This topic is not approved. Despite repeated reminders he did not turn up to explain his position
Un checked
Un checked
Is this approved topic? plz show me slip
نام: بلال مسعود
رول نمبر: ۲۳۱
ٹوپک: فیچر
حسن ہوا مہنگا
حسین رکھنا نظر کا مر کز بننا تعریف سننا ہر عورت کا خواب آئینہ کے گھنٹہ آگے خود کو تیاری کے بعد اُسے اُمید ہوتی ہے کہ اس کے گھر والے ضرور اُسے سر ہا ئیں اِسی وجہ سے وہ ہزاروں مختلف قسم کے بیوٹی پروڈکٹس استعمال کرتی ہیں وہ مختلف کر یمنر میک اپ اور ساما ن چہرے کے مختلف حصوں اور ضرورت کے حساب سے، جلد کے حساب سے ، رنگت کے حساب سے اور پتہ نہیں کیا کیا ۔ جس طر ح عورت زیور کے بنا ادھوری لگتی ہے اِسی طر ح اب میک اپ کے بنا بھی دیدارکے قا بل نہیں لگتی ۔خود خواتین کا بھی یہ حال ہے کہ پہننے کے کپڑے کم ہوتے ہیں اور ڈریسنگ ٹیبل پرسجی چہرے پر لگانے کی اشیاءبے شمار ہوتی ہیں۔ مختلف قسم کی تو بے شمار کر یمنر ہوتی ہیں گورا کرنے کی، جھائیوں کی ، داغ دھبوں کی، آئلی جلد کی، نارمل جلدکی، کیل مہاسوں کی ، اس کی اُس کی کریم اُف ۔۔۔۔۔۔!اچھی طرح یاد ہے اپنا بچپن جب دادی نانی کے پاس ایک ہی کٹ (Kit)ہوتی تھی جس کی پوری چہرے پر لگانے والی سر خی پاﺅڈر ہوتا ہے جو کہ اس وقت حُسن کو نکھار نے کے لئے کافی مانا جاتا ہے اور آج کے درو میں حُسن کے نخروں کی تعدار آپ گن ہی نہیں سکتے ہیں۔ دکان پر موجود وارنٹی کے آگے اپنی ضرورت اور جلدکے حساب سے مہک آپ خریدنا بھی بڑی جنگ کی طرح ہے کہتے ہیں نہ خواتین نے اگر کہیں جانا ہوتو پھر پورا ہفتہ تیاری اور پھر اُس دن بھی سادہ دن تیاری کرنے کے بعد بھی گاڑی میں بیٹھے مرد حضرات کو پانچ منٹ میں آئی ، پانچ منٹ بس کی صدائیں سننے کو ملتی ہیں۔ جس کے بعد مرد حضرات کو انتظار کی وجہ سے لگی آپ پر خاتون یہ کہہ کر تیل ڈالتی ہیں کہ تیاری کا وقت ہی نہیں ملا بس جلدی میں کچھ نہیں کرسکی۔
یقین مانیں اگر جلدی میں ہوئے تیار چہر ے پر آپ نگاہ دوڑایں گے تو دیکھ سکتے ہیں آنکھوں کی ان چھوٹی پلکوں پر کس قد ر تفسیہ کار ی کی گئی ہوتی ہے کہ آئی لانئر ، مسکا را ، کا جل ، آئی شیڈز وہ بھی کپڑوں کے رنگ کی منا سبت سے مختلف دو، تین رنگ اس طر ح لگائے ہوئے ہیں۔ کہ آنکھوں سے نگا ہیں ہٹتی ہی نہیں ۔اور پھر مرد حضرات انہی سحر انگیز نگاہوں کے تیر کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
حکومت کو بھی ان ظالمانہ اداﺅں کا اندازہ تھا یا پھر کہیے کہ ظلم ڈھانا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ میک اپ کی اشیاءپر بھی ٹیکس عائد کردیا گیا اور پھر ہر سال بجٹ میں اس پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جارہا ہے ۔ مطلب بجلیاں گرانے والیوں پر بجلی گرادی حکومت نے۔ خواتین اس خود پر ہونے والے اس ظلم پر ہائے ہائے کرتی نظر آتی ہیں۔ اپنی ناراضگی ، غصے کا اظہار کرتی ہیں کہ میک اپ کے سامان پر ٹیکس نہ لگائے جائیں لیکن کچھ خواتین کا یہ بھی کہنا تھا کہ سامان مہنگا ہو یا سستا اُس سے اُن پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ یہ شوہروں کی ذمہ داری ہے ان کا درد سر ہے۔ وہ صرف خریدنے کی حد تک محدود ہیں خرچ کرنے کا ذمہ ان کے مرد حضرات پر ہے۔ اب اس کا نتیجہ تو یہ ہوا کہ بچارے مرد کی جیب پر ایک نیا عذاب ڈال دیا گیا ہے حکومت کی جانب سے ۔اسی کا جواب حاصل کرنے کے لئے جب ہم نے مرد حضرات سے بات کی تو ان کے خیالات کچھ یوں تھے ۔خواتین ، مردوں کو کمائی کی مشین یا نوٹ چھاپنے کی مشین سمجھتی ہیں اور روز نت نئی فرمائیں کرتی ہیں۔ ایک مہنگائی کا جن جو کہ بوتل میں بند ہونے کا نام نہیں لیتا دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے حکومت بھی رحم نہیں کھاتی ۔ تنخواہیں کم اور قیمتیں زیادہ ہیں گذارہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد حضرات میں بلڈ پریشر اور دل کے امراض جیسی بیماریوں کی شرح زیادہ ہے۔ جس کی شرح 27 فیصد ہے۔
اس کی وجوہات جاننے پر تفصیلات یہ ملا کہ خواتین میں اس کے بڑھتے رجحانات کی وجہ میڈیا میں دکھائے جانے والی رونمائی اس قدر اثر انگیز ہے کہ وہ خواتین کو جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ ان پروگرامز میں اتنی خوبیاں نکھار نکھار کر بتائی جاتی ہیں کہ جیسے ان پر وڈکٹس کے بنا ءتو حل ممکن ہی نہ ہو اور پھر ان شوز میں برانڈز کی خاص طور پر رونمائی کی جاتی ہے۔ مورننگ شوز ، اشتہارات کی د کان بن کر وہ گئے ہیں برانڈز کی۔ جس کی وجہ سے ان کے نخرے مزید بڑھ گئے ہیں اور نتیجتاً قیمت میں اضافہ ہوا جس پر گورنمنٹ نے مزید ٹیکس عائد کر کے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے گورنمنٹ نے اس سال میک اپ کی اشیاءکی مد میں 5 فیصد تک ٹیکس کا اضافہ کیا ہے ۔ کچھ نام نہاد میک اپ اشیاءکی فہرست یہ ہے:
1 ) میک 2 ) لورئیال 3 ) اوے
4 ) میبیلین 5 ) ای ٹیوڈ
اب خیالات کچھ یوں ہیں کہ مہنگائی نے ہر چیز کو پر لگا دئیے ہیں میڈیا نے رونمائی کر کے کہ لڑکیوں پر ایسا سحر طاری کردیا ہے کہ ان کی قیمتوں کا بھی ان پر اثر نہیں پڑتا، فرق تو صرف مردوں کی جیب کو پڑتا ہے۔ اب بچارے وہ کریں بھی تو کیا حسینہ کے آنکھ میں مسکارا تو اچھا لگتا ہے پر آنسو نہیں تو خود خون کے آنسو پی جاتے ہیں تو ہلال ہوجاتے ہیں ان نخروں کے آگے گلہ اور التجا حکومت سے ہے خواتین میں زیادہ مردوں کی ہے کہ رحم کیا جائے اور اتنے زیادہ ٹیکسز نہ لگائے جائیں قیمتوں میں کمی کی جائے۔
دکانداروں کا کہنا ہے کہ قیمتیں بڑھ جانے کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ خرید پر بہت فرق پڑا ہے۔ عام ناخن پالش کی قیمت 200 روپے سے 500 روپے تک آگئی ہے جس کی وجہ سے خریداری پر گہرے اثرات پڑے ہیں اور یہ وجہ کاسمیٹکس پر لگنے والے ٹیکس ہیں۔
Department of Media and Communication Studies, Sindh University Jamshoro
Jan 2016
INTERVIEW of Syed Murtaza Dadahi Sindhi poet from Tando Allahyar.
Practical work done under supervision of Sir Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment