Showing posts with label رافع. Show all posts
Showing posts with label رافع. Show all posts

Monday, 1 February 2016

آصف میمن (Interview) Referred back

very poor, no depth in questions as well as in answers.

نام: محمد رافع خان
رول نمبر: 2k14/MC/140
کلاس: BS III

آصف میمن (مسل مینیا)

آصف میمن ۱۵ دسمبر ۱۹۷۰ ؁ میں شہر حیدرآباد میں پیدا ہوے۔انہوں نے ایم اے سٹی کالج حیدرآباد سے کیا ۔ انہوں نے حیدرآباد میں پہلی بار ایک بڑے پیمانے پر جم کھولا جو کہ کامیاب ثابت ہوا ور آج تک اس جیسا حیدرآباد میں جم کوئی نہیں ہے اس جم کا نام مسل مینیا ہے۔

سوال: آپ نے پہلا جم کب کھولا اور کس مقصد سے کھولا؟
جواب: میں نے پہلا جم ۲۰۰۶ میں مسل مینیا کے نام سے کھولا۔ جم کاروبار کے لیے کھولا گیا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ جم میں آ کر اپنے آپ کو فٹ رکھ سکیں۔

سوال:آپ نے جم کھولنے کا ہی انتخاب کیوں کیا ۔کس چیز سے متاثر ہو کہ جم کھولا؟
جواب: میں ایک نیا کاروبار چاہتا تھا جوآنے والے وقتوں میں لوگوں کی ضرورت ہو۔لوگوں میں جم کا بڑھتا ہوا رجحان دکھائی دیا اس بات سے متاثر ہو کہ جم کھولنے کا فیصلہ کیا۔

سوال:حیدرآباد میں جم کھولنے کا مشوراہ کس نے دیا؟
جواب: دوست یاروں اور والد کے مشورے سے جم حیدرآباد میں کھولا۔

سوال: وہ کون سی ورزش ہے سب سے زیادہ فائدے مند ہے؟
جواب: وزن کم کرنے کی ورزش سب سے زیادہ فائدے مند ہے کیوں کہ موٹاپا ایک بیماری ہے۔

سوال: مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین میں بھی جم کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟
جواب: مردوں کی دیکھا دیکھی خواتین میں بھی یہ شوق با خوبی بڑھ رہا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خواتین اپنے آپ کو فٹ رکھنے کے لیے اور اپنے حُسن میں اضافے کے لیے جم کا رخ کر رہی ہیں۔

سوال: حیدرآباد میں آپ کے جم جیسی مثال نہیں ملتی ، جم کھولنے کا خیال کیسے آیا؟
جواب: میں خود ہی باڈی بلڈر رہ چکا ہوں ہرباڈی بلڈر کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا اپنا جم ہو۔ میں نے حیدرآباد میں اچھے پیمانے پر جم کھولا جس میں ورزش کے لیے جدید مشینں موجود ہیں اسی لیے بے مثال ہے۔

سوال: آپ نے اپنا پیسہ اس کاروبار میں ہی کیوں لگایا؟
جواب: میں نے اپنے شوق کو کاروبار میں تبدیل کیا ،اپنا پیسہ اس میں لگایا جو کہ آج بہت فائدے مند ثابت ہوا۔

سوال: آپ اس شعبے مین کتنے عرصے سے ہیں؟
جواب: میں اس شعبے میں ۸ سال سے ہوں۔

سوال:آپ کے استاد کا نام جنہوں نے آپ کو ٹرینگ دینا سکھائی؟
جواب: میرے استاد کا نام محمد وہاب ہے،جن کی وجہ سے آج اس مقام پر ہوں۔

سوال: کیا سوچ کر آپ نے جم کو اچھے درجے پر کھولا جبکہ آپ ایک عام جم بھی کھول سکتے تھے؟
جواب: حیدرآباد میں کوئی ایسا جم موجود نہ تھا جو اچھے درجے پر ہو،اسی لیے میں نے ایک اچھے درجے پر جم کھولا تاکہ لوگوں میں دلچسپی اور بڑھ جاے ۔

سوال: آپ کو اس کاروبار کا مستقبل نظر آتا ہے؟
جواب: جی ہاں مجھے اس کاروبار کا بہتر مستقبل نظر آتا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مرد وں ساتھ ساتھ خواتین میں بھی جم جوائن کرنے کا بڑہتا ہوا رجحان دکھائی دیتا ہے۔

محمد رافع خان -- پروفائل

Referred back
پروفائل
 Intro should be interesting? what is unique? Photo also required.This is biography not profile


نام: محمد رافع خان
رول نمبر: 2k14/MC/140
کلاس: BS III
                             محمد رضا قریشی (باڈی بلڈر)    

محمد رضا قریشی ۷ جون ۱۹۸۵ ؁ کو شہر حیدرآباد میں پیدا ہوے۔ جہاں بچپن میں بچوں میں کھیلنے کودنے کا شوق پایا جاتا ہے وہیں ان کا شوق اس کے برعکس دکھائی دیا۔ نہ انھیں پتنگ بازی کا شوق تھا ،نہ گلّی ڈندے سے محبت، نہ کبڈی کے دیوانے تھے، نہ کرکٹ بھاتی تھی،نہ کنچے کھیلا کرتے تھے،نہ فٹبال میں دلچسپی تھی۔ ہاں مگر کھانے پینے کے خاصہ شوقین تھے جس کی وجہ سے یہ بچپن میں ہی موٹاپے کا شکار ہو گے۔



طرح طرح کے کھانے کھانا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا، باہر کے کھانے کو زیادہ ترجیح دیتے تھے جس کی وجہ سے موٹاپا دن بہ دن بڑھتا چلا گیا اور ان کی پریشانی کو بھی بڑھاتا چلا گیا۔ نہ تو یہ عام بچوں کی طرح دوڑ لگا سکتے تھے اور نا ہی ان کی طرح کھیل کود سکتے تھے، بے حد سُستی کا شکار ہو گے تھے۔


پڑھائی کا بھی خاصہ شوق نہیں تھا، فلموں کے شوقین تھے۔ بچپن میں اسکول سے غیر حاضر ہو کر فلم دیکھنے نکل جایا کرتے، جس کے نتیجے میں انہیں اپنے والد کی مار سہنی پڑھتی۔ بچپن گزرنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی کا رہا سہا شوق بھی جتم ہو گیا۔


محمد رضا قریشی نے ۲۰۰۷ ؁ میں سٹی کالج سے انڑر کیا۔ موٹاپے کے باعس ۱۵ سال کی عمر میں ان کا وزن ۷۰ کلو تک پہنچ گیا تھا۔ موٹاپے سے تنگ آ کر انہوں نے ٹھان لی کہ موٹاپے کے جاتمے کے لیے یہ کچھ بھی کر جائنگے۔ موٹاپے سے چھٹکارا پانے کے لیے انہوں نے جم کا رخ کیا۔ آہستہ آہستہ ان میں بہتری دکھائی دینے لگی۔


جم کو انہوں نے اپنا شوق مقصد بنا لیا ۔ وقت کا خاصہ حصہ جم میں اپنے استاد کی نگرانی میں گزار دیا کرتے۔ موٹاپے کے خاتمے کے لیے خراک میں کئی کئی دن تک روٹی نہیں کھاتے اُبلے ہوے چاول پر گزارہ کرتے۔ انہوں نے ٹھان لی کہ موٹاپے کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے باڈی بلڈر بھی بن کر رھینگے اب یہی ان کا مقصد بن چکا تھا۔



اس شعبے میں انہوں نے دل و جان سے محنت کی، اپنے آپ پر کافی محنت کی۔ آخر کار کافی مشکلات کا سامنہ کرنے کے بعد وہ ددن آ ہی گیا اور ان کا مقصد پورا ہوا۔۲۰۰۶ ؁ میں ڈسڑرک حیدرآباد باڈی بلڈر کا خطاب ان کے نام ہوا۔ اس خطاب کے ملنے کے بعد باڈی بلڈنگ کو انہوں نے روزی روٹی کا ذریعہ بنا لیا اور آج یے مسل مینیا جم میں بطور ٹرینر اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔


محمد رضا قریشی ایک اچھے ٹرینر ہیں، اپنے شاگردوں کے ساتھ مل جُل کر رہتے ہیں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ اگر وہ چاہتے تو وہ پڑھائی لکھائی میں اپنی توجہ صرف کر دیتے اورڈاکٹر یا انجینئر بن جاتے ، مگر انہوں نے ایسا نہ کیا ڈاکٹر یا انجینئر کے شعبے کو اپنانے کے بجاے انہوں نے باڈے بلڈنگ کو اپنایا اور ایک اچھے باڈی بلڈر بن کر سامنے آے۔


وہ اس لیے کیوں کے موٹاپے کے خاتمے کے لیے جن مشکلات ،جن پریشانیوں سے گزرے ہیں اور اپنے موٹاپے کو شکست دی ہے،یہ اور لوگوں کو بھی جو موٹاپے کا شکار ہیں ان تمام مصیبتوں سے نکالیں اور انہیں اس مشکل سے نکالنے کے لیے بھی مددکریں، کیوں کے موٹاپا ایک بیماری ہے اور یہ ایسے لوگوں کے کام آئیں جو موٹاپے سے پریشان ہیں۔


محمد رضا صادہ لباس استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھی ان کی باتوں میں مزاح بھی پایا جاتا ہے۔ان میں غروروتکبّر نامی کوئی چیز نہیں ہے۔ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک اچھے باڈی بلڈر اور ایک اچھے ٹرینر میں موجود ہونی چاہیں۔

Saturday, 30 January 2016

Trend of beautification among males by Rafay

Let me know what changes u have made? if some changes why u did not changed
the file name?
فیچر
مردوں کا بیو ٹی سلون کی طر ف بڑ ھا تا ہو ا رجحان 
محمد رافع خان

جہاں خواتین کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ اپنے حسن میں اضا فے کے لیے اپنے شو ہر کی تنخواہ کا بیشتر حصہ بیو ٹی پا رلر میں خر چ کر تی ہیں وہیں ہمارے مر د حضرات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ تنخواہ کی کثیر تعداد بیو ٹی سلون پر خر چ کر دیتے ہیں ۔ آخر خوبصورت دکھنے کا ان کو بھی حق ہے ۔ جہاں پہلے مر د صر ف بال کٹوانے کو اپنا حسن سمجھتے تھے ۔ وہاں اب خواتین کی دیکھا دیکھی انہیں یہ بہت کم لگنے لگا ہے ۔ اسی لیئے ہمارے نو جوان کیا بزر گ بھی اکثر سلون پر دکھائی دیتے ہیں ۔ 

  مر دوں نے سو چا کہ اگر خواتین بیو ٹی پارلر جا کر خو د پر چار چاند لگوا سکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں۔مرد حضرات بیوٹی سلون جا کر اپنے حُسن میں اضافہ کرتے ہیں جہاں صر ف بال کی کٹنگ ہی نہیں بلکے فیشل ، تھریڈنگ، ویکس،اور نہ جا نے کس کس قسم کے تجر بے اپنے آپ پر کر تے ہیں۔اسمارٹ ان بےوٹی سلون کے مالک عادل علی کا کہنا ہے کہ حیدرآباد میں بیوٹی سلون کا سلسلہ ۰۸۹۱میں شروع ہوا پہلا بیوٹی سلون گاڑی کھاتہ میں شمع سلون کہ نام سے کھولا گےا۔ کہتے ہیں کہ ہر شعبے میں خواتین مر د سے کم نہیں مگر یہ کہا جائے تو بہتر ہے کہ ہمارے مر د خواتین سے کسی طرح کم نہیں۔

 حیدرآباد میں اس وقت ۰۵ سے زیادہ بیوٹی سلون ہیں۔ اگر شا دی بیاہ کی بات کی جائے تو شا دی سے کا فی عرصے پہلے ہی دلہا کے بیو ٹی سلون کے چکر شروع ہو جا تے ہیں اور شا دی کے دن ان کا نقشہ ہی بدل دیاجاتاہے ۔ جہاں پر بیو ٹی سلون پر بڑھا تا ہوا رش نظر آ تا ہے وہاں پر حجام کی دکانیں اس کے بر عکس دیکھائی دیتی ہیں اور ان میں تعداد ان لوگوں کی ہو تی ہیں جو مہنگائی کی وجہ سے بیو ٹی سلون کا رخ نہیں کر پا تے ۔ 

گلوبل بیوٹی سلون کے حجام محمد نوید کا یہ کہنا ہے کہ مردوں میں بیوٹی سلون کی طرف بڑہتی ہوئی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ یے بھی ہے کہ فلمی اداکاروں کو دیکھ کر مرد حضرات کہ دل میں یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ وہ بھی اُن کی طرح دکھائی دیں ۔محمد نوید کے مطابق مرد حضرات کاپہلے سے زیادہ بیوٹی سلون کا رخ کرنے کی وجہ ماحول میں تبدیلی بھی ہے پہلے سڑکوں پر نا تو اتنا زیادہ ٹریفک ہوتا تھا اور نا ہی ٹریفک کی وجہ سے دھول مٹی، مگر اب بڑہتے ہوے ٹریفک کی وجہ سے ماحول میں دھول اور مٹی بھی بڑھ گئی ہے جس سے زیادہ تر نقصان موٹر سائکل سوار کو ہوتا ہے۔ دھول اور مٹی ان کے چہرے اور بالوں کو نقصان دیتی ہے جس کی وجہ سے بال روکھے اور بےجان ہوجاتے ہیں اور چہرے کی سطح بھی خراب ہو جاتی ہے۔ بالوں کی رونق واپس حاصل کرنے کے لیے مرد حضرات بالوں میں پروٹین کا استعمال کرتے ہیں اور چہرے پر فیشل کرواتے ہیں۔

  ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کہ مقابلے حیدرآباد میں اس درجے کہ بیوٹی سلون نہیں ہیں جس درجے کہ کراچی میں موجود ہیںان کی کوشش ہے کہ بیوٹی سلون کو بہتر سے بہتر بنائیں تاکہ لوگوں میں مضید دلچسپی پیدا ہو۔ عید ہو یا کوئی تہوار مرد حضرات خاص طور پر اپنے حسن میں اضافے کے لیے بیو ٹی سلون کا رخ کر تے ہیں۔ خا ص طور پر عید کے مو قع پر چاند رات پر بیو ٹی سلون میں خا صہ رش دیکھائی دیتا ہے ۔ 

مر د حضرات مہینے میں ایک یا دو مر تبہ بیو ٹی سلون کا رخ ضرور کر تے ہیں ،چا ہے وہ بال کٹوا نے کے غرض سے ہو یا فیشل وغیر ہ کے مقصد سے ۔بیوٹی سلون پر آنے والے مرد حضرات کا کہنا ہے کے جو کام میں صفائی بیوٹی سلون کہ کاریگروں کہ ہاتھ میں ہے وہ کسی عام حجام میں نہیں اور ان کہ یہ بھی کہنا ہے کہ مہینے بھر کی دھول مٹی جو ان کہ چہروں میں اندرونی طور پر جمی ہوتی ہے اس کی صفائی کہ لیے بیوٹی سلون کا رخ کرنا پڑہتا ہے۔

ہر مرد کی خواہش ہو تی ہے کہ وہ ظاہری طور پر بہتر دکھے ۔ اسی وجہ سے مردوں کا بیو ٹی سلون کی طر ف بڑھاتا ہوا رجحان دیکھائی دیتا ہے۔کسی عام حجام سے زیا دہ بیو ٹی سلون کو ترجیح دینے کی وجہ سے یہ بھی ہے کہ بیوٹی سلون کا ما حول کسی عام حجام کی دکان سے زیا دہ بہتر ہو تا ہے ۔ پرُسکون اور آرام دہ ماحول بیو ٹی سلون کی طر ف دلچسپی کو بڑھا تا ہے ۔

 حیدرآبا د کے مشہو ر بیو ٹی سلون لکز،بوڈی فوکس، کلیپر،اسمارٹ ان وغیر ہ ہیں۔ جو کہ اپنی قیمتوں کے ساتھ ساتھ اپنے کام سے بھی مشہور ہیں۔ کسی عام حجام کی دکان پر صفائی کا کوئی خا ص انتظام دیکھائی نہیں دیتا ۔ مگر بیو ٹی سلون کی کہانی اس کے بر عکس ہے۔ 

رول نمبر: 2K14/MC/140
 محمد رافع خان 
کلاس: BS-III 



When it was filed? Was it filed in due date? Feature is always reporting based. Some quotes, comments from related people



رول نمبر: 2K14/MC/140
نام: محمد رافع خان 
کلاس: BS-III 

فیچر
مر دوں کا بیو ٹی سلون کی طر ف بڑ ھتا ہوا رجحان


جہاں خواتین کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ اپنے حسن میں اضا فے کے لیے اپنے شو ہر کی تنخواہ کا بیشتر حصہ بیو ٹی پا رلر میں خر چ کر تی ہیں وہیں ہمارے مر د حضرات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ تنخواہ کی کثیر تعداد بیو ٹی سلون پر خر چ کر دیتے ہیں ۔ آخر خوبصورت دکھنے کا ان کو بھی حق ہے ۔ جہاں پہلے مر د صر ف بال کٹوانے کو اپنا حسن سمجھتے تھے ۔ وہاں اب خواتین کی دیکھا دیکھی انہیں یہ بہت کم لگنے لگا ہے ۔ اسی لیئے ہمارے نو جوان کیا بزر گ بھی اکثر سلون پر دکھائی دیتے ہیں ۔ 

مر دوں نے سو چا کہ اگر خواتین بیو ٹی پارلر جا کر خو د پر چار چاند لگوا سکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں۔مرد حضرات بیوٹی سلون جا کر اپنے حُسن میں اضافہ کرتے ہیں جہاں صر ف بال کی کٹنگ ہی نہیں بلکے فیشل ، تھریڈنگ، ویکس،اور نہ جا نے کس کس قسم کے تجر بے اپنے آپ پر کر تے ہیں۔حیدرآباد میں بیوٹی سلون کا سلسلہ ۱۹۸۰ ؁میں شروع ہوا پہلا بیوٹی سلون گاڑی کھاتہ میں شمع سلون کہ نام سے کھولا گیا۔

کہتے ہیں کہ ہر شعبے میں خواتین مر د سے کم نہیں مگر یہ کہا جائے تو بہتر ہے کہ ہمارے مر د خواتین سے کسی طرح کم نہیں۔ 
حیدرآباد میں اس وقت ۵۰ سے زیادہ بیوٹی سلون ہیں۔ اگر شا دی بیاہ کی بات کی جائے تو شا دی سے کا فی عرصے پہلے ہی دلہا کے بیو ٹی سلون کے چکر شروع ہو جا تے ہیں اور شا دی کے دن ان کا نقشہ ہی بدل دیاجاتاہے ۔

 جہاں پر بیو ٹی سلون پر بڑھا تا ہوا رش نظر آ تا ہے وہاں پر حجام کی دکانیں اس کے بر عکس دیکھائی دیتی ہیں اور ان میں تعداد ان لوگوں کی ہو تی ہیں جو مہنگائی کی وجہ سے بیو ٹی سلون کا رخ نہیں کر پا تے ۔ 
ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کہ مقابلے حیدرآباد میں اس درجے کہ بیوٹس سلون نہیں ہیں جس درجے کہ کراچی میں موجود ہیں ان کی کوشش ہے کہ بیوٹی سلون کو بہتر سے بہتر بنائیں تاکہ لوگوں میں مضید دلشسپی پیدا ہو۔


 عید ہو یا کوئی تہوار مرد حضرات خاص طور پر اپنے حسن میں اضافے کے لیے بیو ٹی سلون کا رخ کر تے ہیں۔ خا ص طور پر عید کے مو قع پر چاند رات پر بیو ٹی سلون میں خا صہ رش دیکھائی دیتا ہے مہینے میں ایک یا دو مر تبہ بیو ٹی سلون کا رخ ضرور کر تے ہیں ۔ چا ہے وہ بال کٹوا نے کے غرض سے ہو یا فیشل وغیر ہ کے مقصد سے ۔بیوٹی سلون پر آنے والے مرد حضرات کا کہنا ہے کے جو کام میں صفائی بیوٹی سلون کہ کاریگروں کہ ہاتھ میں ہے وہ کسی عام حجام میں نہیں اور ان کہ یہ بھی کہنا ہے کہ مہینے بھر کی دھول مٹی جو ان کہ چہروں میں اندرونی طور پر جمی ہوتی ہے اس کی صفائی کہ لیے بیوٹی سلون کا رخ کرنا پڑہتا ہے۔
ہر مر د کی خواہش ہو تی ہے کہ وہ ظاہری طور پر بہتر دکھے ۔



اسی وجہ سے مر دوں کا بیو ٹی سلون کی طر ف بڑھاتا ہوا رجحان دیکھائی دیتا ہے۔کسی عام حجام سے زیا دہ بیو ٹی سلون کو تر جیح دینے کی وجہ سے یہ بھی ہے کہ بیوٹی سلون کا ما حول کسی عام حجام سے زیا دہ بہتر ہو تا ہے ۔ پر سکون اور آرام دہ ماحول بیو ٹی سلون کی طر ف دلچشپی کو بڑ ھا تا ہے ۔


حیدرآبا د کے مشہو ر بیو ٹی سلون لکز،بوڈی فوکس، کلیپروغیر ہ ہیں۔ جو کہ اپنی قیمتوں کے ساتھ ساتھ اپنے کام سے بھی مشہور ہیں۔ کسی عام حجام کی دکان پر صفائی کا کوئی خا ص انتظام دیکھائی نہیں دیتا ۔ مگر بیو ٹی سلون کی کہانی اس کے بر عکس ہے۔ 



Classical romantic stories and today's youth


آرٹیکل

رول نمبر: 2K14/MC/140
نام: محمد رافع خان
کلاس: BS-III 


پرا نے رومانوی قصے اور ان کا آج کے نو جوانوں پر اثر


کہا جا تا ہے کہ اگر آپ اپنے آج میں ہیں تو اپنا کل بھی یا د رکھیں۔ اگر کل آپکا حسین ہے تو اسے ساتھ لے کر چلیں۔ مگر ہماری نو جوان نسل اور کچھ کرے یا نہ کرے پر ا نے محبت بھر ے رومانوی قصے ضرور ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ چا ہے بات ہو ہیر رانجھا کی یا بات کریں شاہجہاں اور ممتاز کی سسی پنو یا شیری فرھاد یا رومیو جو لیرٹ وغیر ہ ۔ ہمارے نو جوان خو د کو ان ہی قصوں کا کر دار سمجھ کر مجنو اور لیلہ بن کر گھوم رہے ہیں۔


 سب سے زیا دہ نقصان اس میں ان کا ہو تا ہے۔ جو واقعی خو د کو اس کر دار میں ڈال کر یہ کر دار خو د پر حا وی کر لیتے ہیں اور خو د کو ان کرداروں سے منسلک کر تے ہیں ۔ یہی نہیں پا گل پن کی انتہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان ناموں سے پکار نے لگتے ہیں۔ اس میں زیا دہ تعداد پڑ ھنے والے لوگوں کی ہو تی ہے جو کہ اسکول کی زندگی سے ہی خو د کو ان کرداروں میں ڈھال لیتے ہیں ۔ اسکول کالج یونیور سٹی کی زندگی تک پہنچنے تک انہوں نے کتنی ہی بار محبت کر لی ہو تی ہے۔

کچھ لو گ خو د پر اس محبت اثر نہیں ڈالتے اور جو لو گ اس میں بری طرح شامل ہو کر اپنے اوپر حاوی کر کے خو د کو ان ہی کرداروں میں سے سمجھنے لگتے ہیں ان کو لگتا ہے کہ ان کا انجام بھی ایسا ہو نا چا ہیے کسی اچھی کھانی کا ہوتا ہے ۔ پہلے تو یہ سب قصے صر ف کتابوں تک محدو د تھے مگر آج کل میڈیا کے ذریعے ان قصوں پر ڈرامے اور فلمیں بنائیں گئیں ہیں۔


جو آج کل بچہ بچہ دیکھ رہا ہے ۔ اور سو چتا ہے کہ ہم مل کر نہیں جی سکتے تو مر جا نا ہی بہتر ہے۔ بے شک یہ قصے جھو ٹے نہیں ہیں ان کی اپنی سچائی ہے مگر یہ اس زما نے کے قصے ہیں جب نفسا نفسی کا دور نہیں تھا۔ جب لو گ سچے تھے دھو کہ دینا ان کی فطر ت میں نہیں تھا۔ مگر آج کل کے نو جوان ان سب باتوں سے بے خبر اپنی ہی دھن میں ہو کر رہ رہے ہیں ۔ جوان کے دل میں آ رہا کر لیتے ہیں۔ ایسے کتنے ہی نو جوان لڑ کے اور لڑکیاں روزانہ بے نام سی محبت کے بھیت چڑ رہے ہو تے ہیں۔ 


ہسپتال میں ایسے کتنے ہی عاشق مر تے ہو ئے دیکھے جا تے ہیں جو صر ف اپنے محبوب کے لیے زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں جن سے صر ف کچھ عر صے کی محبت ہو تی ہے ۔ اور بھول جا تے ہیں کہ اپنے ما ں باپ اور ان کے اپنوں کو جو ان کی زندگی کی دعائیں دن رات مانگتے ہیں ۔

اگر پرا نے قصوں کی بات کر یں اور ان کی تاریخ پڑ ھی جا ئے تو جان لینگے کہ محبتیں شروع کیسے ہوئی اور ان کا انجام کیا تھا ۔ شاہجہاں جس کے لیے ایک بات مشہو ر ہے کہ ان کی محبت کی مشہو ر نشانی تاج محل ایک خوبصورت محل اپنی بیوی کے لیے بنایا ۔ وہ اپنی بیوی سے بہت پیا ر کر تے تھے ان کی بیوی جن کا نام ممتاز تھا ان کے لیے کہا جا تا ہے کہ وہ شاہجہاں کی 14ویں بیوی تھیں۔ ان کے لیے بنا ئے گئے محل کو دیکھ کر شاہجہان نے اپنے مزدوروں کے ہاتھ کٹوا دیئے تاکہ ایسا محل کوئی دوبارہ نہیں بنا سکے۔



یہ کس طرح کی محبت تھی جس میں اپنی خواہشات اور خوشیوں کے لیے دوسروں پر ظلم کیا گیا تھا ۔ ہمارے نوجوانوں کو وہ محبت تو نظر آئی جو انہوں نے اپنی بیوی سے کی مگر وہ ظلم نظر نہیں آ یا جو انہوں نے جنونی پن میں آکر اپنے مزدروں کے ساتھ کیا۔ خیر یہ تو بادشاہ قصہ تھا ۔ اگر شہزادوں کی بات کی جائے تو وہ بھی کم نہیں ۔ شہزادہ سلیم اور انار کلی کے قصے بھی مشہو ر ہیں۔ انار کلی کو محبت کی سزا یہ دی گئی کہ اس کو زندہ دیواروں میں چنوا دیا گیا کیا آیا اس کے حصے میں۔ شہز ا دہ سلیم نے اس کے مر نے کے بعد بھی کا فی عر صہ اسی جگہ حکمرانی کی ۔

آج کے دور میں نہ تو کوئی با دشاہ ہے نہ کوئی شہزا دہ نو جوان خو د کو خو د ہی سزا دے رہے ہیں۔ نہ ان کو اپنے مستقبل کی فکر ہے نہ کل کی پر واہ ۔ ان قصوں کو خو د پر حا وی کر کے بغیر یہ جا نے کہ اس کا انجام کیا ہوا تھا؟ صر ف ان کر داروں کا نام اور تھو ڑی بہت کہانی سن کر وہ تصور کر لیتے ہیں کہ ہم بھی ان ہی کرداروں میں سے ایک ہیں



۔ زندگی کا مقصد صر ف یہی تک ہے اور یہ وہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہمیں بھی ایسے ہی یا د رکھا جائے گااور ہمارے قصوں کو دھرایاجائے گا۔ ہم پیار کی ایک مثال قائم کرینگے اور ہمارے نام کی بھی مثالیں دی جائینگی مگر ما یو سی ان کے ہاتھ کچھ نہیں آ تا ۔ مستقبل الگ تباہ ہو جا تا ہے اورخدا کا دیا خوبصورت تحفہ جسے ہم زندگی کہتے ہیں اسی کی نا شکری کر تے ہیں اور اپنے لیئے مو ت کا سفر تعین کر لیتے ہیں۔



Wednesday, 20 January 2016

Referred back- Males turning to beautification

Referred back. U corrected file name but did not corrected subject line. This should be same
فیچر ہمیشہ رپورٹنگ بیسڈ ہوتا ہے، اس مین بیوٹی پالر جانے والے مرد حضرات، وہان کے کاریگروں اور عمرانیات کے ماہرین کی رائے لازم ہے۔ یہ کب سے شروع ہوا، خاصو طور پر حیدرباد میں، س شہر میں کتنے ایسے پارلر ہیں۔ کوئی ڈیٰٹا؟ 
And also please read it thoroughly  to correct the spelling and language mistakes
فیچر
مر دوں کا بیو ٹی سلون کی طر ف بڑ ھا تا ہو ا رجحان 

محمد رافع خان

جہاں خواتین کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ اپنے حسن میں اضا فے کے لیے اپنے شو ہر کی تنخواہ کا بیشتر
 حصہ بیو ٹی پا رلر میں خر چ کر تی ہیں وہیں ہمارے مر د حضرات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ تنخواہ کی کثیر تعداد بیو ٹی سلون پر خر چ کر دیتے ہیں ۔ آخر خوبصورت دکھنے کا ان کو بھی حق ہے ۔ جہاں پہلے مر د صر ف بال کٹوانے کو اپنا حسن
سمجھتے تھے ۔ وہاں اب خواتین کی دیکھا دیکھی انہیں یہ بہت کم لگنے لگا ہے ۔ اسی لیئے ہمارے نو جوان کیا بزر گ بھی اکثر سلون پر پا ئے جا تے ہیں ۔ 
      مر دوں نے سو چا کہ اگر خواتین پارلر کھول سکتی ہیں اور بیو ٹی پارلر جا کر خو د پر چار چاند لگوا سکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں۔ انہوں نے بھی بیو ٹی پارلر کی جگہ بیو ٹی سلون کو کما نے کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے جہاں صر ف بال کی کٹنگ ہی نہیں بلکے فیشل ، تھریڈنگ، ویکس،اور نہ جا نے کس کس قسم کے تجر بے اپنے آپ پر کر تے ہیں۔ جہاں ہر طر ف بیو ٹی پارلر نظر آ رہے ہو تے ہیں وہاں پر ہر جگہ بیو ٹی سلون دیکھا ئی دیتے ہیں ۔ جن کی تعداد شہر حیدرآبا د میں اتنی بڑھ گئی ہے کہ اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ کہتے ہیں کہ ہر شعبے میں خواتین مر د سے کم نہیں مگر یہ کہا جائے تو بہتر ہے کہ ہمارے مر د خواتین سے کسی طرح کم نہیں۔ 
      خواتین کے پارلر کے چکر ضرور لگتے ہیں مگر ہر طر ف دیکھائی دینے وا لے بیو ٹی سلون کی وجہ سے مر د بھی اسی تعداد میں جا تے ہو ئے نظر آ تے ہیں ۔ اگر شا دی بیاہ کی بات کی جائے تو شا دی سے کا فی عرصے پہلے ہی دلہا کے بیو ٹی سلون کے چکر شروع ہو جا تے ہیں اور شا دی کے دن ان کا نقشہ ہی بدل دیاجاتاہے ۔ جہاں پر بیو ٹی سلون پر بڑھا تا ہوا رش نظر آ تا ہے وہاں پر حجام کی دکانیں اس کے بر عکس دیکھائی دیتی ہیں اور ان میں تعداد ان لوگوں کی ہو تی ہیں جو مہنگائی کی وجہ سے بیو ٹی سلون کا رخ نہیں کر پا تے ۔ 
      عید ہو یا کوئی تہوار مرد حضرات خاص طور پر اپنے حسن میں اضافے کے لیے بیو ٹی سلون کا رخ کر تے ہیں۔ خا ص طور پر عید کے مو قع پر چاند رات پر بیو ٹی سلون میں خا صہ رش دیکھائی دیتا ہے مہینے میں ایک یا دو مر تبہ بیو ٹی سلون کا رخ ضرور کر تے ہیں ۔ چا ہے وہ بال کٹوا نے کے غرض سے ہو یا فیشل وغیر ہ کے غرض سے ہر مر د کی خواہش ہو تی ہے کہ وہ ظاہری طور پر بہتر دکھے ۔ اسی وجہ سے مر دوں کا بیو ٹی سلون کی طر ف بڑھاتا ہوا رجحان دیکھائی دیتا ہے۔کسی عام حجام سے زیا دہ بیو ٹی سلون کو تر جیح دینے کی وجہ سے یہ بھی ہے کہ بیوٹی سلون کا ما حول کسی عام حجام سے زیا دہ بہتر ہو تا ہے ۔ پر سکون اور آرام دہ ماحول بیو ٹی سلون کی طر ف دلچشپی کو بڑ ھا تا ہے ۔
 حیدرآبا د کے مشہو ر بیو ٹی سلون لکز،بوڈی فوکس، کلیپروغیر ہ ہیں۔ جو کہ اپنی قیمتوں کے ساتھ ساتھ اپنے کام سے بھی مشہور ہیں۔ کسی عام حجام کی دکان پر صفائی کا کوئی خا ص انتظام دیکھائی نہیں دیتا ۔ مگر بیو ٹی سلون کی کہانی اس کے بر عکس ہے۔ 

رول نمبر: 2K14/MC/140
نام: محمد رافع خان 
کلاس: BS-III 

Tuesday, 19 January 2016

Revised- Classical love stories and todays youth

Revised version

پرا نے رومانوی قصے اور ان کا آج کے نو جوانوں پر اثر

رول نمبر: 2K14/MC/140
نام: محمد رافع خان 
کلاس: BS-III 

کہا جا تا ہے کہ اگر آپ اپنے آج میں ہیں تو اپنا کل بھی یا د رکھیں۔ اگر کل آپکا حسین ہے تو اسے ساتھ لے کر چلیں۔ مگر ہماری نو جوان نسل اور کچھ کرے یا نہ کرے پر ا نے محبت بھر ے رومانوی قصے ضرور ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ چا ہے بات ہو ہیر رانجھا کی یا بات کریں شاہجہاں اور ممتاز کی سسی پنو یا شیری فرھاد یا رومیو جو لیرٹ وغیر ہ ۔ ہمارے نو جوان خو د کو ان ہی قصوں کا کر دار سمجھ کر مجنو اور لیلہ بن کر گھوم رہے ہیں۔ سب سے زیا دہ نقصان اس میں ان کا ہو تا ہے۔ جو واقعی خو د کو اس کر دار میں ڈال کر یہ کر دار خو د پر حا وی کر لیتے ہیں اور خو د کو ان کرداروں سے منسلک کر تے ہیں ۔ یہی نہیں پا گل پن کی انتہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان ناموں سے پکار نے لگتے ہیں۔ اس میں زیا دہ تعداد پڑ ھنے والے لوگوں کی ہو تی ہے جو کہ اسکول کی زندگی سے ہی خو د کو ان کرداروں میں ڈھال لیتے ہیں ۔ اسکول کالج یونیور سٹی کی زندگی تک پہنچنے تک انہوں نے کتنی ہی بار محبت کر لی ہو تی ہے۔ کچھ لو گ خو د پر اس محبت اثر نہیں ڈالتے اور جو لو گ اس میں بری طرح شامل ہو کر اپنے اوپر حاوی کر کے خو د کو ان ہی کرداروں میں سے سمجھنے لگتے ہیں ان کو لگتا ہے کہ ان کا انجام بھی ایسا ہو نا چا ہیے کسی اچھی کھانی کا ہوتا ہے ۔ پہلے تو یہ سب قصے صر ف کتابوں تک محدو د تھے مگر آج کل میڈیا کے ذریعے ان قصوں پر ڈرامے اور فلمیں بنائیں گئیں ہیں۔ جو آج کل بچہ بچہ دیکھ رہا ہے ۔ اور سو چتا ہے کہ ہم مل کر نہیں جی سکتے تو مر جا نا ہی بہتر ہے۔ بے شک یہ قصے جھو ٹے نہیں ہیں ان کی اپنی سچائی ہے مگر یہ اس زما نے کے قصے ہیں جب نفسا نفسی کا دور نہیں تھا۔ جب لو گ سچے تھے دھو کہ دینا ان کی فطر ت میں نہیں تھا۔ مگر آج کل کے نو جوان ان سب باتوں سے بے خبر اپنی ہی دھن میں ہو کر رہ رہے ہیں ۔ جوان کے دل میں آ رہا کر لیتے ہیں۔ ایسے کتنے ہی نو جوان لڑ کے اور لڑکیاں روزانہ بے نام سی محبت کے بھیت چڑ رہے ہو تے ہیں۔ 
ہسپتال میں ایسے کتنے ہی عاشق مر تے ہو ئے دیکھے جا تے ہیں جو صر ف اپنے محبوب کے لیے زندگی داﺅ پر لگا دیتے ہیں جن سے صر ف کچھ عر صے کی محبت ہو تی ہے ۔ اور بھول جا تے ہیں کہ اپنے ما ں باپ اور ان کے اپنوں کو جو ان کی زندگی کی دعائیں دن رات مانگتے ہیں ۔ 

اگر پرا نے قصوں کی بات کر یں اور ان کی تاریخ پڑ ھی جا ئے تو جان لینگے کہ محبتیں شروع کیسے ہوئی اور ان کا انجام کیا تھا ۔ شاہجہاں جس کے لیے ایک بات مشہو ر ہے کہ ان کی محبت کی مشہو ر نشانی تاج محل ایک خوبصورت محل اپنی بیوی کے لیے بنایا ۔ وہ اپنی بیوی سے بہت پیا ر کر تے تھے ان کی بیوی جن کا نام ممتاز تھا ان کے لیے کہا جا تا ہے کہ وہ شاہجہاں کی 14ویں بیوی تھیں۔ ان کے لیے بنا ئے گئے محل کو دیکھ کر شاہجہان نے اپنے مزدوروں کے ہاتھ کٹوا دیئے تاکہ ایسا محل کوئی دوبارہ نہیں بنا سکے۔ یہ کس طرح کی محبت تھی جس میں اپنی خواہشات اور خوشیوں کے لیے دوسروں پر ظلم کیا گیا تھا ۔ ہمارے نوجوانوں کو وہ محبت تو نظر آئی جو انہوں نے اپنی بیوی سے کی مگر وہ ظلم نظر نہیں آ یا جو انہوں نے جنونی پن میں آکر اپنے مزدروں کے ساتھ کیا۔ خیر یہ تو بادشاہ قصہ تھا ۔ اگر شہزادوں کی بات کی جائے تو وہ بھی کم نہیں ۔ شہزادہ سلیم اور انار کلی کے قصے بھی مشہو ر ہیں۔ انار کلی کو محبت کی سزا یہ دی گئی کہ اس کو زندہ دیواروں میں چنوا دیا گیا کیا آیا اس کے حصے میں۔ شہز ا دہ سلیم نے اس کے مر نے کے بعد بھی کا فی عر صہ اسی جگہ حکمرانی کی ۔ 

آج کے دور میں نہ تو کوئی با دشاہ ہے نہ کوئی شہزا دہ نو جوان خو د کو خو د ہی سزا دے رہے ہیں۔ نہ ان کو اپنے مستقبل کی فکر ہے نہ کل کی پر واہ ۔ ان قصوں کو خو د پر حا وی کر کے بغیر یہ جا نے کہ اس کا انجام کیا ہوا تھا؟ صر ف ان کر داروں کا نام اور تھو ڑی بہت کہانی سن کر وہ تصور کر لیتے ہیں کہ ہم بھی ان ہی کرداروں میں سے ایک ہیں ۔ زندگی کا مقصد صر ف یہی تک ہے اور یہ وہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہمیں بھی ایسے ہی یا د رکھا جائے گااور ہمارے قصوں کو دھرایاجائے گا۔ ہم پیار کی ایک مثال قائم کرینگے اور ہمارے نام کی بھی مثالیں دی جائینگی مگر ما یو سی ان کے ہاتھ کچھ نہیں آ تا ۔ مستقبل الگ تباہ ہو جا تا ہے اورخدا کا دیا خوبصورت تحفہ جسے ہم زندگی کہتے ہیں اسی کی نا شکری کر تے ہیں اور اپنے لیئے مو ت کا سفر تعین کر لیتے ہیں۔ 



Referred back. feature is always reporting based. and also carries 5w +1H
پرا نے رومانوی قصے اور ان کا آج کے نو جوانوں پر اثر

رافع

 کہا جا تا ہے کہ اگر اآپ اپنے آج میں ہیں تو اپنا کل بھی یا د رکھیں۔ اگر کل آپکا حسین ہے تو اسے ساتھ لے کر چلیں۔ مگر ہماری نو جوان نسل اور کچھ کرے یا نہ کرے پرانے محبت بھر ے رومانوی قصے ضرور ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ چا ہے بات ہو ہیر رانجھا کی یا بات کریں شاہجہاں اور ممتاز کی سسی پنو یا شیرین فرھاد یا رومیو جو لیٹ وغیر ہ۔ ہمارے نو جوان خو د کو ان ہی قصوں کا کر دار سمجھ کر مجنو اور لیلہ بن کر گھوم رہے ہیں۔ سب سے زیا دہ نقصان اس میں ان سے ہو تا ہے جو واقعی خود کو اس کر دار میں ڈال کر کے یہ کر دار خو د پر حا وی کر لیتے ہیں اور خو د کو ان کرداروں سے منسلک کر تے ہیں۔ یہی نہیں پا گل پن کی انتہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان ناموں سے پکار نے لگتے ہیں۔ اس میں زیا دہ تعداد پڑ ھنے والے لوگوں کی ہو تی ہے جو کہ اسکول کی زندگی سے ہی خو د کو ان کرداروں میں ڈھال لیتے ہیں۔ اسکول کالج یونیور سٹی کی زندگی تک پہنچنے تک انہوں نے کتنی ہی بار محبت کر لی ہو تی ہے۔کچھ لو گ خو د پر اس محبت کااثر نہیں ڈالتے اور جو لو گ اس میں بری طرح شامل ہو کر اپنے اوپر حاوی کر کے خو د کو ان ہی کرداروں میں سے سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ ان کا انجام بھی ایسا ہو نا چا ہیےجیسا ایک اچحی کہانی کے انجام پر ہوتا ہے۔ پہلے تو یہ سب قصے صر ف کتابوں تک محدو د تھے۔ مگر ا?ج کل میڈیا کے ذریعے ان قصوں پر ڈرامے اور فلمیں بنائیں گئیں ہیں۔ جو ا?ج کل بچہ بچہ دیکھ رہا ہے۔ اور سو چتا ہے کہ ہم مل کر نہیں جی سکتے تو مر جا نا ہی بہتر ہے۔ بے شک یہ جھوٹے نہیں ہیں، ان کی اپنی سچائی ہے۔ مگر یہ اس زما نے کے قصے ہیں جب نفسا نفسی کا دور نہیں تھا۔ جب لو گ سچے تھے دھو کہ دینا ان کی فطر ت میں نہیں تھا۔ مگر ا?ج کل کے نو جوان ان سب باتوں سے بے خبر اپنی ہی دھن میں ہو کر رہ رہے ہیں۔ جوان کے دل میں ا? رہا ہےکر رہا ہے۔ ایسے کتنے ہی نو جوان لڑ کے اور لڑکیاں روزانہ بے نام سی محبت کے بھیت چڑ رہے ہو تے ہیں۔

ہسپتال میں ایسے کتنے ہی عاشق مر تے ہو ئے دیکھے جا تے ہیں جو صرف اپنے محبوب کے لیے زندگی داﺅ پر لگا دیتے ہیں جن سے صر ف کچھ عرصے کی محبت ہو تی ہے۔ اور بھول جا تے ہیں کہ اپنے ما ں باپ اور ان کے اپنوںکو جو ان کی زندگی کی دعائیں دن رات مانگتے ہیں۔

اگر پرا نے قصوں کی بات کر یں اور ان کی تاریخ پڑ ھی جا ئے تو جان لینگے کہ محبتیں شروع کیسے ہوئی اور ان کا انجام کیا تھا۔ شاہجہاںجس کے لیے ایک بات مشہو ر ہے کہ ان کی محبت کی مشہو ر نشانی تاج محل ایک خوبصورت محل اپنی بیوی کے لیے بنایا۔ وہ اپنی بیوی سے بہت پیا ر کر تے تھے ان کی بیوی جن کا نام ممتاز تھا ان کے لیے کہا جا تا ہے کہ وہ شاہجہاں کی 14ویں بیوی تھیں۔ ان کے لیے بنائے گئے محل کو دیکھ کر شاہجہاں نے اپنے مزدوروں کے ہاتھ کٹوا دیئے تاکہ ایسا محل کوئی دوبارہ نہیں بنا سکے۔ یہ کس طرح کی محبت تھی جس میں اپنی خواہشات اور خوشیوں کے لیے دوسروں پر ظلم کیا گیا تھا۔ ہمارے نوجوانوں کو وہ محبت تو نظر ا?ئی جو انہوں نے اپنی بیوی سے کی۔ مگر وہ ظلم نظر نہیں ا? یا جو انہوں نے جنونی پن میں آجکر اپنے مزدروں کے ساتھ کیا۔ خیر یہ تو بادشاہ قصہ تھا۔ اگر شہزادوں کی بات کی جائے تو وہ بھی کم نہیں۔ شہزادہ سلیم اور انار کلی کے قصے بھی مشہو ر ہیں۔ انار کلی کو محبت کی سزا یہ دی گئی کہ اس کو زندہ دیوار میں چنوا دیا گیا کیا ا?یا اس کے حصے میں؟ شہز ا دہ سلیم نے اس کے مر نے کے بعد بھی کا فی عر صہ اسی جگہ حکمرانی کی۔
آج کے دور میں نہ تو کوئی با دشاہ ہے نہ کوئی شہزا دہ نو جوان خو د کو خو د ہی سزا دے رہے ہیں۔ نہ ان کو اپنے مستقبل کی فکر ہے نہ کل کی پر واہ۔ ان قصوں کو خو د پر حا وی کر کے بغیر یہ جا نے کہ اس کا انجام کیا ہوا تھا؟ صر ف ان کر داروں کا نام اور تھو ڑی بہت کہانی سن کر وہ تصور کر لیتے ہیں کہ ہم بھی ان ہی کرداروں میں سے ایک ہیں۔ زندگی کا مقصد صر ف یہیں تک ہے اور یہ وہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہمیں بھی ایسے ہی یا د رکھا جائے گااور ہمارے قصوں کو دھرایاجائے گا ہم پیار کی ایک مثال قائم کرینگے اور ہمارے نام کی بھی مثالیں دی جائینگی۔مگر مایوسی ان کے ہاتھ کچھ نہیں ا? تا۔ مستقبل الگ تباہ ہو جا تا ہے اورخدا کا دیا خوبصورت تحفہ جسے ہم زندگی کہتے ہیں اسی کی نا شکری کر تے ہیں اور اپنے لیئے مو ت کا سفر تعین کر لیتے ہیں۔

Name:Muhammad Rafay khan
Roll:2k14/MC/140
Class: BS Part III