بائیوٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ ۔ ایک تعارف
تحریر : فرحانہ ناغڑ
رول نمبر:24
بائیوٹیکنالوجی آج کل ایک بہت ہی ایڈوانس فیلڈ بن گئی ہے۔بایؤٹیکنالوجی بائیولوجی سے ہی منسلک فیلڈ ہے جس کو پڑھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ طلباء ہمیں نظر آرہے ہیں۔ سندھ یونیورسٹی میں ۲۰۰۲ میں بائیو ٹیکنالوجی کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ میں برانچ آف کیمسٹری کے نام سے متعارف کرایا گیاتھا۔اس کے بعد یہ کمسٹری ڈیپارٹمٹ میں ہی کام کرتا رہاتھا۔اور پھر ۲۰۰۴ میں اس وقت کے وائس چانسلر پیر مزہر الحق صدیقی نے اس میں جینیٹکس ڈیپارٹمنت شامل کردیا۔اورجینیٹکس ڈیپارٹمنٹ کی شمولیت کے بعد دونوں ڈیمارٹمنٹ ،ڈیپارٹمنٹ آف بائیوٹیکنالوجی اور ڈیپارٹمنٹ آف جینیٹکس کی کلاسس چلتی رہی۔
جب طلباء کا رجحان اس فیلڈ میں بڑھا اور طلباء کی تعداد میں اضافہ ہوا تو سندھ یونیورسٹی میں ہی اس ڈیپارٹمنٹ کو ایک الگ عمارت میں بنا دیا گیا جس میں بائیوٹیکنالوجی اور جینیٹکس کے طلباء کی کلاسس ہونے لگی اور اب تک ہو رہی ہیں۔جب بائیوٹیکنالوجی کا ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا تو یہاں پہ صرف ایم ایس سی پروگرام تھا ۔لیکن اس کے بعد ۲۰۱۳ میں بائیوٹیکنالوجی کے ڈیپارٹمنٹ میں بی ایس کی کلاسس کا بھی آغاز ہوگیا اور تقریبا ۲ سال سے بائیوٹینالوجی میں بی ایس پروگرام بھی چل رہا ہے جس کے لئے زیادہ سے زیادہ طلباء داخلہ لیتے ہیں۔
ڈپارٹمنٹ آف بایؤٹیکنالوجی کے چار اساتذہ اعلیٰ مزید تعلیم کے لئے ملک سے باہر چائنہ گئے ہوئے ہیں جو وہاں پی ایچ ڈی کرر ہے ہیں ان چار پروفیسرز میں سے ایک پروفیسر،پروفیسر ڈاکٹر ستار قریشی اپنا پی ایچ ڈی مکمل کر کہ واپس آئیں ہیں باقی اساتزہ کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے مزید وقت لگے گا اس کے علاوہ دو فیکلٹی ممبر ز ابھی چائنہ مین ہیں جن کی واپسی کے لئے سال یا ڈیڑھ سال کا عرصہ درکار ہے۔ڈیپارٹمنٹ آف بائیوٹیکنالوجی اور جینٹکس تیزی سے اپنی فیلڈ مین مین کام کر رہے ہیں ۔اور ایک کامیاب فیلڈہونے کے باوجود اس ڈپارٹمنٹ کو ابھی بہت ساری سہولتیں ہیں جو مہیا نہیں کی جا رہی ہیں اور اسی لیے ڈیپارٹمنٹ آف بائیوٹیکنالوجی اور جینیٹکس کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔
سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ جو ہے وہ فنڈز کی کمی ہے۔ڈیپارٹمنٹ کو صحیح طریقے سے فنڈز نہیں دئے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے طالب علمون کو اپنی تعلیم کے حصول کے لئے بہت سی پریشانیں کا سامنہ کرنا پڑھتا ہے ۔ڈیپارٹمنٹ میں جو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ نہیں ہیں جسے لیب میں کام کرنے کے لئے جن اوزاروں کی ضرورت پڑھتی ہے ان میں سے بہت سارے ٹوٹ چکے ہیں اور کچھ بہت زیادہ پرانے ہو چکے ہیں ۔اس کے علاوہ لیب سے بہت سارے کیمیکلز جن کی ایکسپیریمنٹ میں ضرورت پڑھتی ہے وہ بھی ختم ہو چکے ہیں اور اب تک اس کی بہتری کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھائے گئے ہیں۔پہلے صرف ایم ایس سی پروکرام تھا پر اب بی ایس بھی ہوگیا ہے تو طلباء کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور اسی وجہ سے مزید مشکلات سامنے آرہی ہیں۔
بائیوٹیکنالوجی کی فیلڈ میں بہت سی نئی ایجاد ہو رہی ہیں اور یہ ایک تیزی سے آگے بڑھنے والی فیلڈ بنی ہوئی ہے۔سب سے زیادہ ریسرچ ورک اسی ڈیپارٹمنٹ میں ہوتا ہے ۔جرائم کے لیے جو فنگر پرنٹ کا طریقہ استعمال ہوتا ہے وہ بھی بائیوٹیکنالوجی کے اصولوں کی وجہ سے ہوتا ہے اس کے علاوہ بھی فصلوں کی نئی اقسام آرہی ہے وہ سب بائیوٹیکنالوجی کی ریسرچ کی بدولت ہے۔ماحول میں جو گلوبل کے حوالے سے جو بدلاؤ آرہا ہے اس میں بائیوٹیکنالوجی بہت اہم کام سر انجام دے رہی ہے۔مسئلا جو کھیتوں سے خارج ہونے والا فالتو یا خراب کچرا ہوتا ہے۔بائیوٹیکنالوجی اس بیکار مواد کو کارآمد چیزوں میں تبدیل کرتی ہے۔بائیوٹیکنالوجی کی فیلڈ کو اگر پروان چڑھایا جائے تو اور ڈیپارٹمنٹ کو سامان مہیا کیا جائے اورسبھی کیمیکلز مہیا کئے جائیں تو ڈیپارٹمنٹ آف بائیوٹیکنالوجی اور بہتر اور اچھے مقام پر آسکتا ہے۔
جب یہ ادارہ وجود میںآیا تو ہر چیز مہیا کی جا تی تھی فنڈز بھی باقائدہ طور پر دئے جا تے تھے پر اب ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے۔اگر ڈیپارٹمنٹ کو باقائدہ فنڈز دئے جائیں گے تو بنیادی ضرورتیں پوری ہوجائیں گی اور طلباء بھی بہترطریقے سے اپنا کام انجام دے سکے گے۔
ڈیپارٹمنٹ آف بائیوٹیکنالوجی اور جینیٹکس کے طلباء کو ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کی بہت سی کلاسس ڈیپارٹمنٹ میں نہیں ہوتی اور ان کو کلاسس لینے کے لیے اپنے ڈیپارٹمنٹ سے دور دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں جانا پڑھتا ہے جو ان کے لئے مشکل ہوتا ہے کیونکہ چند ڈیپارٹمنٹ بہت فاصلے پر بنے ہیں تو یونیورسٹی کے سربراہن کو ان کی اس مشکل پر غور کر کے ان کی کلاسس کا ڈپارٹمنٹ میں یہ انتیظام کرنا چاہیے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ اور بغیر کسی پریشانی کے کلاسس لے سکیں۔
No comments:
Post a Comment