Revised version
سمعیہ کنول,
رول نمبر ۵۹
سمعیہ کنول
فائز عالم ۲ اگست ۴۹۹۱ کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلےم کمپنئن گرامر ہائی اسکول سے حاصل کی،اس کے بعدآپ نے کالج میں داخلہ لیااور وہاںسے تقاریری مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔اپنی کامےابیوں کے مراحل طے کرتے رہے آج آپ پاکستان لیول چیمپئن مزا حیہ مقرر ،استاد، Gems 3D (Oraganization of youth)
کےC.O.O ، SPELT (Society Of Pakistan English Language Teacher) کے مےمبراور کیریئر کاﺅنسلربھی ہیں۔
سوال: اپنے طالبعلمی کے دور سے ہی اپنے کام کا آغاز کیسے ممکن بناےا؟
جواب: کام کے لحاظ سے چونکہ میں استاد ہوں اور طالبعلم ہونے کی وجہ سے میرا مشاہدہ کافی تیز ہے،طالبعلمی کے دور میں جن مشکلات کا سامنا مجھے تھا انہی مشکلات سے دوسرے طالبعلم بھی دو چار ہیں تو میں نے اپنی اور انکی مدد کرنے کا سوچا،پیشہ کے لحاظ سے میں پبلک اسپیکر،کیرئیر کاﺅنسلر اور استاد ہوںاس طرح ان تمام چیزوں کا تعلق سکھانے سے ہے۔مجھے سکھانے کا شوق اچھے استادوں کی بدولت نہیں بلکہ ایسے اساتذہ کی وجہ سے ہے ہواجو اپنی زمہ داریاں نہیں سمجھ پا رہے ہوتے،میں نے انہیں دیکھ کے دل میں عہد کیاکہ میں بھی انگلش پرھاﺅںگا لیکن ایسی نہیں پڑھاﺅنگا ۔اس طرح میں نے سیکھنے کے ساتھ ساتھ سکھانے کا عمل شروع کردےااور طالبعلمی کے دور میں ہی کام کا آغازکردیا۔
سوال: پاکستان لیول چیمپئن کا اعزازحاصل کرنے میں کس قسم کی دشواریاںپیش آئیں؟
جواب: مجھے جو اعزاز حاصل ہے وہ مزاحیہ مقرر ہونے کی بدولت ملا، دو مرتبہ مجھے پاکستان لیول چیمپئن ہونے کا اعزاز ملامگر اس سے پہلے جودشواریاں پیش آئیںان میں سب سے بڑی دشواری یہ ہوئی کہ ےہ کیسے پہچانا جائے کہ میں کیا بہتر کرسکتا ہوں ،میں آپکو بتاتا چلوں کہ میں پہلے سنجیدہ مقررتھا،جس میں مجھے انعامات تو ملے مگر میں وہ رنگ نہیں جما پاےا اور ایک بار تو ایک واقعہ ایسا ہواجس میں ایک صاحب نے مجھے خوب تنقید کا نشانہ بناےاجس کی وجہ سے میں یہ فیصلہ کرنے پر آمادہ ہوگےا کہ آج کے بعد میں تقاریر نہیں کرونگاپھر میرے ایک استاد ہیں وقار احمدوقارانہوں نے مجھے دلاسہ تو نہیں دےا مگر ہاںیہ ضرور کہا کہ آج کے بعد تم سنجیدہ تقریر کے بجائے مزاحیہ تقریر کروگے،اس کے بعد میں نے مزاحیہ تقریر کی اور پھر کرتے چلے گئے،آج جو ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں ۔اس کے بعد تو کچھ خاص دشواریاں نہیں ہوئیں ۔
سوال: آپ استاد بھی ہیں اور شاگرد بھی،آج کے وقت میں ایک پڑھا لکھا اور با صلاحیت معاشرہ کیسے تشکیل دےا جا سکتا ہے؟
جواب: آج کے معاشرے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ پڑھے لکھے اور با صلاحیت ہونے میںفرق نہیں کر پا رہے ہوتے،ہمارے ےہاں پڑھا لکھااسے سمجھا جاتا ہے جسکے گریڈز اچھے ہوںےا پھر اس کے پاس تمغات ہوں ےا میڈلز ہوںےا دیوار پر ڈگری لٹکی ہوئی ہو،جب کہ میں ےہ سمجھتا ہوں کہ پڑھا لکھا وہ ہے جو اپنے علم کا صحیح استعمال کرتا ہواور باصلاحیت ہونے سے مراد ےہ ہے کہ جو تعلیم وہ حاصل کر رہااس کا پرکٹیکل ضرور ہو،مگر ہمارے معاشرے میں آج کل ڈگریاں تو مل رہی ہے مگر صلاحیتیںنہیں پیدا ہو پارہیں اور اسکی سب سے بڑی وجہ اگر دیکھی جائے تو یونیورسٹی میں موجود ہے، ہمارے یہاں کسی بھی ڈپارٹمنٹ میں اس حد تک پریکٹکل نہیں کروائے جا رہے جو آج کے وقت کامطالبہ ہے خواہ اس میں کوئی بھی ڈپارٹمنٹ ہو۔کمی ہے تو پرکٹکل کی ہے اگر علم کے ساتھ عمل بھی ہوتا جاتاہے تو ایک پڑھا لکھا اور با صلاحیت معاشرہ خود بنتا جاتا ہے۔
سوال : بہ یک وقت استاد،شاگرد اور آرگنائیزیشن کے C.O.Oمشکل نہیںہوتی؟
جواب: بہت دلچسپ سوال ہے۔بہ یک وقت استاد اور شاگرد ہونے میں بلکل پریشانی نہیں ہوتی ہے کیونکہ ایک اچھا استاد ایک اچھا شاگرد بھی ہوتا ہے اور اچھا بولنے کے لئیے اچھا سننا بھی پڑتا ہے اسلئیے ہر استاد کو ہمیشہ شاگرد بھی رہنا چاہئے رہی باتC.O.O ہونے کی تو ایک بار میرے استاد نے مجھے ایک لیکچر میںبتاےا تھا کہ نیوٹن کے پاس،آئینٹائین کے پاس اور بڑے انسان کے پاس وہی ۴۲گھنٹے تھے جو ہمارے پاس ہوتے ہیںبس فرق یہ ہوتا ہے کہ ہم میں سے کون انہیں کس طرح استعمال کرتا ہے! اسکے ساتھ مجھے میرے استاد کی اےک بات بہت محرک رکھتی تھی جب جب میں انھیں کہتا تھا سر وقت نہیں ہے وہ کہتے تھے تم مجھ سے زیادہ مصروف ہو تو میں خود ہی سوچتا تھانہیںتواس طرح میں وقت کا صحیح استعمال کرتا گےا اور مشکلات ختم ہوتی گئیں۔
سوال: کیرئیر کاﺅنسلر ہونے کی حیثیت سے آپ کیا سمجھتے ہیں آج کل طالبعلموں کو کاﺅنسلنگ کی کس حد تک ضرورت ہے؟
جواب: ہمارا حال موجودہ دور میں بھی کچھ یوں ہے کہ جب بچہ انٹر کے بعد اپنی فیلڈ کا انتخاب کرنے لگتا تو اسے بہت سے کاﺅنسلرز مل جاتے ہیں چچا،تاےا،ماموںاور ابو کی صورت میں جو جس فیلڈ میں ہوتا ہے اسی کے مشورے دیتا ہے۔جب کہ جوکاﺅنسلر ہوتے ہیں وہ اس بات کہ مد نظر رکھتے ہیں کہ وہ بچہ کیا بہترین کر سکتا ہے جو سب سے زیادہ اہم بات ہے۔ہمارے یہاں انٹر کرنے والے بچوں میںسے۰۸ سے ۰۹فیصدبچوںکو بس ۳ہی فیلڈز کی آگاہی ہوتی ہے میڈیکل، انجینئرنگ ےا پھر MBA اسکے علاوہ کوئی فیلڈہے بھی یہ پتہ ہی نہیں ہے۔اس لحاظ سے کاﺅنسلنگ بہت بہت ضروری ہے بجائے اسکے کہ بچے کو تاےا ےا چاچا سے مشورہ دلواےا جائے اسے ایک کاﺅنسلر کے پاس لے کہ جاےا جائے۔
سوال: SPELTکامیمبرہونے لے لحاظ سے آپ جگہ جگہ انگلش لینگوچ انسٹیٹیوٹس کو صحیح سمجھتے ہیں؟
جواب: ان تمام انسٹیٹیوٹس کو تو صحیح سمجھتا ہوں مگر ان میں پڑھائے جانے والے طریقوں کونہیں سمجھتا،کیونکہ وہاں موجود استادوں کی کوالیفکیشن اتنی ہوتی ہے کہ ایک سینٹر سے کورس کیا دوسرے میں پڑھانا شروع کردیا جبکہ انگلش پڑھانے کی کچھ کوالیفکیشن ہوتی ہے کم از کم اسے ٹرینڈ ہونا چاہئے جو کہ ےہ لوگ نہیں ہوتے ، آج تک علی آم کھاتا ہے اور علی پتنگ اڑاتاہے۔انہیں نئی تکنیکوں کا پتہ ہی نہیں ہے کہ کس طرح بچوں کو پڑھانا ہے انگلش لینگویچ کبھی بھی بولے بغےرصرف جملے لکھنے سے نہیں آتی۔ انسٹیٹیوٹس کھلیں مزید کھلیں مگر ان میں صحیح طریقے سے ٹرینڈ اساتذہ کی نگرانی میںانہیں تعلیم دی جائے۔
سوال: آنے والے وقت کے لئے کےا عزائم رکھتے ہیں؟
جواب: GEMS 3Dکے ساتھ اسکے وژن پر چلتے ہوئے میں کام کرونگا، آنے والے مستقبل میںبھی ہم مختلف سیمینار کروانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہمیشہ سے رہی ہے کہ ہم سوسائیٹی کی بہتری کے لئے کام کرتے رہیں اسکے علاوہ آنے والے وقت میں یونیورسٹی میں لیکچراربننے کا عزم کیا ہے۔
سوال: حال کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل میں پاکستان کی نوجوان نسل کو کہاں دیکھتے ہیں؟
جواب: اگر اس بات کا جواب میں یہ سوچتے ہوئے دوںکہ میں بھی نوجوان ہوںتو میں مستقبل کے لئے بہت عزائم رکھتا ہوںاسی طرح دوسرے نوجوان بھی رکھتے ہونگے اور نوجوان ہر وہ شخص ہے جو عقلی طور پر جوان ہے۔ شیخ سعدی کا قول ہے:
© جو عقل میں بڑا ہے وہ عمر میںبڑا ہے
آگے کے لئے میں اس نوجوان نسل سے بہت امیدیں رکھتا ہوں کیونکہ آج کے نوجوانوں میں جستجو ہے،حوصلہ ہے،ہمت ہے خود کو منوانے کی خواہش ہے اور مجھے ےقین ہے کہ ایسا ہوگا۔
سوال: گمنامی سے نامی گرامی ہونے میں آپ کے انداز زندگی میں کس حد تک تبدیلیاں آئیں؟
جواب: جب بندہ گمنام ہوتا ہے نہ تو وہ جیسے چاہے زندگی گزار سکتا ہے۔آپ اگر ایک بار پبلک ہوجاتے ہیں توپھر آپ مستقل طور پر پبلک کے ہوجاتے ہیں اس لحاظ سے تھوڑا محطاط رہ کر چلنا پڑتا ہے کیونکہ جب آپ اسٹیج پر ہوتے ہیں تو لوگ آپکو مثالی بنا لیتے ہیں اور اگر آپ انکی امیدوں پر پورا نہیں اترتے تو ان کے احساسات مجروح ہوسکتے ہیں اسلئے تھوڑا احطیات سے چلنا پڑتا ہے۔
سوال: آخر میں نوجوانوں کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔
جواب: جو میرا پیغام ہے وہ ہر نوجوان کے دل کی آواز ہے اور وہ ہے آگے بڑھتے رہنا ہر حال میں ہرحالت میں۔ ایک قول ہے:
خواب وہ نہیں ہوتے جو ہمیں نیند میںآتے ہیں بلکہ خواب وہ ہوتے ہیں جو ہمیں سونے نہیں دیتے
اسلئے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آگے حائل ہوتی تمام رکاوٹوںکو آسانی سے پار کرتے جائیں اور آگے بڑھتے جائیں۔
Seems ok. There are some spelling mistakes. wil give detailed feedback once i go thru it
سمعےہ کنول
سمعیہ کنول,
رول نمبر ۵۹
سمعیہ کنول
فائز عالم ۲ اگست ۴۹۹۱ کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلےم کمپنئن گرامر ہائی اسکول سے حاصل کی،اس کے بعدآپ نے کالج میں داخلہ لیااور وہاںسے تقاریری مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔اپنی کامےابیوں کے مراحل طے کرتے رہے آج آپ پاکستان لیول چیمپئن مزا حیہ مقرر ،استاد، Gems 3D (Oraganization of youth)
کےC.O.O ، SPELT (Society Of Pakistan English Language Teacher) کے مےمبراور کیریئر کاﺅنسلربھی ہیں۔
سوال: اپنے طالبعلمی کے دور سے ہی اپنے کام کا آغاز کیسے ممکن بناےا؟
جواب: کام کے لحاظ سے چونکہ میں استاد ہوں اور طالبعلم ہونے کی وجہ سے میرا مشاہدہ کافی تیز ہے،طالبعلمی کے دور میں جن مشکلات کا سامنا مجھے تھا انہی مشکلات سے دوسرے طالبعلم بھی دو چار ہیں تو میں نے اپنی اور انکی مدد کرنے کا سوچا،پیشہ کے لحاظ سے میں پبلک اسپیکر،کیرئیر کاﺅنسلر اور استاد ہوںاس طرح ان تمام چیزوں کا تعلق سکھانے سے ہے۔مجھے سکھانے کا شوق اچھے استادوں کی بدولت نہیں بلکہ ایسے اساتذہ کی وجہ سے ہے ہواجو اپنی زمہ داریاں نہیں سمجھ پا رہے ہوتے،میں نے انہیں دیکھ کے دل میں عہد کیاکہ میں بھی انگلش پرھاﺅںگا لیکن ایسی نہیں پڑھاﺅنگا ۔اس طرح میں نے سیکھنے کے ساتھ ساتھ سکھانے کا عمل شروع کردےااور طالبعلمی کے دور میں ہی کام کا آغازکردیا۔
سوال: پاکستان لیول چیمپئن کا اعزازحاصل کرنے میں کس قسم کی دشواریاںپیش آئیں؟
جواب: مجھے جو اعزاز حاصل ہے وہ مزاحیہ مقرر ہونے کی بدولت ملا، دو مرتبہ مجھے پاکستان لیول چیمپئن ہونے کا اعزاز ملامگر اس سے پہلے جودشواریاں پیش آئیںان میں سب سے بڑی دشواری یہ ہوئی کہ ےہ کیسے پہچانا جائے کہ میں کیا بہتر کرسکتا ہوں ،میں آپکو بتاتا چلوں کہ میں پہلے سنجیدہ مقررتھا،جس میں مجھے انعامات تو ملے مگر میں وہ رنگ نہیں جما پاےا اور ایک بار تو ایک واقعہ ایسا ہواجس میں ایک صاحب نے مجھے خوب تنقید کا نشانہ بناےاجس کی وجہ سے میں یہ فیصلہ کرنے پر آمادہ ہوگےا کہ آج کے بعد میں تقاریر نہیں کرونگاپھر میرے ایک استاد ہیں وقار احمدوقارانہوں نے مجھے دلاسہ تو نہیں دےا مگر ہاںیہ ضرور کہا کہ آج کے بعد تم سنجیدہ تقریر کے بجائے مزاحیہ تقریر کروگے،اس کے بعد میں نے مزاحیہ تقریر کی اور پھر کرتے چلے گئے،آج جو ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں ۔اس کے بعد تو کچھ خاص دشواریاں نہیں ہوئیں ۔
سوال: آپ استاد بھی ہیں اور شاگرد بھی،آج کے وقت میں ایک پڑھا لکھا اور با صلاحیت معاشرہ کیسے تشکیل دےا جا سکتا ہے؟
جواب: آج کے معاشرے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ پڑھے لکھے اور با صلاحیت ہونے میںفرق نہیں کر پا رہے ہوتے،ہمارے ےہاں پڑھا لکھااسے سمجھا جاتا ہے جسکے گریڈز اچھے ہوںےا پھر اس کے پاس تمغات ہوں ےا میڈلز ہوںےا دیوار پر ڈگری لٹکی ہوئی ہو،جب کہ میں ےہ سمجھتا ہوں کہ پڑھا لکھا وہ ہے جو اپنے علم کا صحیح استعمال کرتا ہواور باصلاحیت ہونے سے مراد ےہ ہے کہ جو تعلیم وہ حاصل کر رہااس کا پرکٹیکل ضرور ہو،مگر ہمارے معاشرے میں آج کل ڈگریاں تو مل رہی ہے مگر صلاحیتیںنہیں پیدا ہو پارہیں اور اسکی سب سے بڑی وجہ اگر دیکھی جائے تو یونیورسٹی میں موجود ہے، ہمارے یہاں کسی بھی ڈپارٹمنٹ میں اس حد تک پریکٹکل نہیں کروائے جا رہے جو آج کے وقت کامطالبہ ہے خواہ اس میں کوئی بھی ڈپارٹمنٹ ہو۔کمی ہے تو پرکٹکل کی ہے اگر علم کے ساتھ عمل بھی ہوتا جاتاہے تو ایک پڑھا لکھا اور با صلاحیت معاشرہ خود بنتا جاتا ہے۔
سوال : بہ یک وقت استاد،شاگرد اور آرگنائیزیشن کے C.O.Oمشکل نہیںہوتی؟
جواب: بہت دلچسپ سوال ہے۔بہ یک وقت استاد اور شاگرد ہونے میں بلکل پریشانی نہیں ہوتی ہے کیونکہ ایک اچھا استاد ایک اچھا شاگرد بھی ہوتا ہے اور اچھا بولنے کے لئیے اچھا سننا بھی پڑتا ہے اسلئیے ہر استاد کو ہمیشہ شاگرد بھی رہنا چاہئے رہی باتC.O.O ہونے کی تو ایک بار میرے استاد نے مجھے ایک لیکچر میںبتاےا تھا کہ نیوٹن کے پاس،آئینٹائین کے پاس اور بڑے انسان کے پاس وہی ۴۲گھنٹے تھے جو ہمارے پاس ہوتے ہیںبس فرق یہ ہوتا ہے کہ ہم میں سے کون انہیں کس طرح استعمال کرتا ہے! اسکے ساتھ مجھے میرے استاد کی اےک بات بہت محرک رکھتی تھی جب جب میں انھیں کہتا تھا سر وقت نہیں ہے وہ کہتے تھے تم مجھ سے زیادہ مصروف ہو تو میں خود ہی سوچتا تھانہیںتواس طرح میں وقت کا صحیح استعمال کرتا گےا اور مشکلات ختم ہوتی گئیں۔
سوال: کیرئیر کاﺅنسلر ہونے کی حیثیت سے آپ کیا سمجھتے ہیں آج کل طالبعلموں کو کاﺅنسلنگ کی کس حد تک ضرورت ہے؟
جواب: ہمارا حال موجودہ دور میں بھی کچھ یوں ہے کہ جب بچہ انٹر کے بعد اپنی فیلڈ کا انتخاب کرنے لگتا تو اسے بہت سے کاﺅنسلرز مل جاتے ہیں چچا،تاےا،ماموںاور ابو کی صورت میں جو جس فیلڈ میں ہوتا ہے اسی کے مشورے دیتا ہے۔جب کہ جوکاﺅنسلر ہوتے ہیں وہ اس بات کہ مد نظر رکھتے ہیں کہ وہ بچہ کیا بہترین کر سکتا ہے جو سب سے زیادہ اہم بات ہے۔ہمارے یہاں انٹر کرنے والے بچوں میںسے۰۸ سے ۰۹فیصدبچوںکو بس ۳ہی فیلڈز کی آگاہی ہوتی ہے میڈیکل، انجینئرنگ ےا پھر MBA اسکے علاوہ کوئی فیلڈہے بھی یہ پتہ ہی نہیں ہے۔اس لحاظ سے کاﺅنسلنگ بہت بہت ضروری ہے بجائے اسکے کہ بچے کو تاےا ےا چاچا سے مشورہ دلواےا جائے اسے ایک کاﺅنسلر کے پاس لے کہ جاےا جائے۔
سوال: SPELTکامیمبرہونے لے لحاظ سے آپ جگہ جگہ انگلش لینگوچ انسٹیٹیوٹس کو صحیح سمجھتے ہیں؟
جواب: ان تمام انسٹیٹیوٹس کو تو صحیح سمجھتا ہوں مگر ان میں پڑھائے جانے والے طریقوں کونہیں سمجھتا،کیونکہ وہاں موجود استادوں کی کوالیفکیشن اتنی ہوتی ہے کہ ایک سینٹر سے کورس کیا دوسرے میں پڑھانا شروع کردیا جبکہ انگلش پڑھانے کی کچھ کوالیفکیشن ہوتی ہے کم از کم اسے ٹرینڈ ہونا چاہئے جو کہ ےہ لوگ نہیں ہوتے ، آج تک علی آم کھاتا ہے اور علی پتنگ اڑاتاہے۔انہیں نئی تکنیکوں کا پتہ ہی نہیں ہے کہ کس طرح بچوں کو پڑھانا ہے انگلش لینگویچ کبھی بھی بولے بغےرصرف جملے لکھنے سے نہیں آتی۔ انسٹیٹیوٹس کھلیں مزید کھلیں مگر ان میں صحیح طریقے سے ٹرینڈ اساتذہ کی نگرانی میںانہیں تعلیم دی جائے۔
سوال: آنے والے وقت کے لئے کےا عزائم رکھتے ہیں؟
جواب: GEMS 3Dکے ساتھ اسکے وژن پر چلتے ہوئے میں کام کرونگا، آنے والے مستقبل میںبھی ہم مختلف سیمینار کروانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہمیشہ سے رہی ہے کہ ہم سوسائیٹی کی بہتری کے لئے کام کرتے رہیں اسکے علاوہ آنے والے وقت میں یونیورسٹی میں لیکچراربننے کا عزم کیا ہے۔
سوال: حال کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل میں پاکستان کی نوجوان نسل کو کہاں دیکھتے ہیں؟
جواب: اگر اس بات کا جواب میں یہ سوچتے ہوئے دوںکہ میں بھی نوجوان ہوںتو میں مستقبل کے لئے بہت عزائم رکھتا ہوںاسی طرح دوسرے نوجوان بھی رکھتے ہونگے اور نوجوان ہر وہ شخص ہے جو عقلی طور پر جوان ہے۔ شیخ سعدی کا قول ہے:
© جو عقل میں بڑا ہے وہ عمر میںبڑا ہے
آگے کے لئے میں اس نوجوان نسل سے بہت امیدیں رکھتا ہوں کیونکہ آج کے نوجوانوں میں جستجو ہے،حوصلہ ہے،ہمت ہے خود کو منوانے کی خواہش ہے اور مجھے ےقین ہے کہ ایسا ہوگا۔
سوال: گمنامی سے نامی گرامی ہونے میں آپ کے انداز زندگی میں کس حد تک تبدیلیاں آئیں؟
جواب: جب بندہ گمنام ہوتا ہے نہ تو وہ جیسے چاہے زندگی گزار سکتا ہے۔آپ اگر ایک بار پبلک ہوجاتے ہیں توپھر آپ مستقل طور پر پبلک کے ہوجاتے ہیں اس لحاظ سے تھوڑا محطاط رہ کر چلنا پڑتا ہے کیونکہ جب آپ اسٹیج پر ہوتے ہیں تو لوگ آپکو مثالی بنا لیتے ہیں اور اگر آپ انکی امیدوں پر پورا نہیں اترتے تو ان کے احساسات مجروح ہوسکتے ہیں اسلئے تھوڑا احطیات سے چلنا پڑتا ہے۔
سوال: آخر میں نوجوانوں کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔
جواب: جو میرا پیغام ہے وہ ہر نوجوان کے دل کی آواز ہے اور وہ ہے آگے بڑھتے رہنا ہر حال میں ہرحالت میں۔ ایک قول ہے:
خواب وہ نہیں ہوتے جو ہمیں نیند میںآتے ہیں بلکہ خواب وہ ہوتے ہیں جو ہمیں سونے نہیں دیتے
اسلئے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آگے حائل ہوتی تمام رکاوٹوںکو آسانی سے پار کرتے جائیں اور آگے بڑھتے جائیں۔
Seems ok. There are some spelling mistakes. wil give detailed feedback once i go thru it
سمعےہ کنول
رول نمبر ۵۹
کریئر کونسلر فائز عالم سے انٹرویو
فائز عالم ۲ اگست ۴۹۹۱ کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلےم کمپنئن گرامر ہائی اسکول سے حاصل کی،اس کے بعدآپ نے کالج میں داخلہ لیااور وہاںسے تقاریری مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔اپنی کامےابیوں کے مراحل طے کرتے رہے آج آپ پاکستان لیول چیمپئن مزا حیہ مقرر ،استاد، Gems 3D (Oraganization of youth)
کےC.O.O ، SPELT (Society Of Pakistan English Language Teacher) کے مےمبراور کیریئر کاﺅنسلربھی ہیں۔
سوال: اپنے طالبعلمی کے دور سے ہی اپنے کام کا آغاز کیسے ممکن بناےا؟
جواب: کام کے لحاظ سے چونکہ میں استاد ہوں اور طالبعلم ہونے کی وجہ سے میرا مشاہدہ کافی تیز ہے،طالبعلمی کے دور میں جن مشکلات کا سامنا مجھے تھا انہی مشکلات سے دوسرے طالبعلم بھی دو چار ہیں تو میں نے اپنی اور انکی مدد کرنے کا سوچا،پیشہ کے لحاظ سے میں پبلک اسپیکر،کیرئیر کاﺅنسلر اور استاد ہوںاس طرح ان تمام چیزوں کا تعلق سکھانے سے ہے۔مجھے سکھانے کا شوق اچھے استادوں کی بدولت نہیں بلکہ ایسے اساتذہ کی وجہ سے ہے ہواجو اپنی زمہ داریاں نہیں سمجھ پا رہے ہوتے،میں نے انہیں دیکھ کے دل میں عہد کیاکہ میں بھی انگلش پرھاﺅںگا لیکن ایسی نہیں پڑھاﺅنگا ۔اس طرح میں نے سیکھنے کے ساتھ ساتھ سکھانے کا عمل شروع کردےااور طالبعلمی کے دور میں ہی کام کا آغازکردیا۔
سوال: پاکستان لیول چیمپئن کا اعزازحاصل کرنے میں کس قسم کی دشواریاںپیش آئیں؟
جواب: مجھے جو اعزاز حاصل ہے وہ مزاحیہ مقرر ہونے کی بدولت ملا، دو مرتبہ مجھے پاکستان لیول چیمپئن ہونے کا اعزاز ملامگر اس سے پہلے جودشواریاں پیش آئیںان میں سب سے بڑی دشواری یہ ہوئی کہ ےہ کیسے پہچانا جائے کہ میں کیا بہتر کرسکتا ہوں ،میں آپکو بتاتا چلوں کہ میں پہلے سنجیدہ مقررتھا،جس میں مجھے انعامات تو ملے مگر میں وہ رنگ نہیں جما پاےا اور ایک بار تو ایک واقعہ ایسا ہواجس میں ایک صاحب نے مجھے خوب تنقید کا نشانہ بناےاجس کی وجہ سے میں یہ فیصلہ کرنے پر آمادہ ہوگےا کہ آج کے بعد میں تقاریر نہیں کرونگاپھر میرے ایک استاد ہیں وقار احمدوقارانہوں نے مجھے دلاسہ تو نہیں دےا مگر ہاںیہ ضرور کہا کہ آج کے بعد تم سنجیدہ تقریر کے بجائے مزاحیہ تقریر کروگے،اس کے بعد میں نے مزاحیہ تقریر کی اور پھر کرتے چلے گئے،آج جو ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں ۔اس کے بعد تو کچھ خاص دشواریاں نہیں ہوئیں ۔
سوال: آپ استاد بھی ہیں اور شاگرد بھی،آج کے وقت میں ایک پڑھا لکھا اور با صلاحیت معاشرہ کیسے تشکیل دےا جا سکتا ہے؟
جواب: آج کے معاشرے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ پڑھے لکھے اور با صلاحیت ہونے میںفرق نہیں کر پا رہے ہوتے،ہمارے ےہاں پڑھا لکھااسے سمجھا جاتا ہے جسکے گریڈز اچھے ہوںےا پھر اس کے پاس تمغات ہوں ےا میڈلز ہوںےا دیوار پر ڈگری لٹکی ہوئی ہو،جب کہ میں ےہ سمجھتا ہوں کہ پڑھا لکھا وہ ہے جو اپنے علم کا صحیح استعمال کرتا ہواور باصلاحیت ہونے سے مراد ےہ ہے کہ جو تعلیم وہ حاصل کر رہااس کا پرکٹیکل ضرور ہو،مگر ہمارے معاشرے میں آج کل ڈگریاں تو مل رہی ہے مگر صلاحیتیںنہیں پیدا ہو پارہیں اور اسکی سب سے بڑی وجہ اگر دیکھی جائے تو یونیورسٹی میں موجود ہے، ہمارے یہاں کسی بھی ڈپارٹمنٹ میں اس حد تک پریکٹکل نہیں کروائے جا رہے جو آج کے وقت کامطالبہ ہے خواہ اس میں کوئی بھی ڈپارٹمنٹ ہو۔کمی ہے تو پرکٹکل کی ہے اگر علم کے ساتھ عمل بھی ہوتا جاتاہے تو ایک پڑھا لکھا اور با صلاحیت معاشرہ خود بنتا جاتا ہے۔
سوال : بہ یک وقت استاد،شاگرد اور آرگنائیزیشن کے C.O.Oمشکل نہیںہوتی؟
جواب: بہت دلچسپ سوال ہے۔بہ یک وقت استاد اور شاگرد ہونے میں بلکل پریشانی نہیں ہوتی ہے کیونکہ ایک اچھا استاد ایک اچھا شاگرد بھی ہوتا ہے اور اچھا بولنے کے لئیے اچھا سننا بھی پڑتا ہے اسلئیے ہر استاد کو ہمیشہ شاگرد بھی رہنا چاہئے رہی باتC.O.O ہونے کی تو ایک بار میرے استاد نے مجھے ایک لیکچر میںبتاےا تھا کہ نیوٹن کے پاس،آئینٹائین کے پاس اور بڑے انسان کے پاس وہی ۴۲گھنٹے تھے جو ہمارے پاس ہوتے ہیںبس فرق یہ ہوتا ہے کہ ہم میں سے کون انہیں کس طرح استعمال کرتا ہے! اسکے ساتھ مجھے میرے استاد کی اےک بات بہت محرک رکھتی تھی جب جب میں انھیں کہتا تھا سر وقت نہیں ہے وہ کہتے تھے تم مجھ سے زیادہ مصروف ہو تو میں خود ہی سوچتا تھانہیںتواس طرح میں وقت کا صحیح استعمال کرتا گےا اور مشکلات ختم ہوتی گئیں۔
سوال: کیرئیر کاﺅنسلر ہونے کی حیثیت سے آپ کیا سمجھتے ہیں آج کل طالبعلموں کو کاﺅنسلنگ کی کس حد تک ضرورت ہے؟
جواب: ہمارا حال موجودہ دور میں بھی کچھ یوں ہے کہ جب بچہ انٹر کے بعد اپنی فیلڈ کا انتخاب کرنے لگتا تو اسے بہت سے کاﺅنسلرز مل جاتے ہیں چچا،تاےا،ماموںاور ابو کی صورت میں جو جس فیلڈ میں ہوتا ہے اسی کے مشورے دیتا ہے۔جب کہ جوکاﺅنسلر ہوتے ہیں وہ اس بات کہ مد نظر رکھتے ہیں کہ وہ بچہ کیا بہترین کر سکتا ہے جو سب سے زیادہ اہم بات ہے۔ہمارے یہاں انٹر کرنے والے بچوں میںسے۰۸ سے ۰۹فیصدبچوںکو بس ۳ہی فیلڈز کی آگاہی ہوتی ہے میڈیکل، انجینئرنگ ےا پھر MBA اسکے علاوہ کوئی فیلڈہے بھی یہ پتہ ہی نہیں ہے۔اس لحاظ سے کاﺅنسلنگ بہت بہت ضروری ہے بجائے اسکے کہ بچے کو تاےا ےا چاچا سے مشورہ دلواےا جائے اسے ایک کاﺅنسلر کے پاس لے کہ جاےا جائے۔
سوال: SPELTکامیمبرہونے لے لحاظ سے آپ جگہ جگہ انگلش لینگوچ انسٹیٹیوٹس کو صحیح سمجھتے ہیں؟
جواب: ان تمام انسٹیٹیوٹس کو تو صحیح سمجھتا ہوں مگر ان میں پڑھائے جانے والے طریقوں کونہیں سمجھتا،کیونکہ وہاں موجود استادوں کی کوالیفکیشن اتنی ہوتی ہے کہ ایک سینٹر سے کورس کیا دوسرے میں پڑھانا شروع کردیا جبکہ انگلش پڑھانے کی کچھ کوالیفکیشن ہوتی ہے کم از کم اسے ٹرینڈ ہونا چاہئے جو کہ ےہ لوگ نہیں ہوتے ، آج تک علی آم کھاتا ہے اور علی پتنگ اڑاتاہے۔انہیں نئی تکنیکوں کا پتہ ہی نہیں ہے کہ کس طرح بچوں کو پڑھانا ہے انگلش لینگویچ کبھی بھی بولے بغےرصرف جملے لکھنے سے نہیں آتی۔ انسٹیٹیوٹس کھلیں مزید کھلیں مگر ان میں صحیح طریقے سے ٹرینڈ اساتذہ کی نگرانی میںانہیں تعلیم دی جائے۔
سوال: آنے والے وقت کے لئے کےا عزائم رکھتے ہیں؟
جواب: GEMS 3Dکے ساتھ اسکے وژن پر چلتے ہوئے میں کام کرونگا، آنے والے مستقبل میںبھی ہم مختلف سیمینار کروانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہمیشہ سے رہی ہے کہ ہم سوسائیٹی کی بہتری کے لئے کام کرتے رہیں اسکے علاوہ آنے والے وقت میں یونیورسٹی میں لیکچراربننے کا عزم کیا ہے۔
سوال: حال کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل میں پاکستان کی نوجوان نسل کو کہاں دیکھتے ہیں؟
جواب: اگر اس بات کا جواب میں یہ سوچتے ہوئے دوںکہ میں بھی نوجوان ہوںتو میں مستقبل کے لئے بہت عزائم رکھتا ہوںاسی طرح دوسرے نوجوان بھی رکھتے ہونگے اور نوجوان ہر وہ شخص ہے جو عقلی طور پر جوان ہے۔ شیخ سعدی کا قول ہے:
© جو عقل میں بڑا ہے وہ عمر میںبڑا ہے
آگے کے لئے میں اس نوجوان نسل سے بہت امیدیں رکھتا ہوں کیونکہ آج کے نوجوانوں میں جستجو ہے،حوصلہ ہے،ہمت ہے خود کو منوانے کی خواہش ہے اور مجھے ےقین ہے کہ ایسا ہوگا۔
سوال: گمنامی سے نامی گرامی ہونے میں آپ کے انداز زندگی میں کس حد تک تبدیلیاں آئیں؟
جواب: جب بندہ گمنام ہوتا ہے نہ تو وہ جیسے چاہے زندگی گزار سکتا ہے۔آپ اگر ایک بار پبلک ہوجاتے ہیں توپھر آپ مستقل طور پر پبلک کے ہوجاتے ہیں اس لحاظ سے تھوڑا محطاط رہ کر چلنا پڑتا ہے کیونکہ جب آپ اسٹیج پر ہوتے ہیں تو لوگ آپکو مثالی بنا لیتے ہیں اور اگر آپ انکی امیدوں پر پورا نہیں اترتے تو ان کے احساسات مجروح ہوسکتے ہیں اسلئے تھوڑا احطیات سے چلنا پڑتا ہے۔
سوال: آخر میں نوجوانوں کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔
جواب: جو میرا پیغام ہے وہ ہر نوجوان کے دل کی آواز ہے اور وہ ہے آگے بڑھتے رہنا ہر حال میں ہرحالت میں۔ ایک قول ہے:
خواب وہ نہیں ہوتے جو ہمیں نیند میںآتے ہیں بلکہ خواب وہ ہوتے ہیں جو ہمیں سونے نہیں دیتے
اسلئے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آگے حائل ہوتی تمام رکاوٹوںکو آسانی سے پار کرتے جائیں اور آگے بڑھتے جائیں۔
No comments:
Post a Comment