آرٹیکل
رول نمبر: 2K14/MC/140
نام: محمد رافع خان
کلاس: BS-III
پرا نے رومانوی قصے اور ان کا آج کے نو جوانوں پر اثر
کہا جا تا ہے کہ اگر آپ اپنے آج میں ہیں تو اپنا کل بھی یا د رکھیں۔ اگر کل آپکا حسین ہے تو اسے ساتھ لے کر چلیں۔ مگر ہماری نو جوان نسل اور کچھ کرے یا نہ کرے پر ا نے محبت بھر ے رومانوی قصے ضرور ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ چا ہے بات ہو ہیر رانجھا کی یا بات کریں شاہجہاں اور ممتاز کی سسی پنو یا شیری فرھاد یا رومیو جو لیرٹ وغیر ہ ۔ ہمارے نو جوان خو د کو ان ہی قصوں کا کر دار سمجھ کر مجنو اور لیلہ بن کر گھوم رہے ہیں۔
سب سے زیا دہ نقصان اس میں ان کا ہو تا ہے۔ جو واقعی خو د کو اس کر دار میں ڈال کر یہ کر دار خو د پر حا وی کر لیتے ہیں اور خو د کو ان کرداروں سے منسلک کر تے ہیں ۔ یہی نہیں پا گل پن کی انتہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان ناموں سے پکار نے لگتے ہیں۔ اس میں زیا دہ تعداد پڑ ھنے والے لوگوں کی ہو تی ہے جو کہ اسکول کی زندگی سے ہی خو د کو ان کرداروں میں ڈھال لیتے ہیں ۔ اسکول کالج یونیور سٹی کی زندگی تک پہنچنے تک انہوں نے کتنی ہی بار محبت کر لی ہو تی ہے۔
کچھ لو گ خو د پر اس محبت اثر نہیں ڈالتے اور جو لو گ اس میں بری طرح شامل ہو کر اپنے اوپر حاوی کر کے خو د کو ان ہی کرداروں میں سے سمجھنے لگتے ہیں ان کو لگتا ہے کہ ان کا انجام بھی ایسا ہو نا چا ہیے کسی اچھی کھانی کا ہوتا ہے ۔ پہلے تو یہ سب قصے صر ف کتابوں تک محدو د تھے مگر آج کل میڈیا کے ذریعے ان قصوں پر ڈرامے اور فلمیں بنائیں گئیں ہیں۔
جو آج کل بچہ بچہ دیکھ رہا ہے ۔ اور سو چتا ہے کہ ہم مل کر نہیں جی سکتے تو مر جا نا ہی بہتر ہے۔ بے شک یہ قصے جھو ٹے نہیں ہیں ان کی اپنی سچائی ہے مگر یہ اس زما نے کے قصے ہیں جب نفسا نفسی کا دور نہیں تھا۔ جب لو گ سچے تھے دھو کہ دینا ان کی فطر ت میں نہیں تھا۔ مگر آج کل کے نو جوان ان سب باتوں سے بے خبر اپنی ہی دھن میں ہو کر رہ رہے ہیں ۔ جوان کے دل میں آ رہا کر لیتے ہیں۔ ایسے کتنے ہی نو جوان لڑ کے اور لڑکیاں روزانہ بے نام سی محبت کے بھیت چڑ رہے ہو تے ہیں۔
ہسپتال میں ایسے کتنے ہی عاشق مر تے ہو ئے دیکھے جا تے ہیں جو صر ف اپنے محبوب کے لیے زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں جن سے صر ف کچھ عر صے کی محبت ہو تی ہے ۔ اور بھول جا تے ہیں کہ اپنے ما ں باپ اور ان کے اپنوں کو جو ان کی زندگی کی دعائیں دن رات مانگتے ہیں ۔
اگر پرا نے قصوں کی بات کر یں اور ان کی تاریخ پڑ ھی جا ئے تو جان لینگے کہ محبتیں شروع کیسے ہوئی اور ان کا انجام کیا تھا ۔ شاہجہاں جس کے لیے ایک بات مشہو ر ہے کہ ان کی محبت کی مشہو ر نشانی تاج محل ایک خوبصورت محل اپنی بیوی کے لیے بنایا ۔ وہ اپنی بیوی سے بہت پیا ر کر تے تھے ان کی بیوی جن کا نام ممتاز تھا ان کے لیے کہا جا تا ہے کہ وہ شاہجہاں کی 14ویں بیوی تھیں۔ ان کے لیے بنا ئے گئے محل کو دیکھ کر شاہجہان نے اپنے مزدوروں کے ہاتھ کٹوا دیئے تاکہ ایسا محل کوئی دوبارہ نہیں بنا سکے۔
یہ کس طرح کی محبت تھی جس میں اپنی خواہشات اور خوشیوں کے لیے دوسروں پر ظلم کیا گیا تھا ۔ ہمارے نوجوانوں کو وہ محبت تو نظر آئی جو انہوں نے اپنی بیوی سے کی مگر وہ ظلم نظر نہیں آ یا جو انہوں نے جنونی پن میں آکر اپنے مزدروں کے ساتھ کیا۔ خیر یہ تو بادشاہ قصہ تھا ۔ اگر شہزادوں کی بات کی جائے تو وہ بھی کم نہیں ۔ شہزادہ سلیم اور انار کلی کے قصے بھی مشہو ر ہیں۔ انار کلی کو محبت کی سزا یہ دی گئی کہ اس کو زندہ دیواروں میں چنوا دیا گیا کیا آیا اس کے حصے میں۔ شہز ا دہ سلیم نے اس کے مر نے کے بعد بھی کا فی عر صہ اسی جگہ حکمرانی کی ۔
آج کے دور میں نہ تو کوئی با دشاہ ہے نہ کوئی شہزا دہ نو جوان خو د کو خو د ہی سزا دے رہے ہیں۔ نہ ان کو اپنے مستقبل کی فکر ہے نہ کل کی پر واہ ۔ ان قصوں کو خو د پر حا وی کر کے بغیر یہ جا نے کہ اس کا انجام کیا ہوا تھا؟ صر ف ان کر داروں کا نام اور تھو ڑی بہت کہانی سن کر وہ تصور کر لیتے ہیں کہ ہم بھی ان ہی کرداروں میں سے ایک ہیں
آج کے دور میں نہ تو کوئی با دشاہ ہے نہ کوئی شہزا دہ نو جوان خو د کو خو د ہی سزا دے رہے ہیں۔ نہ ان کو اپنے مستقبل کی فکر ہے نہ کل کی پر واہ ۔ ان قصوں کو خو د پر حا وی کر کے بغیر یہ جا نے کہ اس کا انجام کیا ہوا تھا؟ صر ف ان کر داروں کا نام اور تھو ڑی بہت کہانی سن کر وہ تصور کر لیتے ہیں کہ ہم بھی ان ہی کرداروں میں سے ایک ہیں
۔ زندگی کا مقصد صر ف یہی تک ہے اور یہ وہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہمیں بھی ایسے ہی یا د رکھا جائے گااور ہمارے قصوں کو دھرایاجائے گا۔ ہم پیار کی ایک مثال قائم کرینگے اور ہمارے نام کی بھی مثالیں دی جائینگی مگر ما یو سی ان کے ہاتھ کچھ نہیں آ تا ۔ مستقبل الگ تباہ ہو جا تا ہے اورخدا کا دیا خوبصورت تحفہ جسے ہم زندگی کہتے ہیں اسی کی نا شکری کر تے ہیں اور اپنے لیئے مو ت کا سفر تعین کر لیتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment