Monday, 8 February 2016

محمد راحیل : انٹرویو سماجی کارکن بشریٰ حیاتReferred back

Referred back
Personality is very weak. No foto. Questions are also weak, neither performance nor ideas of the personality are worth mention.
 Do not give numbering to questions.
نام: محمد راحیل
رول نمبر: 68
موضوع : انٹرویو
انٹرویو  سماجی کارکن بشریٰ حیات

بشریٰ حیات  ایک اسکول کی پرنسپل ہیں آپ لطیف آبادکے علاقے نمبر6 میں پیدا ہوئیں ۔ابتدائی تعلیم لطیف آباد نمبر5کے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول سے حاصل کی ۔انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کے لئے آپ نے زبیدہ کالج کا رُخ کیا اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم زبیدہ کالج سے حاصل کی ۔اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعہ سندھ سے ایم۔ایس کیمسٹری کیا ۔سماجی کاموں کا شوق آپ کو بچپن ہی سے تھا اور یہ کام آپ کو وراثت میں ملا تھا ۔آپکے والد بھی سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔

سوال نمبر۱: آپ کب سے سماجی کاموں میں حصہ لے رہی ہیں اور سماجی کاموں کا شوق آپ کو کب سے ہے؟
جواب: میں سماجی کاموں میں تقریباً 20سالوں سے حصہ لے رہی ہوں اور سماجی کاموں کا شوق تو بچپن ہی سے تھا اور یہ کام اپنے والد کو بھی کرتے ہوئے دیکھا تو مزید انسانیت کا احساس دل میں پیداہوا اور سماج کے لئے اپنی زندگی کو صَرف کرنے کا سوچ لیاتھا ۔


سوال نمبر۲: آپ کو سماجی کاموں میں دلچسپی کیوں پیدا ہوئی تھی؟
جواب: میں نے ان بیس سالوں میں بہت کچھ دیکھا ہے لوگوں کے حقوقوں کو ضبط ہوتے ہوئے دیکھا ہے جب میں لوگوں کو دیکھتی ہوں کہ یہ لوگ بنیادی سہولتیں حاصل کرنے سے قاصر ہیں پھر بھی یہ لوگ اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھاتے تو میں نے سوچاکہ اب اس معاشرے میں بہتری کے لئے اپنا کچھ نہ کچھ کردار ادا کرنا چاہیے اور اب ان لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق دلوانے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں۔



سوال نمبر۳: بحیثیت سماجی کارکن آپ نے سماج کی بہتری کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟
جواب: جب سماجی کاموں کا میں نے باقاعدہ آغاز کیا تو دیکھا کہ اس معاشرے میں برائیاں پیدا کرنے والا بھی انسان ہی ہے میں نے اب تک زیادہ تر کام تعلیم کے لئے کیا ہے کیونکہ بنیادی چیز ہی تعلیم ہے جب انسان تعلیم حاصل کرے گا تو اس میں شعور خود بہ خود پیدا ہوگا او ر اپنے حقوق کی جنگ یہ خود لڑسکے گا۔



سوال نمبر۴: بحیثیت خاتون آپ نے عورتوں کی تعلیم کے لئے کیا کردار ادا کیا؟
جواب: ہم نے مختلف کیمپئنزکے ذریعے عورتوں میں تعلیم کے شعور کو اجاگر کرنے کی کوششیں کی ہیں ہم نے گھر گھر جا کر عورتوں کے لئے تعلیم کیوں ضروری ہے اس پر کام کیا ہے اور اللہ کے فضل وکرم سے اس کیمپئن کے ذریعے ہم عورتوں کے لئے تعلیم کے دروازے میں کھولنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔


سوال نمبر۵: ہمارے معاشرے میں کون کونسی ایسی بنیادی سہولتیں ہیں جن کو لوگ اب بھی حاصل کرنے سے قاصر ہیں؟
جواب: پہلی بنیادی چیز تو تعلیم ہی ہے ،ہمارے ملک میں تقریباً چالیس فیصد بچے تعلیم حاصل نہیں کررہے ہیں صحت کے مسائل ،معاشی مسائل ،خواتین کے بنیادی حقوق ،بے روزگاری ،معاشی قلت ،ظلم و بربریت اور بھی بہت سے ایسے مسائل ہیں جن پر ہم اب تک قابو نہیں پاسکے ہیں اور لوگ اپنے بنیادی حقوق حاصل نہیں کر پائے رہے ہیں۔



سوال نمبر۶: آپ کی نظر میں یہ سہولیات فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ؟
جواب: یہ بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہماری ریاست کی زمہ داری ہے لیکن کچھ نہ کچھ اور کہیں نہ کہیں ہم بھی ذمہ دار ہیں کہ ہم اپنے حقوق کو حاصل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے حقوق کے لئے آواز خود ہی بلند کریں ۔



سوال نمبر۷: آپ کیا سمجھتی ہیں ہمارے تعلیمی نظام کو بہتر کیسے بنایا جاسکتا ہے؟
جواب: سب سے پہلے تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو یکساں کرنا ہوگا ہر صوبے میں ایک جیسا تعلیمی نظام نئے دور کے حساب سے متعارف کروانا ہوگا تاکہ لوگ ایک جیسی تعلیم حاصل کرسکیں کوئی صوبہ کسی دوسرے صوبے سے تعلیم کے میدان میں پیچھے نہ رہے اور سب یکساں تعلیم حاصل کرسکیں۔



سوال نمبر۸: آپ ایک خاتون سماجی کارکن ہیں تو کیاآپ کو کسی قسم کی تنقید کا سامنا کرناپڑتا ہے ؟
جواب: جی! تنقید کا سامنا تو ہر کام میں کرنا پڑتا ہے چاہے وہ اچھا ہو یا برا لوگوں کا تو کام ہی تنقید کرنا ہے لیکن میں کسی بھی قسم کی تنقید پر کام دھرنے کے بجائے اپنے کام پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتی ہوں۔



سوال نمبر۹: ہمارے معاشرے میں عورتوں پر بہت ظلم کئے جاتے ہیں آپ بھی ایک خاتون ہیں آپ نے عورتوں کے حقوق کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟
جواب: میں نے آپکو بتایا ہے کہ ہم نے مختلف کمپیئن کے ذریعے لوگوں کو ان کے حقوق اور خصوصاً خواتین کو اُن کے حقوق کے بارے میںآگاہ کیا ہے میں یہ سمجھتی ہوں جب تک ظلم نہیں ہوسکتا جب تک ظالم اور مظلوم دونوں اس میں برابر کے شراکت دار نہ ہوں اگر عورتیں خود اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آوازیں اٹھائیں تو آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے سے اس چیز کا خاتمہ ہوجائیگااور عورتوں پر ہونے والے ظلم پر قابوپایا جاسکے گا۔



سوال نمبر۱۰: کیا آپ ذاتی طور پر سماج کی خدمت کرتی ہیں یا کسی سماجی ادارے سے بھی منسلک ہیں؟
جواب: جی! میں نے مختلف سماجی اداروں میں اپنے فرائض سرانجام دیئے ہیں ابھی ان دنوں فی الحال میں "اُمید دی ری ہیبلی ٹیشن ویلفیئر آرگنائزیشن "سے منسلک ہوں اور ذاتی طورپر بھی سماج کی بہتری کے لئے اپنا کردار اداکرنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔




سوال نمبر۱۱: آپ ایک اسکول کی پرنسپل ہیں اپنے پیشے اور سماجی خدمت کا کام کس طرح سر انجام دیتی ہیں؟
جواب: کیونکہ میں ایک خاتون ہوں اور مجھے وقت نکالنے میں کافی دشواری کا سامان کرنا پڑتا ہے لیکن اوپرعائد ذمہ داریوں سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتی اور گھر کے کاموں کو بھی دیکھنا پڑتا ہے لیکن اللہ اپنے بندوں سے کام لیتا ہے تو اللہ کی رضا کی خاطر انسانی خدمت کے لئے خود ہی وقت نکل جاتا ہے۔



سوال نمبر۱۲: آپ ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں کہ وہ معاشرے کی بہتری کے لئے کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟
جواب: میں اپنے ملک کے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ وہ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں،اپنی ذمہ داریوں کااحساس کریں،اپنے قیمتی وقت کو فضول کاموں میں برباد نہ کریں کیونکہ دنیا میں جن ممالک نے ترقی کی ہے ان ممالک کے نوجوانوں کا بڑا کردار سامنے آیا ہے اوراللہ کے فضل وکرم سے ہمارے ملک کی ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے تو یہ نوجوان جب اپنی صلاحیتیوں کوصحیح کاموں میں استعمال کریں تو ہی ہمارا معاشرہ ترقی کرے گا۔

No comments:

Post a Comment