Referred back. Photo of personality is also must
Name: Bilal Masood
Roll No: 132
پروفائل
عبدالسلام انصاری
ٹنڈوآدم میں کبھی بھی ایگریکلچر کالج نہیں رہا اور نہ ابھی ہے۔
کمپوزنگ کی غلطیاں : (کفایت کفالت)، (ن ں)، (ھ ہ ) (مکام؟)، (نرجل ؟)
(سیاھی ؟) سانک
ساتھ کام کرنے والوں، اس شعبے کے ماہرین وغیرہ کی رائے بھی ہوتی ہے۔ یہ بھی فیچر کی طرح رپورٹنگ بیسڈ ہوتا ہے۔
آپ برائے مہربانی اس کی دوبارہ پروف ریڈنگ کریں خاص طور پر ”ن“ اور ”ں“ ، ھ اور ہ کا فرق سمجھیں، یہ پورے پروفائیل میں غلط ہیں۔
پروفائیل کے اندر اس کے لکھنے والے کا نام اسی زبان میں لکھا ہوا ہونا چاہئے جس میں یہ لکھا گیا ہے۔
چونکہ انسان کی کفایت کا ذمہ اس کائنات کے مالک کا ہے، وہ ذمہ اپنے بندون کے لیے ذریعہ بناتا ہے اس طرح عبدالسلام کے لیے ان کے مامون کو زمین پے ذریعہ بنایا۔
عبدالسلام انصاری نے نوشھروفیروز کے انتھائی غریب گھرانے مین آنکھ کھولی۔ آپ کے والد نوشھروفیروز مین ھندوو ¾ن کے گھرون مین پانی بھرا کرتے تھے، جس کے عیوض انھین کچھ رقم ملجاتی اور اسی سے ان کے گھر کا چھولا جلتا۔ چھ سال کی عمر مین ان کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ چکا تھا جس کے باعث مشکلاتون مین اضافہ ہوگیا تھا۔ غربت کہ باوجود عبدالسلام کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا ، دن مین بکریان چارتے اور پانی بھرتے اور رات کے وقت جہان روشنی نظر آتی بیٹھ کے پڑھا کرتے، تعلیم کے لیے جنون دیکھ کے آپ کے مامون نے ان کی تعلیم کا خرچ اٹھانے کا ذمہ اپنے سر لے لیا، جس کے بعد انھون نے نوشھروفیروز سے میٹرک کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد سندھ ایگریکلچرل کالج ٹنڈوآدم سے انٹر کے امتحان پاس کیے، اور پھر بیچلرز (ھانرز) سائل سائنس سندھ ایگریکلچرل یونیورسٹی ٹنڈوجام سے کیا۔ آپ کا کہنا ہے کے تعلیم ہی زندگی مین ترقی کے خزانے کی ایک انمول چابی ہے، تعلیم ایسا زیور ہے جو ہر صورت مین لازمی ہے۔ انھون نے نہ صرف خود تعلیم حاصل کی بلکہ اپنے اکلوتے چھوٹے بھائی کو بھی تعلیم دلوائی اور اسے ڈاکٹر بنایا۔ تعلیمی سالون کے درمیان آپ نے ملازمت اختیار کر لی تا کہ اپنی تعلیم اور گھر کا خرچ اٹھا سکے مگراس مکام تک لانے کے لیے انگلی پکڑنے والے مامون کے شکر گذار رہتے ہین۔ بائیس سال کی عمر مین آپ کی شادی آپ سے کم تعلیم یافتہ عورت سے ہوئی جوکہ ان کی والدہ کی پسند تھی، جس کے بعد بھی آپ نے تعلیم جاری رکھی اور اٹلی بسا کالج سے ایم ایس سی کی ڈگری ایٹامک انرجل سینٹرٹنڈوجام مین۔
آ نے سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی مین واٹر مینجمینٹ مین ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دین۔ تعلیم کا جنون انھون نے اپنی اولاد کے اندر بھی منتقل کیا اور اس جنون کو ٹھنڈا نھین ہونے دیا۔ بچپن سے ہی زندگی کو اتنا کڑا مشکل اور کٹھن دیکھنے کی وجہ نے عبدالسلام کے مزاج کو بھی تلخ اور کڑوا کردیا۔ بھت جلد غصہ ہوجانے والے اور جلد ٹھنڈا ہونے والے انصاری اصولون کے بے انتھا پابندہین اور کسی بھی صورت مین کوئی غلط بات برداشت نہین کرتے لوگ کہتے ہین کے غصہ کرنے والہ شخص دل کا صاف ہوتا ہے عبدالسلام صاف دل کے اور بے تحاشہ محبت کرنے والے انسان ہین، زندگی ایک کڑی تھکان سے گذرنے اور تجربے کے بعد عبدالسلام اب مشکلات سے لڑتے لوگون کی مدد کرتے ہین اپنی طرف سے ہر ممکن مدد کرتے ہین جو ایک بااخلاق انسان کی نشانی ہے۔
شوق کو پورا کرنے کے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے، عبدالسلام کو سیاھی کا بھت شوق تھا تعلیم کی چابی سے حاصل خزانے سے انہون نے اپنا شوق پورا کیا اور دنیا کے کئی ملکون کا سیر کر چکے ہین لذت اور ذائقے کو پرکھنے مین عبدالسلام انصاری کھانے پینے کے بھی شوقین ہین اور مختلف ڈشز پرکھنے کا شوق رکھتے ہین اور اسے پورا بھی کرتے ہین ارسٹھ سال کی عمر ہونے کے باوجود بہترین صحت، جسم، قدوخال کے سانک ہے۔ وہ اس بات کو اچہی طرح سمجھتے ہین کہ جان سے جہان ہے،صبح جلدی اٹھ کے ورزش کرنا اور بھرپور صحت بخش ناشتہ کرنا اور پھر اخبار پر نظر اور حالات سے واقفیت رکھنا اور تبصرہ کرنا انکا معمول ہے۔
خوش پوشاکی بھی انکا شیواہ ہے اور صرف ایک ہی انداز ان کی پھچان ہے کاٹن کا سوٹ اور وہ بھی کلف دار جس سے وہ بھترین طور پر سنبھالنا بہی جانتے ہین۔ رعبدار شخصیت کے مالک ہین مگر موسیقی کے شیدائی بھی ہین، آپ کو رفعہ جگجیت سنگھ،عابدہ پروین کی غزلین پسند ہین اور سننے کا شوق ہے۔ عبدالسلام کا ماننا ہے کے موسیقی روح کو زندہ کر دیتی ہے، تسکین بخش ہے سکون کا باعث ہوتی ہے۔
زندگی کی کشتی جوکہ مشکلات کے سمندر مین پھنستی تھی اسے کامیاب انداز مین نکال کر کنارے تک لانے والے عبدالسلام انصاری اب اپنی نسل اور آنے والی نسل کے لیے اعلیٰ خواب رکھتے ہین اور ان کی بھتری کے لیے کوشان ہین مگر مسلسل جہدوجہد اور محنت کی وجھ سے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہونے لگے اور دل کے سنگین دورے کا شکار ہوئے جس کے بعد ان ہونے ایبسٹراٹمینٹ لی تھی آٹھ سال قبل جنرل مینجر فوجی فرٹیلائیزر کمپنی کے عہدے سے اور اب گھر بیٹھ کہ اپنی دوسری نسل کے مسکراتے پھولون کو دیکھ کی خوش ہوتے ہین۔
No comments:
Post a Comment