Showing posts with label سمعیہ کنول. Show all posts
Showing posts with label سمعیہ کنول. Show all posts

Monday, 15 February 2016

IBA Sindh University -A profile

REvised
سمعئیہ کنول
رول نمبر ۵۹

شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن
جامعہ سندھ میں شعبہ آئی۔بی۔اے ۹۷۹۱ میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس اسٹڈیز کے نام سے وجود میں آیا ۔ جس کی بنیاد میں سب سے بڑا کردار مرحوم پروفیسر نبی بخش داؤد پوتا نے ادا کیا۔ ابتداء میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس اسٹڈیز جامعہ سندھ کے کیمپس علامہ آئی آئی کازی کی لائبریری بلڈنگ میں واقع تھا ، طلباء کی تعداد میں اضافہ ہونے کے باعث ڈپارٹمنٹ آف بزنس اسٹڈیز کو خاصی مشکلات کا سامنہ کرنا پڑا جس کی بناء پر ۴۸۹۱ میں ڈپارٹمنٹ آف برنس اسٹڈ یز کی ایک علیحدہ بلڈنگ قائم کی گئی جو آج بھی اسی حالت میں موجود ہے۔ ڈپارٹمنٹ آف بزنس اسٹڈیز کی الگ بلڈنگ حاصل کرنے کے کچھ عرصے بعد ہی اسکا نام تبدیل کر کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈ منسٹریشن کر دیا گیاجسے آج سب شعبہ آئی۔بی۔اے کے نام سے جانتے ہیں۔

آئی۔بی۔اے میں صبح اور شام کے تمام طلباء کو ملا کر تقریباً ۰۹۸۱ طالبعلم زیر تعلیم ہیں جو کہ جامعہ سندھ کے کسی شعبہ کے بر عکس کثیر تعداد میں ہیں ۔ آئی۔بی۔اے چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹرامام الدین کھوسو کی سربراہی میں پچھلے تین سالوں سے بہت ترقی کر رہا ہے،جہاں سینٹرل لائبریری میں وائی فائی اور انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کی تو ساتھ ساتھ لائیبریری کو ایئرکنڈیشنڈ بھی کروایا،اس کے سات جنریٹر ، مائیک سیسٹم، ملٹیمیڈیافکسنگ اور ریسپشن ڈیسک کی سہولت سے بھی آراستہ کیا۔ آئی ۔بی۔اے سندھ کے بہت سے طلباء اپنے نام کا لوہا منوا چکے ہیں جن میں حمیرا الوانی (میمبر آف سندھ اسمبلی)، ڈاکٹر بہادر ڈاہری (میمبر آف سندھ اسمبلی)، زبیر احمد (میمبر آف سندھ اسمبلی) ، منہاج شاہ (موسیقار) اور فائز عالم (انٹرنیشنل ٹرینر)شامل ہیں۔

ڈاکٹرامام الدین کھوسو شعبہ آئی۔بی۔اے کوآسمان کی بلندیوں پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اپنی فیکلٹی کے ساتھ مل کرمختلف ورک شاپس اور سیمینارز کا انعقاد کرتے رہتے ہیں، اپنے طلباء کو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی آگے رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ۔جس کی بدولت یونیورسٹی آف سندھ کو دو بار پاکستان لیول چیمپئینز ٹرافی حاصل ہوئی ہے۔ ڈاکٹر پروفیسر امام الدین کھوسوحال میں PHDکے طلباء کے لئے سیمینارز منعقد کر رہے ہیں جس کے گائیڈ کا کام وہ خود سرانجام دے رہے ہیں۔

آئی۔بی۔اے کے کچھ فکلٹی میمبرز بھی PHDکے لئے بیرون ملک گئے ہوئے ہیں جن میں مشتاق جاریکو، انتظار لاشاری اور صوبیہ صدف شامل ہیں۔ آئی۔بی۔اے میں سینئر ٹیچرز کے فرائض نظیر احمد گوپانگ، ڈاکٹر زاہدقاظی،نظام الدین چنہ،وشنو پھنور اور عائشہ بشیر شاہ انجام دے رہے ہیں ۔

آئی۔بی۔اے سندھ خود کو آئی۔بی۔اے سکھر اورآئی۔بی۔اے کراچی کی طرح ایک بہتر پہچان دلوانے کے لئے دن دگنی اور رات چگنی محنت کر رہا ہے اور مستقبل میں اپنے تمام طلباء کو بہترین عہدوں پر دیکھنے کا خواہشمند ہے۔اس لحاظ سے آئی۔بی۔اے مستقبل میں خود کو پاکستان کے مشہور و معروف اداروں میں دیکھتا ہے۔ آئی ۔بی۔اے یونیورسٹی آف سندھ کے ان کے ان شعبوں میں شمار ہوتا ہے جن میں بہت سے طلباء ایڈمیشن کے خواہشمند ہوتے ہیں BBA اورMBAکے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے شعبہ آئی۔بی۔اے کو طلباء اپنی پہلی خواہش کے طور پر سامنے رکھتے ہیں، اس لحاظ سے آئی۔بی۔اے کو خاصی مقبولیت حاصل ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی۔بی۔اے اپنے طلباء کو بہترین سہولیات کے ساتھ ساتھ بہترین اساتذہ کی نگرانی میں اعلٰی کاروبار کرنے کی تربیت اس طریقے سے دینے کی کوشش کرتا ہے کہ جب آئی۔بی۔اے کا طالبعلم ڈگری حاصل کر لیتا ہے تو اس میں کام کرنے کی عملی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور وہ اپنے کام سے اپنے نام کا لوہا دنیا کے سامنے منوا لیتا ہے۔

آئی۔بی۔اے سندھ کی ہر دور میں پہلی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جدید دور کے ساتھ قدم سے قدم ملاتا ہوا اپنے طلباء کومزید آگے بڑھاتا رہے اور ان کے طلباء ہر میدان میں اپنی جیت کا پرچم بلند کرتے نظر آئیں۔اسی روش کو اختیار کرتے ہوئے آئی۔بی۔اے اپنے مستقبل کے منصوبے تیار کرنے کے ساتھ ساتھ حال کو بہتر سے بہترین بنانے کی کوششوں اور کاوشوں میں مصروف عمل ہے ۔

.......................................................................................................................................
سمعئیہ کنول

رول نمبر ۵۹



شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن

جامعہ سندھ میں شعبہ آئی۔بی۔اے ۹۷۹۱ میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس اسٹڈیز کے نام سے وجود میں آیا ۔ جس کی بنیاد میں سب سے بڑا کردار مرحوم پروفیسر نبی بخش داؤد پوتا نے ادا کیا۔ ابتداء میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس اسٹڈیز جامعہ سندھ کے کیمپس علامہ آئی آئی کازی کی لائبریری بلڈنگ میں واقع تھا ، طلباء کی تعداد میں اضافہ ہونے کے باعث ڈپارٹمنٹ آف بزنس اسٹڈیز کو خاصی مشکلات کا سامنہ کرنا پڑا جس کی بناء پر ۴۸۹۱ میں ڈپارٹمنٹ آف برنس اسٹڈ یز کی ایک علیحدہ بلڈنگ قائم کی گئی جو آج بھی اسی حالت میں موجود ہے۔ ڈپارٹمنٹ آف بزنس اسٹڈیز کی الگ بلڈنگ حاصل کرنے کے کچھ عرصے بعد ہی اسکا نام تبدیل کر کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈ منسٹریشن کر دیا گیاجسے آج سب شعبہ آئی۔بی۔اے کے نام سے جانتے ہیں۔



آئی۔بی۔اے میں صبح اور شام کے تمام طلباء کو ملا کر تقریباً ۰۹۸۱ طالبعلم زیر تعلیم ہیں جو کہ جامعہ سندھ کے کسی شعبہ کے بر عکس کثیر تعداد میں ہیں ۔ آئی۔بی۔اے چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹرامام الدین کھوسو کی سربراہی میں پچھلے تین سالوں سے بہت ترقی کر رہا ہے،جہاں سینٹرل لائبریری میں وائی فائی اور انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کی تو ساتھ ساتھ لائیبریری کو ایئرکنڈیشنڈ بھی کروایا،اس کے سات جنریٹر ، مائیک سیسٹم، ملٹیمیڈیافکسنگ اور ریسپشن ڈیسک کی سہولت سے بھی آراستہ کیا۔ آئی ۔بی۔اے سندھ کے بہت سے طلباء اپنے نام کا لوہا منوا چکے ہیں جن میں حمیرا الوانی (میمبر آف سندھ اسمبلی)، ڈاکٹر بہادر ڈاہری (میمبر آف سندھ اسمبلی)، زبیر احمد (میمبر آف سندھ اسمبلی) اور منہاج شاہ (موسیقار) شامل ہیں۔



ڈاکٹرامام الدین کھوسو شعبہ آئی۔بی۔اے کوآسمان کی بلندیوں پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اپنی فیکلٹی کے ساتھ مل کرمختلف ورک شاپس اور سیمینارز کا انعقاد کرتے رہتے ہیں، اپنے طلباء کو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی آگے رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ۔ آئی۔بی۔اے کے کچھ فکلٹی میمبرز حال میں PHDکے لئے بیرون ملک گئے ہوئے ہیں جن میں مشتاق جاریکو، انتظار لاشاری اور صوبیہ صدف شامل ہیں۔ آئی۔بی۔اے میں سینئر ٹیچرز کے فرائض نظیر احمد گوپانگ، ڈاکٹر زاہدقاظی،نظام الدین چنہ،وشنو پھنور اور عائشہ بشیر شاہ انجام دے رہے ہیں ۔



آئی۔بی۔اے سندھ خود کو آئی۔بی۔اے سکھر اورآئی۔بی۔اے کراچی کی طرح ایک بہتر پہچان دلوانے کے لئے دن دگنی اور رات چگنی

محنت کر رہا ہے اور مستقبل میں اپنے تمام طلباء کو بہترین عہدوں پر دیکھنے کا خواہشمند ہے۔اس لحاظ سے آئی۔بی۔اے مستقبل میں خود کو پاکستان کے مشہور و معروف اداروں میں دیکھتا ہے۔

Thursday, 28 January 2016

Circuit House Hyderabad


سمعیہ کنول
رول نمبر ۹۵
فیچر
سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد
سمعیہ کنول
 سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد ، شہر حیدرآباد کی ان قدیم عمارتوں میں سے ہے جو انگریزوں کی تعمیر کردہ ہیں اور تا حال زیرِ استعمال ہیں۔ سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد انگریزوں نے ۱۹۱۲ میں تعمیر کرواےا تھاجو ان کے سرکاری افسروں کے لئے ایک مخصوص عمارت تھی جہاں دوسرے شہروں سے آئے ہوئے افسران صاحبان ٹھرا کرتے تھے۔آج بھی سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد اسی کام کے لئے استعمال کےا جاتا ہے مگر اب فرق اتنا ہے کہ اب یہ سرکاری عمارت حکومت پاکستان کے افسران کے لئے مخصوص کر دی گئی ہے۔

سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد میں رکنے والے ناموں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بڑے بڑے نام شامل ہیں ، جن میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح جو پاکستان وجود میں آنے کے قبل تشریف لائے تھے، اان کے بعد ذولفقار علی بھٹو ، ان کی دختر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ،دورہ حکومت کے وزیر اعظم نواز شریف اور چیف منسٹر سندھ قائم علی شاہ موجود ہیں ۔

سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد میں رہل پہل زیادہ نہیں ہوتی مگر جب منسٹروں کی آمد کا امکان ہوتا ہے تو یہاں کی رونق اور سکیورٹی بہت بڑھادی جاتی ہے، مین سرکٹ ہاﺅس کی بلڈنگ میں صدر پاکستا ن ،وزیراعظم اور پاکستان کے سیاستدانوںکے بڑے نام ٹھرا کرتے ہیںاسی ہاﺅس کے احاطے میں ایک NXCنامی بلڈنگ موجود ہے جہاں قومی،وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے منسٹر ٹھرا کرتے ہیں ،مین سرکٹ ہاﺅ س ایک خوبصورت بلڈنگ ہے جس میں افسران کے کمروں کے علاوہ ایک میٹنگ حال موجود ہے جہاں سے منسٹر صاحبان پریس ریلیفس اور پریس کانفرنسس کرتے ہیںاگر وہ حال مہمانوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے چھوٹا پڑتا ہے تو پریس کانفرنس وہاں موجود ایک گارڈن میں منعقد کی جاتی ہیں ،جہاں خوش رنگ اور خوشبودار پھول اس بلڈنگ کی خوبصورتی بڑھاتے اور اسے مہکاتے ہیں۔

سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد کی سکیورٹی کے تمام فرائض ڈپٹی کمشنر سنبھالتے ہیں اور اس بلڈنگ کے نظم و نسق کی تمام ذمہ داریاں بھی ڈپٹی کمشنر کے پاس موجود ہوتی ہیں ،کسی بھی منسٹر ، چیف منسٹر ، وزیراعظم یا صدر کی آمد سے پہلے ڈپٹی کمشنر یہ اطلاع سرکٹ ہاﺅس پہنچا دیتا ہے اور انہیں سیکیورٹی خدشات کی بناءپر پابند بھی کرتا ہے کہ اس متعلق کوئی بھی معلومات باہر نہ جا سکے تاکہ کسی بھی غلط رونما ہونے والے واقعہ سے بچا جا سکے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کے مختلف سرکٹ ہاﺅسس کا جلاﺅ گھیراﺅ کیا گیا تھا مگر سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد کو یہ شرف حاصل ہے کہ نا اس بلڈنگ کا کوئی شیشہ ٹوٹا اور نہ کوئی ٹائر اور پیٹرول پمپ اس کی نظر کیا گیا۔ سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد کو کسی طریقے کا جانی و مالی نقصان نہیں پہنچا یا گیاتھا ۔

ہر دورہ حکومت میں سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد میں منسٹروں کی آمد کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے،وزیراعظم پاکستان نواز شریف اپنی پچھلی حکومت میں سرکٹ ہاﺅس حیدرآباد تشریف لائے تھے اور ۲۰۱۴ میں قائم علی شاہ کی آمد واقع ہوئی تھی۔حیدرآباد صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے چناچہ یہاں قومی، صوبائی اور وفاقی حکومت کے ممبران کی آمد کا سلسہ زیادہ وقت تھمتا نہیں دکھتا۔ 

Saturday, 23 January 2016

بڑے شہر اور ڈاکٹرز مافیا

سمعیہ کنول    
رول نمبر 95

بڑے شہر اور ڈاکٹرز مافیا
بچپن سے ایک مشہور محاورہ سنتے آئے ہیں کہ نیم حکیم خطرہ ِ جان ہوتا ہے، مگر اس     محاورے  کی سمجھ ہم کو ابھی جا کرہوئی ہے کہ صرف نیم حکیم ہی خطرہِ جان نہیں ہوتا بلکہ ایسے حکیم ڈاکٹر زبھی خطرہ ِ جان ہوتے ہیں جو کہ انسانیت پردولت کو اس قدر فوقیت دیتے ہیں کہ بعض اوقات انسانیت و ہمدردی کا جذبہ بھی شرم سار ہو نے لگتا ہے

ڈاکٹر کا پیشہ ہمدردی ،دوستی اور انسانیت پرور ہونا چاہیے نہ کہ دولت و شہرت کی سیڑھی پر چڑھنے کے لیے غریب کے گلے کو دبا کر ۔۔۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی بد قسمتی جو دیکھنے میں آتی ہے اول تو وہ یہ ہے کہ زیادہ تر ہمارے ڈاکٹر صاحبان اپنی سرکاری ڈیوٹی پر پہنچ سکیں یا کہ نہ ۔۔۔مگر یہ ہی ڈاکٹر ز صاحبان اپنے اپنے مارکیٹ ، پلازے اور شاپنگ مال ٹائپ ، نالوں کے اوپر بنے کلینکوں پر لازمی و ٹائم پر پہنچنے کو ترجیح ضرور دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں زیادہ سے زیادہ مریضوں کو جلد از جلد چیک کر کے زیادہ سے زیادہ فیس بٹوری جائے اور اوپر لیبارٹری کے ٹیسٹ اورمیڈیکل سٹورز پر اپنے کمیشن کو ترجیح دیتے ہوئے مہنگی سے مہنگی دوائی لکھتے ہیں، جو کہ مریض کو دوائی کا طالب ہونے کے بجائے دعا کاطالب بنانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ 

ہمارے ہاں ڈاکٹر ز بھی معافیا گروپ کی صورت دھار چکے ہیں جو ایسا  معافیا ہے کہ جن کے خلاف کوئی جلد از جلد نہ تو آواز اُٹھاتا ہے اور نہ ہی ان کے اوپر کوئی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے، جس کو چاہیں ، جیسے چاہیں ، جسطرح چاہیں کاٹ کر دوبارہ سی سکتے ہیں، کسی کی جیب اور کسی کا جسم کاٹنے کے یہ ماہر چند ڈاکٹرز انسانیت کی بھی قدر نہیں کرتے۔

اکثر مریض تو ایسے ہوتے ہیں جن کو مرض کچھ بھی نہیں ہوتی مگر ڈاکٹرز صاحبان کی مہربانیوں کی وجہ سے انکا جسم متعدد بیماریوں کی آماج گاہ بن چکا ہوتا ہے۔ ادھر ایک مزے کی بات کہ ہمارے ہاں تو آجکل میڈیکل سٹورز کے کمپوڈرز بھی آدھے ڈاکٹر بن گئے ہیں، کئی علاقوں میں تو ان میڈیکل سٹورز پر رش زیادہ ہوتی ہے، اور بعض علاقوں میں سرکاری ہسپتالوں میں صرف پوسٹ مارٹم ہی ہو سکتا ہے علاج نامی کچھ نہیں۔۔۔۔؟ 

یہ بات یہاں پر ہی اگر اکتفا کرے تو انسان کچھ صبر کا دامن تھامے رکھے مگرنہیں، سرکاری ہسپتالوں کا جو دیگر سپورٹر عملہ بھرتی ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو کسی صدر سے کم نہیں سمجھتے اور ان کا رویہ اس قدر تند و تیز ہوتا ہے کہ عام و مہذب انسان سرکاری ہسپتال کو جانا بھی پسند نہیں کرتا۔ 

ہمارے ہاں کچھ ایسی لیبارٹریز بھی موجود ہیں جن کے ٹیسٹ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں ، ایک ہی انسان کا ایک ہی ٹیسٹ دو مختلف لیبارٹریز میں آنے والی مختلف رپورٹس اور فیسوں کے تضاد کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے،اور ہمارے ڈاکٹرز صاحبان بھی مریض کے مرض کی تشخیص کیے بغیر ہی ہائی ڈوز دوائی تجویز کر دیتے ہیں جو مریض کو افاقہ تو نہیں دے سکتی ہاں البتہ مریض کی جیب اور جان دونوں پر بوجھ ضرورپڑتی ہے۔

انتہائی شرمندگی کا مقام تو ہمارے لیے اس وقت ہو جاتا ہے جب گائناگالوجسٹ ڈاکٹرز صاحبان   کے بے شمار کھلے پرائیوٹ کلینک اور ہسپتالوں میں بے چاری عورت کی تذلیل کی جاتی ہے ، اور عین الوقت مریض کو در بدر کی ٹھوکروں پر بے یار و مدد گا ر چھوڑ کر اپنے آپ کو سبگدوش سمجھ لیتے ہیں۔ 

نارمل کیس ہوتا بھی ہو تو کچھ ڈاکٹرز صاحبان اتنا سنجیدہ و نازک بنا کر پیش کرتے ہیں کہ لواحقین مریض کی جان کی پنا ہ مانگتے ہیں اور اکثر تو فیس کی پریشانی  میں اس قدر گم ہو جاتے ہیں کہ مریض کی پرواہ ہی نہیں رہتی، 

اگر وہ ہی سرکاری ہسپتال  میں ہو توخون کے بندوبست کی پریشانی آ ہ ٹپکتی ہے، ہم کیا کریں اتنے ظالم اور بے حس  لوگ ہو گئے ہیں کہ ہم کو کسی کے دکھ درد کی سمجھ تو ہوتی نہیں اور اوپر سے ایسے مریضوں کو دیکھ کر ہماری امید کی کرن جاگ جاتی ہے کہ اب ہمارے پاس لکشمی آنے والی ہے یہ نہیں کہ
   مریض کی جا ن کوجلد از جلد اور کم سے کم خرچہ میں اور چھوٹے سے چھوٹے آپریشن کے ساتھ ٹھیک  کرلیا جائے
ڈاکٹرز صاحبان اپنے پرائیوٹ کلینک ایسی ایسی جگہ پر کھول رکھے ہیں کہ انسانی عقل دھنگ رہ جاتی ہے اور ان کی صفائی اور ستھرائی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ جس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے یہ کسی سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر صاحب کا کلینک ہوگا، اوپر سے ان کی فیس اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ انسان نہ بھاگنے کے قابل رہتا ہے اور نہ ہی بتانے کے۔ 

سرکاری ہسپتالوں کی تو یہ حالت زار ہے کہ ان کو دیکھ کر کلیجہ منہ میں آتا ہے ، کچھ بڑے شہروں کی سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں تو  اونٹ کے منہ میں زیرہ برابر کچھ علاج تو ضرور ہے مگر دیگر میں تو ایک سرنج تک آپ کو میسرنہیں ہو تی تو باقی کسی بھی قسم کی سہولت کی توقع رکھنا تو اپنے آپ 
کو خود دھوکا دینے کے مترادف ہے۔

ہا ں ایک بات اگر آپ کی اثر و رسوخ کے حامل ہیں تو پھر آپ کے مزے ہیں ورنہ رسوائی کے ساتھ ساتھ گندے باتھ روم ، بینچ و بیڈ کی کھٹمل ،راہ داریوں میں جگہ جگہ نسوار کے دھبے اور سگریٹ کے فلٹرز کے ساتھ سپرٹ کی بدبو آپکا مقدر ہیں۔



                                   

Wednesday, 20 January 2016

career counselor Faiz Alam Interview

Revised version
سمعیہ کنول,
رول نمبر ۵۹
سمعیہ کنول
فائز عالم ۲ اگست ۴۹۹۱ کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلےم کمپنئن گرامر ہائی اسکول سے حاصل کی،اس کے بعدآپ نے کالج میں داخلہ لیااور وہاںسے تقاریری مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔اپنی کامےابیوں کے مراحل طے کرتے رہے آج آپ پاکستان لیول چیمپئن مزا حیہ مقرر ،استاد، Gems 3D (Oraganization of youth)
کےC.O.O ، SPELT (Society Of Pakistan English Language Teacher) کے مےمبراور کیریئر کاﺅنسلربھی ہیں۔


سوال: اپنے طالبعلمی کے دور سے ہی اپنے کام کا آغاز کیسے ممکن بناےا؟
جواب: کام کے لحاظ سے چونکہ میں استاد ہوں اور طالبعلم ہونے کی وجہ سے میرا مشاہدہ کافی تیز ہے،طالبعلمی کے دور میں جن مشکلات کا سامنا مجھے تھا انہی مشکلات سے  دوسرے طالبعلم بھی دو چار ہیں تو میں نے اپنی اور انکی مدد کرنے کا سوچا،پیشہ کے لحاظ سے میں پبلک اسپیکر،کیرئیر کاﺅنسلر اور استاد ہوںاس طرح ان تمام چیزوں کا تعلق سکھانے سے ہے۔مجھے سکھانے کا شوق اچھے استادوں کی بدولت نہیں بلکہ ایسے اساتذہ کی وجہ سے ہے ہواجو اپنی زمہ داریاں نہیں سمجھ پا رہے ہوتے،میں نے انہیں دیکھ کے دل میں عہد کیاکہ میں بھی انگلش پرھاﺅںگا لیکن ایسی نہیں پڑھاﺅنگا ۔اس طرح میں نے سیکھنے کے ساتھ ساتھ سکھانے کا عمل شروع کردےااور طالبعلمی کے دور میں ہی کام کا آغازکردیا۔

سوال: پاکستان لیول چیمپئن کا اعزازحاصل کرنے میں کس قسم کی دشواریاںپیش آئیں؟
جواب: مجھے جو اعزاز حاصل ہے وہ مزاحیہ مقرر ہونے کی بدولت ملا، دو مرتبہ مجھے پاکستان لیول چیمپئن ہونے کا اعزاز ملامگر اس سے پہلے جودشواریاں پیش آئیںان میں سب سے بڑی دشواری یہ ہوئی کہ ےہ کیسے پہچانا جائے کہ میں کیا بہتر کرسکتا ہوں ،میں آپکو بتاتا چلوں کہ میں پہلے سنجیدہ مقررتھا،جس میں مجھے انعامات تو ملے مگر میں وہ رنگ نہیں جما پاےا اور ایک بار تو ایک واقعہ ایسا ہواجس میں ایک صاحب نے مجھے خوب تنقید کا نشانہ بناےاجس کی وجہ سے میں یہ فیصلہ کرنے پر آمادہ ہوگےا کہ آج کے بعد میں تقاریر نہیں کرونگاپھر میرے ایک استاد ہیں وقار احمدوقارانہوں نے مجھے دلاسہ تو نہیں دےا مگر ہاںیہ ضرور کہا کہ آج کے بعد تم سنجیدہ تقریر کے بجائے مزاحیہ تقریر کروگے،اس کے بعد میں نے مزاحیہ تقریر کی اور پھر کرتے چلے گئے،آج جو ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں ۔اس کے بعد تو کچھ خاص دشواریاں نہیں ہوئیں ۔

سوال: آپ استاد بھی ہیں اور شاگرد بھی،آج کے وقت میں ایک پڑھا لکھا اور با صلاحیت معاشرہ کیسے تشکیل دےا جا سکتا ہے؟
جواب: آج کے معاشرے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ پڑھے لکھے اور با صلاحیت ہونے میںفرق نہیں کر پا رہے ہوتے،ہمارے ےہاں پڑھا لکھااسے سمجھا جاتا ہے جسکے گریڈز اچھے ہوںےا پھر اس کے پاس تمغات ہوں ےا میڈلز ہوںےا دیوار پر ڈگری لٹکی ہوئی ہو،جب کہ میں ےہ سمجھتا ہوں کہ پڑھا لکھا وہ ہے جو اپنے علم کا صحیح استعمال کرتا ہواور باصلاحیت ہونے سے مراد ےہ ہے کہ جو تعلیم وہ حاصل کر رہااس کا پرکٹیکل ضرور ہو،مگر ہمارے معاشرے میں آج کل ڈگریاں تو مل رہی ہے مگر صلاحیتیںنہیں پیدا ہو پارہیں اور اسکی سب سے بڑی وجہ اگر دیکھی جائے تو یونیورسٹی میں موجود ہے، ہمارے یہاں کسی بھی ڈپارٹمنٹ میں اس حد تک پریکٹکل نہیں کروائے جا رہے جو آج کے وقت کامطالبہ ہے خواہ اس میں کوئی بھی ڈپارٹمنٹ ہو۔کمی ہے تو پرکٹکل کی ہے اگر علم کے ساتھ عمل بھی ہوتا جاتاہے تو ایک پڑھا لکھا اور با صلاحیت معاشرہ خود بنتا جاتا ہے۔

سوال : بہ یک وقت استاد،شاگرد اور آرگنائیزیشن کے C.O.Oمشکل نہیںہوتی؟
جواب: بہت دلچسپ سوال ہے۔بہ یک وقت استاد اور شاگرد ہونے میں بلکل پریشانی نہیں ہوتی ہے کیونکہ ایک اچھا استاد ایک اچھا شاگرد بھی ہوتا ہے اور اچھا بولنے کے لئیے اچھا سننا بھی پڑتا ہے اسلئیے ہر استاد کو ہمیشہ شاگرد بھی رہنا چاہئے رہی باتC.O.O ہونے کی تو ایک بار میرے استاد نے مجھے ایک لیکچر میںبتاےا تھا کہ نیوٹن کے پاس،آئینٹائین کے پاس اور بڑے انسان کے پاس وہی ۴۲گھنٹے تھے جو ہمارے پاس ہوتے ہیںبس فرق یہ ہوتا ہے کہ ہم میں سے کون انہیں کس طرح استعمال کرتا ہے! اسکے ساتھ مجھے میرے استاد کی اےک بات بہت محرک رکھتی تھی جب جب میں انھیں کہتا تھا سر وقت نہیں ہے وہ کہتے تھے تم مجھ سے زیادہ مصروف ہو تو میں خود ہی سوچتا تھانہیںتواس طرح میں وقت کا صحیح استعمال کرتا گےا اور مشکلات ختم ہوتی گئیں۔

سوال: کیرئیر کاﺅنسلر ہونے کی حیثیت سے آپ کیا سمجھتے ہیں آج کل طالبعلموں کو کاﺅنسلنگ کی کس حد تک ضرورت ہے؟
جواب: ہمارا حال موجودہ دور میں بھی کچھ یوں ہے کہ جب بچہ انٹر کے بعد اپنی فیلڈ کا انتخاب کرنے لگتا تو اسے بہت سے کاﺅنسلرز مل جاتے ہیں چچا،تاےا،ماموںاور ابو کی صورت میں جو جس فیلڈ میں ہوتا ہے اسی کے مشورے دیتا ہے۔جب کہ جوکاﺅنسلر ہوتے ہیں وہ اس بات کہ مد نظر رکھتے ہیں کہ وہ بچہ کیا بہترین کر سکتا ہے جو سب سے زیادہ اہم بات ہے۔ہمارے یہاں انٹر کرنے والے بچوں میںسے۰۸ سے ۰۹فیصدبچوںکو بس ۳ہی فیلڈز کی آگاہی ہوتی ہے میڈیکل، انجینئرنگ ےا پھر MBA اسکے علاوہ کوئی فیلڈہے بھی یہ پتہ ہی نہیں ہے۔اس لحاظ سے کاﺅنسلنگ بہت بہت ضروری ہے بجائے اسکے کہ بچے کو تاےا ےا چاچا سے مشورہ دلواےا جائے اسے ایک کاﺅنسلر کے پاس لے کہ جاےا جائے۔

سوال: SPELTکامیمبرہونے لے لحاظ سے آپ جگہ جگہ انگلش لینگوچ انسٹیٹیوٹس کو صحیح سمجھتے ہیں؟
جواب: ان تمام انسٹیٹیوٹس کو تو صحیح سمجھتا ہوں مگر ان میں پڑھائے جانے والے طریقوں کونہیں سمجھتا،کیونکہ وہاں موجود استادوں کی کوالیفکیشن اتنی ہوتی ہے کہ ایک سینٹر سے کورس کیا دوسرے میں پڑھانا شروع کردیا جبکہ انگلش پڑھانے کی کچھ کوالیفکیشن ہوتی ہے کم از کم اسے ٹرینڈ ہونا چاہئے جو کہ ےہ لوگ نہیں ہوتے ، آج تک علی آم کھاتا ہے اور علی پتنگ اڑاتاہے۔انہیں نئی تکنیکوں کا پتہ ہی نہیں ہے کہ کس طرح بچوں کو پڑھانا ہے انگلش لینگویچ کبھی بھی بولے بغےرصرف جملے لکھنے سے نہیں آتی۔ انسٹیٹیوٹس کھلیں مزید کھلیں مگر ان میں صحیح طریقے سے ٹرینڈ اساتذہ کی نگرانی میںانہیں تعلیم دی جائے۔

سوال: آنے والے وقت کے لئے کےا عزائم رکھتے ہیں؟
جواب: GEMS 3Dکے ساتھ اسکے وژن پر چلتے ہوئے میں کام کرونگا، آنے والے مستقبل میںبھی ہم مختلف سیمینار کروانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہمیشہ سے رہی ہے کہ ہم سوسائیٹی کی بہتری کے لئے کام کرتے رہیں اسکے علاوہ آنے والے وقت میں یونیورسٹی میں لیکچراربننے کا عزم کیا ہے۔

سوال: حال کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل میں پاکستان کی نوجوان نسل کو کہاں دیکھتے ہیں؟
جواب: اگر اس بات کا جواب میں یہ سوچتے ہوئے دوںکہ میں بھی نوجوان ہوںتو میں مستقبل کے لئے بہت عزائم رکھتا ہوںاسی طرح دوسرے نوجوان بھی رکھتے ہونگے اور نوجوان ہر وہ شخص ہے جو عقلی طور پر جوان ہے۔ شیخ سعدی کا قول ہے:
        ©        جو عقل میں بڑا ہے وہ عمر میںبڑا ہے
 آگے کے لئے میں اس نوجوان نسل سے بہت امیدیں رکھتا ہوں کیونکہ آج کے نوجوانوں میں جستجو ہے،حوصلہ ہے،ہمت ہے خود کو منوانے کی خواہش ہے اور مجھے ےقین ہے کہ ایسا ہوگا۔

سوال: گمنامی سے نامی گرامی ہونے میں آپ کے انداز زندگی میں کس حد تک تبدیلیاں آئیں؟
جواب: جب بندہ گمنام ہوتا ہے نہ تو وہ جیسے چاہے زندگی گزار سکتا ہے۔آپ اگر ایک بار پبلک ہوجاتے ہیں توپھر آپ مستقل طور پر پبلک کے ہوجاتے ہیں اس لحاظ سے تھوڑا محطاط رہ کر چلنا پڑتا ہے کیونکہ جب آپ اسٹیج پر ہوتے ہیں تو لوگ آپکو مثالی بنا لیتے ہیں اور اگر آپ انکی امیدوں پر پورا نہیں اترتے تو ان کے احساسات مجروح ہوسکتے ہیں اسلئے تھوڑا احطیات سے چلنا پڑتا ہے۔

سوال: آخر میں نوجوانوں کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔
جواب: جو میرا پیغام ہے وہ ہر نوجوان کے دل کی آواز ہے اور وہ ہے آگے بڑھتے رہنا ہر حال میں ہرحالت میں۔ ایک قول ہے:
             خواب وہ نہیں ہوتے جو ہمیں نیند میںآتے ہیں بلکہ خواب وہ ہوتے ہیں جو ہمیں سونے نہیں دیتے
اسلئے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آگے حائل ہوتی تمام رکاوٹوںکو آسانی سے پار کرتے جائیں اور آگے بڑھتے جائیں۔


Seems ok. There are some spelling mistakes. wil give detailed feedback once i go thru it
سمعےہ کنول

رول نمبر ۵۹
کریئر کونسلر فائز عالم سے انٹرویو
فائز عالم ۲ اگست ۴۹۹۱ کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلےم کمپنئن گرامر ہائی اسکول سے حاصل کی،اس کے بعدآپ نے کالج میں داخلہ لیااور وہاںسے تقاریری مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔اپنی کامےابیوں کے مراحل طے کرتے رہے آج آپ پاکستان لیول چیمپئن مزا حیہ مقرر ،استاد، Gems 3D (Oraganization of youth)
کےC.O.O ، SPELT (Society Of Pakistan English Language Teacher) کے مےمبراور کیریئر کاﺅنسلربھی ہیں۔


سوال: اپنے طالبعلمی کے دور سے ہی اپنے کام کا آغاز کیسے ممکن بناےا؟
جواب: کام کے لحاظ سے چونکہ میں استاد ہوں اور طالبعلم ہونے کی وجہ سے میرا مشاہدہ کافی تیز ہے،طالبعلمی کے دور میں جن مشکلات کا سامنا مجھے تھا انہی مشکلات سے دوسرے طالبعلم بھی دو چار ہیں تو میں نے اپنی اور انکی مدد کرنے کا سوچا،پیشہ کے لحاظ سے میں پبلک اسپیکر،کیرئیر کاﺅنسلر اور استاد ہوںاس طرح ان تمام چیزوں کا تعلق سکھانے سے ہے۔مجھے سکھانے کا شوق اچھے استادوں کی بدولت نہیں بلکہ ایسے اساتذہ کی وجہ سے ہے ہواجو اپنی زمہ داریاں نہیں سمجھ پا رہے ہوتے،میں نے انہیں دیکھ کے دل میں عہد کیاکہ میں بھی انگلش پرھاﺅںگا لیکن ایسی نہیں پڑھاﺅنگا ۔اس طرح میں نے سیکھنے کے ساتھ ساتھ سکھانے کا عمل شروع کردےااور طالبعلمی کے دور میں ہی کام کا آغازکردیا۔

سوال: پاکستان لیول چیمپئن کا اعزازحاصل کرنے میں کس قسم کی دشواریاںپیش آئیں؟
جواب: مجھے جو اعزاز حاصل ہے وہ مزاحیہ مقرر ہونے کی بدولت ملا، دو مرتبہ مجھے پاکستان لیول چیمپئن ہونے کا اعزاز ملامگر اس سے پہلے جودشواریاں پیش آئیںان میں سب سے بڑی دشواری یہ ہوئی کہ ےہ کیسے پہچانا جائے کہ میں کیا بہتر کرسکتا ہوں ،میں آپکو بتاتا چلوں کہ میں پہلے سنجیدہ مقررتھا،جس میں مجھے انعامات تو ملے مگر میں وہ رنگ نہیں جما پاےا اور ایک بار تو ایک واقعہ ایسا ہواجس میں ایک صاحب نے مجھے خوب تنقید کا نشانہ بناےاجس کی وجہ سے میں یہ فیصلہ کرنے پر آمادہ ہوگےا کہ آج کے بعد میں تقاریر نہیں کرونگاپھر میرے ایک استاد ہیں وقار احمدوقارانہوں نے مجھے دلاسہ تو نہیں دےا مگر ہاںیہ ضرور کہا کہ آج کے بعد تم سنجیدہ تقریر کے بجائے مزاحیہ تقریر کروگے،اس کے بعد میں نے مزاحیہ تقریر کی اور پھر کرتے چلے گئے،آج جو ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں ۔اس کے بعد تو کچھ خاص دشواریاں نہیں ہوئیں ۔

سوال: آپ استاد بھی ہیں اور شاگرد بھی،آج کے وقت میں ایک پڑھا لکھا اور با صلاحیت معاشرہ کیسے تشکیل دےا جا سکتا ہے؟
جواب: آج کے معاشرے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ پڑھے لکھے اور با صلاحیت ہونے میںفرق نہیں کر پا رہے ہوتے،ہمارے ےہاں پڑھا لکھااسے سمجھا جاتا ہے جسکے گریڈز اچھے ہوںےا پھر اس کے پاس تمغات ہوں ےا میڈلز ہوںےا دیوار پر ڈگری لٹکی ہوئی ہو،جب کہ میں ےہ سمجھتا ہوں کہ پڑھا لکھا وہ ہے جو اپنے علم کا صحیح استعمال کرتا ہواور باصلاحیت ہونے سے مراد ےہ ہے کہ جو تعلیم وہ حاصل کر رہااس کا پرکٹیکل ضرور ہو،مگر ہمارے معاشرے میں آج کل ڈگریاں تو مل رہی ہے مگر صلاحیتیںنہیں پیدا ہو پارہیں اور اسکی سب سے بڑی وجہ اگر دیکھی جائے تو یونیورسٹی میں موجود ہے، ہمارے یہاں کسی بھی ڈپارٹمنٹ میں اس حد تک پریکٹکل نہیں کروائے جا رہے جو آج کے وقت کامطالبہ ہے خواہ اس میں کوئی بھی ڈپارٹمنٹ ہو۔کمی ہے تو پرکٹکل کی ہے اگر علم کے ساتھ عمل بھی ہوتا جاتاہے تو ایک پڑھا لکھا اور با صلاحیت معاشرہ خود بنتا جاتا ہے۔

سوال : بہ یک وقت استاد،شاگرد اور آرگنائیزیشن کے C.O.Oمشکل نہیںہوتی؟
جواب: بہت دلچسپ سوال ہے۔بہ یک وقت استاد اور شاگرد ہونے میں بلکل پریشانی نہیں ہوتی ہے کیونکہ ایک اچھا استاد ایک اچھا شاگرد بھی ہوتا ہے اور اچھا بولنے کے لئیے اچھا سننا بھی پڑتا ہے اسلئیے ہر استاد کو ہمیشہ شاگرد بھی رہنا چاہئے رہی باتC.O.O ہونے کی تو ایک بار میرے استاد نے مجھے ایک لیکچر میںبتاےا تھا کہ نیوٹن کے پاس،آئینٹائین کے پاس اور بڑے انسان کے پاس وہی ۴۲گھنٹے تھے جو ہمارے پاس ہوتے ہیںبس فرق یہ ہوتا ہے کہ ہم میں سے کون انہیں کس طرح استعمال کرتا ہے! اسکے ساتھ مجھے میرے استاد کی اےک بات بہت محرک رکھتی تھی جب جب میں انھیں کہتا تھا سر وقت نہیں ہے وہ کہتے تھے تم مجھ سے زیادہ مصروف ہو تو میں خود ہی سوچتا تھانہیںتواس طرح میں وقت کا صحیح استعمال کرتا گےا اور مشکلات ختم ہوتی گئیں۔

سوال: کیرئیر کاﺅنسلر ہونے کی حیثیت سے آپ کیا سمجھتے ہیں آج کل طالبعلموں کو کاﺅنسلنگ کی کس حد تک ضرورت ہے؟
جواب: ہمارا حال موجودہ دور میں بھی کچھ یوں ہے کہ جب بچہ انٹر کے بعد اپنی فیلڈ کا انتخاب کرنے لگتا تو اسے بہت سے کاﺅنسلرز مل جاتے ہیں چچا،تاےا،ماموںاور ابو کی صورت میں جو جس فیلڈ میں ہوتا ہے اسی کے مشورے دیتا ہے۔جب کہ جوکاﺅنسلر ہوتے ہیں وہ اس بات کہ مد نظر رکھتے ہیں کہ وہ بچہ کیا بہترین کر سکتا ہے جو سب سے زیادہ اہم بات ہے۔ہمارے یہاں انٹر کرنے والے بچوں میںسے۰۸ سے ۰۹فیصدبچوںکو بس ۳ہی فیلڈز کی آگاہی ہوتی ہے میڈیکل، انجینئرنگ ےا پھر MBA اسکے علاوہ کوئی فیلڈہے بھی یہ پتہ ہی نہیں ہے۔اس لحاظ سے کاﺅنسلنگ بہت بہت ضروری ہے بجائے اسکے کہ بچے کو تاےا ےا چاچا سے مشورہ دلواےا جائے اسے ایک کاﺅنسلر کے پاس لے کہ جاےا جائے۔

سوال: SPELTکامیمبرہونے لے لحاظ سے آپ جگہ جگہ انگلش لینگوچ انسٹیٹیوٹس کو صحیح سمجھتے ہیں؟
جواب: ان تمام انسٹیٹیوٹس کو تو صحیح سمجھتا ہوں مگر ان میں پڑھائے جانے والے طریقوں کونہیں سمجھتا،کیونکہ وہاں موجود استادوں کی کوالیفکیشن اتنی ہوتی ہے کہ ایک سینٹر سے کورس کیا دوسرے میں پڑھانا شروع کردیا جبکہ انگلش پڑھانے کی کچھ کوالیفکیشن ہوتی ہے کم از کم اسے ٹرینڈ ہونا چاہئے جو کہ ےہ لوگ نہیں ہوتے ، آج تک علی آم کھاتا ہے اور علی پتنگ اڑاتاہے۔انہیں نئی تکنیکوں کا پتہ ہی نہیں ہے کہ کس طرح بچوں کو پڑھانا ہے انگلش لینگویچ کبھی بھی بولے بغےرصرف جملے لکھنے سے نہیں آتی۔ انسٹیٹیوٹس کھلیں مزید کھلیں مگر ان میں صحیح طریقے سے ٹرینڈ اساتذہ کی نگرانی میںانہیں تعلیم دی جائے۔

سوال: آنے والے وقت کے لئے کےا عزائم رکھتے ہیں؟
جواب: GEMS 3Dکے ساتھ اسکے وژن پر چلتے ہوئے میں کام کرونگا، آنے والے مستقبل میںبھی ہم مختلف سیمینار کروانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہمیشہ سے رہی ہے کہ ہم سوسائیٹی کی بہتری کے لئے کام کرتے رہیں اسکے علاوہ آنے والے وقت میں یونیورسٹی میں لیکچراربننے کا عزم کیا ہے۔

سوال: حال کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل میں پاکستان کی نوجوان نسل کو کہاں دیکھتے ہیں؟
جواب: اگر اس بات کا جواب میں یہ سوچتے ہوئے دوںکہ میں بھی نوجوان ہوںتو میں مستقبل کے لئے بہت عزائم رکھتا ہوںاسی طرح دوسرے نوجوان بھی رکھتے ہونگے اور نوجوان ہر وہ شخص ہے جو عقلی طور پر جوان ہے۔ شیخ سعدی کا قول ہے:
        ©        جو عقل میں بڑا ہے وہ عمر میںبڑا ہے
 آگے کے لئے میں اس نوجوان نسل سے بہت امیدیں رکھتا ہوں کیونکہ آج کے نوجوانوں میں جستجو ہے،حوصلہ ہے،ہمت ہے خود کو منوانے کی خواہش ہے اور مجھے ےقین ہے کہ ایسا ہوگا۔

سوال: گمنامی سے نامی گرامی ہونے میں آپ کے انداز زندگی میں کس حد تک تبدیلیاں آئیں؟
جواب: جب بندہ گمنام ہوتا ہے نہ تو وہ جیسے چاہے زندگی گزار سکتا ہے۔آپ اگر ایک بار پبلک ہوجاتے ہیں توپھر آپ مستقل طور پر پبلک کے ہوجاتے ہیں اس لحاظ سے تھوڑا محطاط رہ کر چلنا پڑتا ہے کیونکہ جب آپ اسٹیج پر ہوتے ہیں تو لوگ آپکو مثالی بنا لیتے ہیں اور اگر آپ انکی امیدوں پر پورا نہیں اترتے تو ان کے احساسات مجروح ہوسکتے ہیں اسلئے تھوڑا احطیات سے چلنا پڑتا ہے۔

سوال: آخر میں نوجوانوں کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔
جواب: جو میرا پیغام ہے وہ ہر نوجوان کے دل کی آواز ہے اور وہ ہے آگے بڑھتے رہنا ہر حال میں ہرحالت میں۔ ایک قول ہے:
   خواب وہ نہیں ہوتے جو ہمیں نیند میںآتے ہیں بلکہ خواب وہ ہوتے ہیں جو ہمیں سونے نہیں دیتے
اسلئے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آگے حائل ہوتی تمام رکاوٹوںکو آسانی سے پار کرتے جائیں اور آگے بڑھتے جائیں۔

Profile of Aneela Sohail

سمیہ کنول 
رول نمبر 95
انیلا سہیل
انیلا سہیل لاہور کا وہ  جانا پہچانا نام ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں , انیلا اپنی صلاحیتوں کا لوہا اپنے شہر میں منوانے
کے بعد  ملک کے مختلف شہروں میں بھی نام حاصل کرتی چلی جارہی ہیں .
انیلا سہیل کا تعلق  ریاضی کے  شعبے سے ہے مگر انکے  کام کا تعلق پچھلے سات سال سے آرٹ اینڈ کرافٹ سے ہے. کم عمری سے ہی انیلا نے اپنے اندر کی ان صلاحیتوں کو اجاگر کرنا شروع کردیا تھا وہ اپنے ہاتھ سے بنی ہوئی اشیا اپنے دوستوں,عزیز و اقارب اور استادوں کو تحفے کی طور پر دیا کرتی تھیں. اپنی ایک استاد جو انیلا کے کام سے بہت متاثر تھیں انکے مشورے پر عمل کرتے ہوے انیلا نے آ ن لائن بزنس شروع کیا جس میں وہ اپنی ہاتھ سے بنی اشیا اپنے شہر میں فروخت کیا کر نے لگی تھیں جس کی بدولت لوگوں سے انیلا کو بہت پزیرائی ملی.مگر  ان کے عزیز  و اقارب اور قریب کے رشتوں سے انہیں وہ حمایت نہیں ملی جس  کی وہ حقدار تھیں . مگر اس سب سے انیلا کے حوصلے کبهی نہیں ٹوٹے بہت تلخ رویوں کو بھی برداشت کیا اور ناراضگیاں بھی جھیلیں اگر انکا قصور نکلتا تھا تو محض اتنا کہ وہ صنف نازک تھیں لیکن انیلا کے ارادے پتھر کی مانند مضبوط تھے جو انہیں ٹوٹنے نہیں دیتے تھے اور ان تمام لوگوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیتے تھے انکی کوششوں اور محنتوں پر  یقین رکھنے والے انکے والدین ضرور تھے جو ہر موڑ  پر انیلا کے ساتھ انکی ہمت بن کر کھڑے رہے  انیلا نے ان مسلوں سے گھبراۓ بنا اپنے ہنر کا لوہا منوایا . انکی خد اعتمادی اور صلاحیتوں نے آج انھے ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے کہ انکے خلاف بولنے والے لوگوں کے لئے انیلا ایک مثال بن گئی ہیں . وقت کے ساتھ ساتھ انیلا نے اپنے بزنس کو بڑھایا اور آج انیلا پورے ملک م اپنے ہاتھوں کی بنی چیزیں فروخت کر رہی ہیں.
انیلا ان لوگوں میں سے ہیں جو دنیا سے کچھ  لینے کے بجائے  دنیا کو کچھ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اپنے اسی ارادے کو بروے کار  لاتے ہوے انیلا یہ کام لوگوں کو سکھانے میں مصروف رہتی ہیں.  انیلا کی بہت سے شاگرد ایسے ہیں جو انکی طرح  چیزیں بنا کر فروخت کر رہے ہیں. انیلا گرمیوں کی چھٹیوں میں بہت سی آرگنائزیشنز کا حصہ بنتی ہیں اور انکی ورک شاپس میں اپنے ٹیلینٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں انیلا مختلف تقریبات میں تقریبن پورے پاکستان میں اپنی بنائی ہوئی اشیا کی نمائش
کرتی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں میں انکی مقبولیت کافی ہے.
انیلا لاہور کے علاوہ پنجاب کے دوسرے اضلا ع  میں بھی اپنا کام  سکھانے کے لئے کوشاں رہتی ہیں.انیلا جو کچھ  نیا تخلیق کرتی ہیں اسکے طریقے کو چھپانے کے بجاۓ لوگوں میں متعارف کرنے کی کوشش کرتی ہیں انکا ماننا ہے کہ ہر انسان کے اندر ٹیلینٹ موجود ہوتا ہے اگر ضرورت ہوتی ہے تو اسے محض نکھارنے کی. اسی لحاظ سے وہ اپنا مستقبل ایک استاد کی شکل میں دیکھتی ہیں جو لوگوں میں چھپا ٹیلینٹ باہر لا سکیں اور اسی  کام  کے لئے وہ ہر وقت کوشاں رہتی ہیں .
انیلا کے دوست احباب کا کہنا ہے کہ انیلا ان لوگوں میں سے ہیں جو بہت محنتی اور سادہ زندگی بسر کرتے ہیں انکی شخصیت میں بہترین نکھار انکا اخلاق پیدا کرتا ہے جو ہر شخص انکی طرف مائل ہوتا چلا جاتا ہے .  

Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, Department of Media & Communication Studies, University of Sindh