستان کے پانچو ں بڑے شہر حید رآباد میں سینما گھرو ں کی تباہی کا یہ حا لا تھا ۔ کہ حید رآباد میں موجو د 22 سینما گھرو ں میں سے اب صر ف اور صر ف 3 ہی کا ر آمد ہیں اور حیدر آبادو ں میں تفریح سبب بن رہے ہیں پر کیا 1.167 ملین کی آبادی والے شہر حیدر آباد کی تفریح کے لئے 3سینما گھروں نہیں ؟

ظاہر ہے جو ا ب ہے نہیں خا ص طو ر پر نئی پسند والد پاکستانی فلم جو کہ انٹر نیٹ پر دیکھا نہیں جا سکتی نہ ہی سی ڈی کی صو ر ت میں دکا نو ں یہ باسانی دستیا ب ہیں وہ صر ف سینما گھرو ں میں ہی دیکھیں جا سکتی ہیں ۔آج کا دور جس تیز رفتاری سے جلدیت کی طر ف بڑھ رہا ہے ہم آج بھی اس سے کو سو دور ہیں دنیا بھر 


میں کروٹ لیتی فلم انڈسٹری نے جدت کے سا تھ اب 30 کے دور میں پہنچ گئی ہے 30 فلز بنا ئی جا رہی ہے مگر پاکستان اور خا ص طو ر پر حیدر آباد میں اس کی نما ئش کے لئے 30 سینما گھرو ں کا فقدان ہے حدیر آباد میں کا ر آمد اصور ف 3 سینما گھرو سہنی مو ش ، بمبینو اور نیو مجسٹک سینما گھر جس میں سے واحد 30 سینما گھرو سہنی مو ش ہے ۔ میدا ن میں اکیلا گھڑا ہو نے کی وجہ سے یہ سینما گھر منہ مانگی قیمت وصو ل کر تا ہے جو کہ عام سینما گھرو ں سے زیا دہ ، وہ اں جا نیو الے نسل کی یہ شکا یا ت ایک طر ف مگر شو ق اور تفریح کی خا طر رح کر نا اہم با ت ہے ۔ انتظا میہ حیدر آباد کیو ں سینما گھرو ں کی تعمیر کی طر ف تو جہ نہیں دیتا ۔ 


کچھ منچلے تو شق اور تجسس مئن شہر قا ئد کا رخ بھی کر لیتے ہیں کیو ں فلم ریلیز ہونے سے قبل ہی اپنا بھر پو ر سجر کر چکی ہو تا ہے جس کی وجہ سے شا ئقین بتے صبری سے انتظا ر کر تے ہیں لیکن جب گنتی کے موجو د سینما گھرو ں پر بلا کا رش دکھا ئی دیتا ہے ۔ تو کر اچی کا رخ کر لیتے ہیں ۔ جس تیزی کے سا تھ حیدرآبادشہر اب تر قی کر رہا ہے ۔ اس میں شاتھ سخت ضرو ر ت اس با ت کی بھی ہے کہ تفریحی مقا ما ت کی تعمیرپر بھی غو ر کیا جائے کیو ں کہ یہ جدید شہر کے عنصر ہیں ۔ پاکستان کا پا نچو ا ں بڑا شہر ہو نے کے با وجو د بھی تفریحی مقا ما ت سے محرو م کیو ں ہے ؟ سند ھ کا دوسرا بڑا شہر مگر سو تیلے بیٹے سا سلو ک کیو ں ۔


گذشتہ چند سالو ں مین حیدر آباد کے اند ر بڑے مالز اور شاپنگ ارینا ز کی تعمیرا ت کا سلسلہ شروع ہے جس میں دکا نیں ، شو رو م ، فو ڈ کو ر ٹ تو موجو د ہیں ہی مگر قا بل عو ر با ت یہ ہے کہ جدید سینما ہیں سہنی پیلس بھی تعمیر کئے جا رہے ہیں لو گو ں کو سہو لیا ت میسر کر نے کے لئے تا کہ ایک چھٹ تلے سب با آسانی حاصل ہو ۔ اور سا تھ سا تھ یہ با ت بھی اہم ہے کہ دو ر کی جدت نے ہما رے انداز بھی بدل رہے ہیں اب دکا نو ں کے بجا ئے شا پنگ مالز سے خریداری کر شا ں سمجھتے ہیں بڑے بڑے سینی پیکس میں فلم دیکھنے کو تفریحی سمجھتے ہیں بجائے دو ر قدیم کے سہنے تھیٹر میں اور یہ غلط بھی نہیں ہے انسا ن کو اپنا جینے کا طریقہ بہتر سے بہتریں کر نا چا ئیے ۔


بلڈز اس با ت خو د با خو د ہی جا نتے ہیں کہ حید رآبا د شہر میں تفریحی جگہ ، خا ص طو ر پر جدید سینما گھو ن کی تعمیر کی اشد ضرو ر ت ہے اسی وجہ کو باغو ر دیکھا گیا ۔ اور فیصلہ کیا گیا ۔
مگر حیرا ن کن با ت یہ ہے کہ اس شہر کی انتظا میہ کب نیند سے بیدا ر ہو گی اور احسا س ہوگا ۔کہ ان کا بھی کچھ فر ض ہے اس شہر ے تیں،۔ سر کا ری ، حکو م تی سطح پر نئی اور جدید 3D سینما گھرو ں کی تعمیر کے منصو بے بنا ئے جائیں تا کہ حیدر آبادیو ں کے لئے تفریح اور سکو ن کا با عث بنے مگر حا ل یہ ہے وہ سینما گھرجو حید رآباد کی تاریخ کا حصہ تھے اور لو گو ں کے رش میں گھر ے ہو ئے تھے ۔ جب پاکستانی فلم انڈسٹری کا سو ر ج سوا نہزے پر تھا ۔ 


اب ان سینما گھرو ں کی جگہ بازارو ں ، دکا نو ں ، بلڈنگ یا پھر شا دی بالو ں نے لے لی ہے۔ مطلب کے اچھے وقت کے لو ٹنے پر ان سینما گھرو ں کی خالی کا کوئی امید باقی نہ رہنے اور اب اس وقت میں جب سینما گھرو ں کی ضرورت ہے انتظا میہ ہا تھ پر ہا تھ دھرے بیٹھی ہے ۔ نئی تعمیرا ت کی طر ف کو ئی اقدا م نہیں ۔
کیو ں انظا میہ حیدر آباد کے شہریو ں کی تفریح کا نہیں سو نچتی شدید ضرو رت ہے اس با کی کہ حیدر آباد کے شہریو ں کے لئے فیصلے کئے جا ئیں خا ص طو رپر نو جوا ن نسل کی تفریح کے لئے اقدامات کئے جائیں اور وقت کو جدت اور کے حسا ب سے حیدر آباد مین سینما گھر تعمیر کئے جا ئیں خا ص طو ر پر 3D سینما گھر ۔
Under supervision of Sir Sohail Sangi
#BilalMasood, #SohailSangi, #Hyderabad, #Cinema, 

Thursday, 4 February 2016

Referred back Interview with Sumer Majid

Referred back Please do not send in fomrated form. it should be in simple inpage. Do not inset foto in text file. 
No numbering to questions. 
 U can see extra spacing is creating problem. its personal interview, u were asked to make it subject interview. at the most 2-3 personal questions are suffiient  
Resend it win simple inpage format, with changed file name and also mention why it was referred back
نام : بلال مسعود

رول نمبر: 132
موضوع: انٹرویو

ثمیر ماجد
ثمیر ماجد 14جنوری 1986ءکو ضلع حیدرآباد میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم لطیف نیازی اسکول اور پھر انٹرمیڈیٹ پاکستان پائلٹ کالج سے کیااور اعلیٰ تعلیم جامعہ سندھ سے ایم ۔بی۔اے ، ایم۔اے۔انگلش، ایم۔اے۔اردو کی ڈگریاں وقتاً فوقتاً حاصل کی۔آپ آر۔جے اور ٹیچرنگ کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں ۔
سوال: آپ کو بروڈکاسٹنگ فیلڈ میں آنے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟
جواب: والد براڈکاسٹر تھے اور والد کی خواہش تھی کہ میں بھی بحیثیت بروڈ کاسٹر اپنے والد کے پیشے کو اپناﺅںاور مجھے سیکھنے اور سکھانے کا شوق اس شعبے میںکھینچ لایا۔
سوال نمبر آپ اس شعبے میںکب آئے؟
جواب: 2004ءمیں ریڈیوپاکستان حیدرآباد میں آڈیشن دیا جو عنایت بلوچ صاحب کی زیر سرپرستی ہوااس انٹر ویو میںانہوں نے مجھ سے کچھ کہنے کو کہا تو میں نے اے۔بی۔سی۔ڈی سناڈالی جس پر وہ مسکرائے ۔
سوال: اس شعبے میں آپ نے بہت نام کمایا کیا کوئی سَنَد ±بھی حاصل کی؟
جواب: 2004ءسے 2014ءتک پی۔بی۔ سی سے بیسٹ آر۔جے ایوارڈ حاصل کرتا رہا ہوں حالانکہ اور بہت سے آر۔جیزبھی مقابلے میں موجود ہوتے تھے اور کچھ کچھ میرے سنیئرز بھی ۔
سوال: پہلا پروگرام کب کیا؟
جواب: پہلا پروگرام "گڈ اوننگ حیدرآباد" جولائی 2004ءسے شروع کیا جو FM: 105 سے نشر ہوتا تھا۔ایک سال بعد ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگیا۔
سوال: اس شعبے میں کیا آپکا کوئی رول ماڈل ہے ؟
جواب: میرے رول ماڈل معین خان ہیں۔
سوال: اس شعبے میں آپ نے کیا کام سرانجام دیئے؟
جواب: میں بحیثیت وائس اوﺅر آرٹسٹ ، کمرشل آرٹسٹ، کریٹک اسٹیج اوراسکرپٹ رائٹنگ کا کام بھی سرانجام دیا۔
سوال: کیا آپکو کبھی الیکٹرونک میڈیا میں کام کرنے کا موقع ملا؟
جواب: اُستاد ایس۔ایم حسن جعفری نے مجھے آج نیوز پرپروگرام"بلیک باکس"میں کام آفر کیا جومیں نے بحیثیت "وائس اوﺅر آرٹسٹ "سر انجام دیا۔انڈس نیوز پر (دی رپورٹر روڈ شو)پر بھی کام کرچکا ہوں۔
سوال نمبر8:میڈیا کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟
جواب: میرے مطابق میڈیا ایک ایسا شعبہ ہے جو معاشرے میں تربیت اور بہتری کے لئے ایک اہم ردارکرسکتا ہے ۔
سوال: اس شعبے میں کوئی ایسی شخصیت جن سے آپ متاثر ہوں ؟
جواب: انسان کا سب سے پہلے استاد اسکے والدین ہوتے ہیں مسٹراینڈ مسزماجد علی نے مجھے بہت کچھ سکھایااور زندگی کے ہر موڑ پر بہت سپورٹ کیا اس کے بعد مرزا سلیم بیگ ،سربدر سومرو،سر سہیل سانگی،مومن خان مومن وہ شخصیات ہیں جن سے میں بہت متاثر ہوااور ان سے مجھے سیکھنے کا بھی بہت موقع ملا۔
سوال: آپ اس فیلڈ کے ساتھ تعلیمی شعبے سے بھی وابستہ ہیں دونوں شعبے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں آپ ان دونوں کو ایک ساتھ کیسے لےکر چلتے ہیں؟
جواب: معاشرہ تنقیدی بن گیا ہے لوگ اچھا پہلو نکالنے کے بجائے تنقید برائے تنقید کرتے ہیں میری نظر میں یہ دونوں ہی شعبے سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ ہیں ۔میری نظر میںیہ دونوں ایکدوسرے سے جداگانہ نہیں ۔میںبحیثیت آر۔جے سماجی کاموں کو زیادہ ترجیح دیتا ہوں اور بحیثیت ایک ٹیچر میں شاگردوں کی اصلاح کی کوشش کرتاہوں ۔
سوال نمبر11: آپ نے سماجی کاموں کی بات کی تو کیا آپ کسی سماجی تنظیم سے بھی وابستہ ہیں؟
جواب: جی ہاں ! میں ایک سماجی تنظیم بنام "اُمید دی ری ہیبلی ٹیشن ویلفیئر آرگنائزیشن "سے بطور رضاکار اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہاہوں۔
سوال نمبر12:کیا آپ کا اردو اب میں لگاﺅ ہے؟
جواب: اردو میری مادری زبان ہے اور مجھے اس سے بہت پیار ہے اس لئے مجھے شاعری کا بہت شوق ہے اور مختلف مشاعروں میں شرکت بھی کرتا ہوں ۔

Wednesday, 3 February 2016

Beautification becomes costlier

This topic is not approved. Despite repeated reminders he did not turn up to explain his position
Un checked
Is this approved topic? plz show me slip
نام: بلال مسعود
رول نمبر: ۲۳۱
ٹوپک: فیچر 
حسن ہوا مہنگا 
حسین رکھنا نظر کا مر کز بننا تعریف سننا ہر عورت کا خواب آئینہ کے گھنٹہ آگے خود کو تیاری کے بعد اُسے اُمید ہوتی ہے کہ اس کے گھر والے ضرور اُسے سر ہا ئیں اِسی وجہ سے وہ ہزاروں مختلف قسم کے بیوٹی پروڈکٹس استعمال کرتی ہیں وہ مختلف کر یمنر میک اپ اور ساما ن چہرے کے مختلف حصوں اور ضرورت کے حساب سے، جلد کے حساب سے ، رنگت کے حساب سے اور پتہ نہیں کیا کیا ۔ جس طر ح عورت زیور کے بنا ادھوری لگتی ہے اِسی طر ح اب میک اپ کے بنا بھی دیدارکے قا بل نہیں لگتی ۔خود خواتین کا بھی یہ حال ہے کہ پہننے کے کپڑے کم ہوتے ہیں اور ڈریسنگ ٹیبل پرسجی چہرے پر لگانے کی اشیاءبے شمار ہوتی ہیں۔ مختلف قسم کی تو بے شمار کر یمنر ہوتی ہیں گورا کرنے کی، جھائیوں کی ، داغ دھبوں کی، آئلی جلد کی، نارمل جلدکی، کیل مہاسوں کی ، اس کی اُس کی کریم اُف ۔۔۔۔۔۔!اچھی طرح یاد ہے اپنا بچپن جب دادی نانی کے پاس ایک ہی کٹ (Kit)ہوتی تھی جس کی پوری چہرے پر لگانے والی سر خی پاﺅڈر ہوتا ہے جو کہ اس وقت حُسن کو نکھار نے کے لئے کافی مانا جاتا ہے اور آج کے درو میں حُسن کے نخروں کی تعدار آپ گن ہی نہیں سکتے ہیں۔ دکان پر موجود وارنٹی کے آگے اپنی ضرورت اور جلدکے حساب سے مہک آپ خریدنا بھی بڑی جنگ کی طرح ہے کہتے ہیں نہ خواتین نے اگر کہیں جانا ہوتو پھر پورا ہفتہ تیاری اور پھر اُس دن بھی سادہ دن تیاری کرنے کے بعد بھی گاڑی میں بیٹھے مرد حضرات کو پانچ منٹ میں آئی ، پانچ منٹ بس کی صدائیں سننے کو ملتی ہیں۔ جس کے بعد مرد حضرات کو انتظار کی وجہ سے لگی آپ پر خاتون یہ کہہ کر تیل ڈالتی ہیں کہ تیاری کا وقت ہی نہیں ملا بس جلدی میں کچھ نہیں کرسکی۔

 یقین مانیں اگر جلدی میں ہوئے تیار چہر ے پر آپ نگاہ دوڑایں گے تو دیکھ سکتے ہیں آنکھوں کی ان چھوٹی پلکوں پر کس قد ر تفسیہ کار ی کی گئی ہوتی ہے کہ آئی لانئر ، مسکا را ، کا جل ، آئی شیڈز وہ بھی کپڑوں کے رنگ کی منا سبت سے مختلف دو، تین رنگ اس طر ح لگائے ہوئے ہیں۔ کہ آنکھوں سے نگا ہیں ہٹتی ہی نہیں ۔اور پھر مرد حضرات انہی سحر انگیز نگاہوں کے تیر کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
حکومت کو بھی ان ظالمانہ اداﺅں کا اندازہ تھا یا پھر کہیے کہ ظلم ڈھانا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ میک اپ کی اشیاءپر بھی ٹیکس عائد کردیا گیا اور پھر ہر سال بجٹ میں اس پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جارہا ہے ۔ مطلب بجلیاں گرانے والیوں پر بجلی گرادی حکومت نے۔ خواتین اس خود پر ہونے والے اس ظلم پر ہائے ہائے کرتی نظر آتی ہیں۔ اپنی ناراضگی ، غصے کا اظہار کرتی ہیں کہ میک اپ کے سامان پر ٹیکس نہ لگائے جائیں لیکن کچھ خواتین کا یہ بھی کہنا تھا کہ سامان مہنگا ہو یا سستا اُس سے اُن پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ یہ شوہروں کی ذمہ داری ہے ان کا درد سر ہے۔ وہ صرف خریدنے کی حد تک محدود ہیں خرچ کرنے کا ذمہ ان کے مرد حضرات پر ہے۔ اب اس کا نتیجہ تو یہ ہوا کہ بچارے مرد کی جیب پر ایک نیا عذاب ڈال دیا گیا ہے حکومت کی جانب سے ۔اسی کا جواب حاصل کرنے کے لئے جب ہم نے مرد حضرات سے بات کی تو ان کے خیالات کچھ یوں تھے ۔خواتین ، مردوں کو کمائی کی مشین یا نوٹ چھاپنے کی مشین سمجھتی ہیں اور روز نت نئی فرمائیں کرتی ہیں۔ ایک مہنگائی کا جن جو کہ بوتل میں بند ہونے کا نام نہیں لیتا دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے حکومت بھی رحم نہیں کھاتی ۔ تنخواہیں کم اور قیمتیں زیادہ ہیں گذارہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد حضرات میں بلڈ پریشر اور دل کے امراض جیسی بیماریوں کی شرح زیادہ ہے۔ جس کی شرح 27 فیصد ہے۔ 
اس کی وجوہات جاننے پر تفصیلات یہ ملا کہ خواتین میں اس کے بڑھتے رجحانات کی وجہ میڈیا میں دکھائے جانے والی رونمائی اس قدر اثر انگیز ہے کہ وہ خواتین کو جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ ان پروگرامز میں اتنی خوبیاں نکھار نکھار کر بتائی جاتی ہیں کہ جیسے ان پر وڈکٹس کے بنا ءتو حل ممکن ہی نہ ہو اور پھر ان شوز میں برانڈز کی خاص طور پر رونمائی کی جاتی ہے۔ مورننگ شوز ، اشتہارات کی د کان بن کر وہ گئے ہیں برانڈز کی۔ جس کی وجہ سے ان کے نخرے مزید بڑھ گئے ہیں اور نتیجتاً قیمت میں اضافہ ہوا جس پر گورنمنٹ نے مزید ٹیکس عائد کر کے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے گورنمنٹ نے اس سال میک اپ کی اشیاءکی مد میں 5 فیصد تک ٹیکس کا اضافہ کیا ہے ۔ کچھ نام نہاد میک اپ اشیاءکی فہرست یہ ہے:
1 ) میک 2 ) لورئیال 3 ) اوے 
4 ) میبیلین 5 ) ای ٹیوڈ 
اب خیالات کچھ یوں ہیں کہ مہنگائی نے ہر چیز کو پر لگا دئیے ہیں میڈیا نے رونمائی کر کے کہ لڑکیوں پر ایسا سحر طاری کردیا ہے کہ ان کی قیمتوں کا بھی ان پر اثر نہیں پڑتا، فرق تو صرف مردوں کی جیب کو پڑتا ہے۔ اب بچارے وہ کریں بھی تو کیا حسینہ کے آنکھ میں مسکارا تو اچھا لگتا ہے پر آنسو نہیں تو خود خون کے آنسو پی جاتے ہیں تو ہلال ہوجاتے ہیں ان نخروں کے آگے گلہ اور التجا حکومت سے ہے خواتین میں زیادہ مردوں کی ہے کہ رحم کیا جائے اور اتنے زیادہ ٹیکسز نہ لگائے جائیں قیمتوں میں کمی کی جائے۔
دکانداروں کا کہنا ہے کہ قیمتیں بڑھ جانے کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ خرید پر بہت فرق پڑا ہے۔ عام ناخن پالش کی قیمت 200 روپے سے 500 روپے تک آگئی ہے جس کی وجہ سے خریداری پر گہرے اثرات پڑے ہیں اور یہ وجہ کاسمیٹکس پر لگنے والے ٹیکس ہیں۔

Department of Media and Communication Studies, Sindh University Jamshoro
Jan 2016 
INTERVIEW of Syed Murtaza Dadahi Sindhi poet from Tando Allahyar.
Practical work done under supervision of Sir Sohail Sangi

Tuesday, 19 January 2016

Referred back Profile of Abdul Salam Ansari

Referred back. Photo of personality is also must
Name: Bilal Masood 
Roll No: 132
پروفائل
عبدالسلام انصاری 
ٹنڈوآدم میں کبھی بھی ایگریکلچر کالج نہیں رہا اور نہ ابھی ہے۔ 
کمپوزنگ کی غلطیاں : (کفایت کفالت)، (ن ں)، (ھ ہ ) (مکام؟)، (نرجل ؟)
 (سیاھی ؟) سانک 
ساتھ کام کرنے والوں، اس شعبے کے ماہرین وغیرہ کی رائے بھی ہوتی ہے۔ یہ بھی فیچر کی طرح رپورٹنگ بیسڈ ہوتا ہے۔ 
 آپ برائے مہربانی اس کی دوبارہ پروف ریڈنگ کریں خاص طور پر ”ن“ اور ”ں“ ، ھ اور ہ کا فرق سمجھیں، یہ پورے پروفائیل میں غلط ہیں۔ 
 پروفائیل کے اندر اس کے لکھنے والے کا نام اسی زبان میں لکھا ہوا ہونا چاہئے جس میں یہ لکھا گیا ہے۔ 

چونکہ انسان کی کفایت کا ذمہ اس کائنات کے مالک کا ہے، وہ ذمہ اپنے بندون کے لیے ذریعہ بناتا ہے اس طرح عبدالسلام کے لیے ان کے مامون کو زمین پے ذریعہ بنایا۔
عبدالسلام انصاری نے نوشھروفیروز کے انتھائی غریب گھرانے مین آنکھ کھولی۔ آپ کے والد نوشھروفیروز مین ھندوو ¾ن کے گھرون مین پانی بھرا کرتے تھے، جس کے عیوض انھین کچھ رقم ملجاتی اور اسی سے ان کے گھر کا چھولا جلتا۔ چھ سال کی عمر مین ان کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ چکا تھا جس کے باعث مشکلاتون مین اضافہ ہوگیا تھا۔ غربت کہ باوجود عبدالسلام کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا ، دن مین بکریان چارتے اور پانی بھرتے اور رات کے وقت جہان روشنی نظر آتی بیٹھ کے پڑھا کرتے، تعلیم کے لیے جنون دیکھ کے آپ کے مامون نے ان کی تعلیم کا خرچ اٹھانے کا ذمہ اپنے سر لے لیا، جس کے بعد انھون نے نوشھروفیروز سے میٹرک کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد سندھ ایگریکلچرل کالج ٹنڈوآدم سے انٹر کے امتحان پاس کیے، اور پھر بیچلرز (ھانرز) سائل سائنس سندھ ایگریکلچرل یونیورسٹی ٹنڈوجام سے کیا۔ آپ کا کہنا ہے کے تعلیم ہی زندگی مین ترقی کے خزانے کی ایک انمول چابی ہے، تعلیم ایسا زیور ہے جو ہر صورت مین لازمی ہے۔ انھون نے نہ صرف خود تعلیم حاصل کی بلکہ اپنے اکلوتے چھوٹے بھائی کو بھی تعلیم دلوائی اور اسے ڈاکٹر بنایا۔ تعلیمی سالون کے درمیان آپ نے ملازمت اختیار کر لی تا کہ اپنی تعلیم اور گھر کا خرچ اٹھا سکے مگراس مکام تک لانے کے لیے انگلی پکڑنے والے مامون کے شکر گذار رہتے ہین۔ بائیس سال کی عمر مین آپ کی شادی آپ سے کم تعلیم یافتہ عورت سے ہوئی جوکہ ان کی والدہ کی پسند تھی، جس کے بعد بھی آپ نے تعلیم جاری رکھی اور اٹلی بسا کالج سے ایم ایس سی کی ڈگری ایٹامک انرجل سینٹرٹنڈوجام مین۔
آ نے سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی مین واٹر مینجمینٹ مین ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دین۔ تعلیم کا جنون انھون نے اپنی اولاد کے اندر بھی منتقل کیا اور اس جنون کو ٹھنڈا نھین ہونے دیا۔ بچپن سے ہی زندگی کو اتنا کڑا مشکل اور کٹھن دیکھنے کی وجہ نے عبدالسلام کے مزاج کو بھی تلخ اور کڑوا کردیا۔ بھت جلد غصہ ہوجانے والے اور جلد ٹھنڈا ہونے والے انصاری اصولون کے بے انتھا پابندہین اور کسی بھی صورت مین کوئی غلط بات برداشت نہین کرتے لوگ کہتے ہین کے غصہ کرنے والہ شخص دل کا صاف ہوتا ہے عبدالسلام صاف دل کے اور بے تحاشہ محبت کرنے والے انسان ہین، زندگی ایک کڑی تھکان سے گذرنے اور تجربے کے بعد عبدالسلام اب مشکلات سے لڑتے لوگون کی مدد کرتے ہین اپنی طرف سے ہر ممکن مدد کرتے ہین جو ایک بااخلاق انسان کی نشانی ہے۔
 شوق کو پورا کرنے کے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے، عبدالسلام کو سیاھی کا بھت شوق تھا تعلیم کی چابی سے حاصل خزانے سے انہون نے اپنا شوق پورا کیا اور دنیا کے کئی ملکون کا سیر کر چکے ہین لذت اور ذائقے کو پرکھنے مین عبدالسلام انصاری کھانے پینے کے بھی شوقین ہین اور مختلف ڈشز پرکھنے کا شوق رکھتے ہین اور اسے پورا بھی کرتے ہین ارسٹھ سال کی عمر ہونے کے باوجود بہترین صحت، جسم، قدوخال کے سانک ہے۔ وہ اس بات کو اچہی طرح سمجھتے ہین کہ جان سے جہان ہے،صبح جلدی اٹھ کے ورزش کرنا اور بھرپور صحت بخش ناشتہ کرنا اور پھر اخبار پر نظر اور حالات سے واقفیت رکھنا اور تبصرہ کرنا انکا معمول ہے۔
  خوش پوشاکی بھی انکا شیواہ ہے اور صرف ایک ہی انداز ان کی پھچان ہے کاٹن کا سوٹ اور وہ بھی کلف دار جس سے وہ بھترین طور پر سنبھالنا بہی جانتے ہین۔ رعبدار شخصیت کے مالک ہین مگر موسیقی کے شیدائی بھی ہین، آپ کو رفعہ جگجیت سنگھ،عابدہ پروین کی غزلین پسند ہین اور سننے کا شوق ہے۔ عبدالسلام کا ماننا ہے کے موسیقی روح کو زندہ کر دیتی ہے، تسکین بخش ہے سکون کا باعث ہوتی ہے۔
 زندگی کی کشتی جوکہ مشکلات کے سمندر مین پھنستی تھی اسے کامیاب انداز مین نکال کر کنارے تک لانے والے عبدالسلام انصاری اب اپنی نسل اور آنے والی نسل کے لیے اعلیٰ خواب رکھتے ہین اور ان کی بھتری کے لیے کوشان ہین مگر مسلسل جہدوجہد اور محنت کی وجھ سے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہونے لگے اور دل کے سنگین دورے کا شکار ہوئے جس کے بعد ان ہونے ایبسٹراٹمینٹ لی تھی آٹھ سال قبل جنرل مینجر فوجی فرٹیلائیزر کمپنی کے عہدے سے اور اب گھر بیٹھ کہ اپنی دوسری نسل کے مسکراتے پھولون کو دیکھ کی خوش ہوتے ہین۔