Tuesday, 19 January 2016

Revised Education in SIndh

Revised 
وارث بن اعظم
2K14/MC/102
آرٹیکل: سندھ میں تعلیم کا معیار

 دانشور کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کہ اگر تین طبقے اساتذہ، عدلیہ اور فوج ٹھیک ہو جائے تو پورے ملک کا نظام ٹھیک ہو جاتا ہے، لیکن "وجدان" کاکہنا ہے کہ اگر صرف اساتذہ
ہی اپنا فرض احسن طریقے سے نبھانا شروع کردیں تو ملک کو ترقی کی راہ پر سفر کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا،کیونکہ عدلیہ اور فوج بھی اساتذہ ہی کی تربیت کا نتیجہ ہیں، جس طرح
کی تربیت ہو گی نتیجہ بھی ویسا ہی آئے گا۔

 کچھ عرصے پہلے ڈپٹی اکاﺅنٹنٹ جنرل ایجوکیشن،سیکورٹی اینڈایجوکیشن کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی جس کے مطابق اس وقت سندھ میں اساتذہ کی کل تعداد155,000ہے ،
جس میںسے 25000 گھوسٹ اساتذہ ہیں،
 
روز و شب کے میلے میں غفلتوں کے مارے لوگ
  شائد یہی سمجھتے ہیںہم نے جس کو دفنایا تھا بس اُسی کو مرنا تھا

سندھ میں شعبہ تعلیم کی زبوں حالی ڈھکی چھپی بات نہیں، ایک طویل عرصے سے یہ شعبہ مخصوص رفتار کا شکار ہے، جو اسے پیچھے کی طرف 
دھکیل رہی ہے، یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ ان حالات کی ذمہ دار وہ وڈیرہ سوچ ہے جس نے اس نظام کو کھبی پنپنے ہی نہیں دیا،شعبہ تعلیم کی نا گفتہ با صورتحال کے حوالے سے اعداد
 و شمار ہمارے سامنے بکھرے پڑے ہیں، آئے دن صوبہ سندھ کے سرکاری اسکولوں کی داستانِ الم سناتی ہوئی اخباری رپورٹیںبھی نظروں کے سامنے سے گزرتی ہیں لیکن مسائل کا انبار 
جوں کا توں ہے۔سرکاری اسکولوں کی حالت اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ ان میں سے اکثر کو غیر فعال قرار دیا جا چکا ہے، جبکہ بقیہ اسکولوں کی تعداد فائلوں میں ہی نظر آتی ہے،جاگیردانہ
 نظام کے تحت کُچلے ہوئے غریب عوام کے لئے سرکاری اسکولوںمیں تعلیم حاصل کرنے کی عیاشی بھی چھینی جا چکی ہے، اساتذہ کے ذہنوں میں یہ بات پروان چڑھ چکی ہے کہ پڑھانے کی کیا
 ضرورت ہے، یہ ایک مخصوص ذہنیت ہے جو خصوصاََ سرکاری اسکولوں کے اسا تذہ کے ذہنوں میں بیٹھ گئی ہے۔

 سندھ میں تعلیمی اداروں کی کمی، پبلک سیکٹر ےونی ورسیٹیز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہونا، میرٹ کو نظر انداز کرنا، گھوسٹ اساتذہ کی تقرریاں، فنڈز میں ہیر پھیر،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے 
کہ آڈٹ ڈپارٹمنٹ کی2013-14کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں تعلیم کے نام پر 13اعشاریہ53بلین کے فنڈ کا غلط استعمال ہوا ہے۔اسکے علاوہ ایسی بھی خبریں ہیں کہ سرکاری 
اسکولوں کی عمارتوں کو مقامی ذمینداروں اور جاگیرداروں کی جانب سے مویشی پالنے اور گیسٹ ہاﺅس کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے ۔
دیگر ملکوں کے تعلیمی نظام پر نظردوڑائی جائے تو وہاں پر وقت کے ساتھ ساتھ کتابیں بدل دی جاتی ہیں مگر سندھ کا حال یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے 1990 میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کوئی
 کتاب پڑھی ہے تو اُسکا بچہ وہی کتاب 2016میں پڑھ رہا ہے۔

حالیہ دنوں سندھ ہائیکورٹ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس مین کہا گیا ہے کہ سندھ کے تعلیمی نظام کو دہشتگردوں اور خود کش حملوں سے نہیں بلکہ تعلیمی نظام میں رائج بد عنوانی،جاگیرداروں
اور وڈیروں سے خطرہ ہے، اسی رپورٹ کے مطابق غیر فعال اسکولوں سمیٹ تمام تعلیمی اداروں کے لئے سالانہ بجٹ مختص اور جاری ہو تا ہے جو کہ بد عنوانی کی نظر ہو رہا ہے۔ یہ رپورٹ ایوانوں 
میں بیٹھے اشرافیہ کے لئے باعثِ شر مندگی ہے کہ جہاں دیگر صوبوں کے تعلیمی اداروں کو دہشتگردی کے ذریعہ نشانہ بنا یا جا رہا ہے وہیں دوسری طرف سندھ میں یہ حالات ہیں۔
معاشرے کی ترقی کا بنیادی راز تعلیم ہی ہے مگر سندھ کا حال یہ ہے کہ اسکول ہیںتو پڑھانے والا نہیں ہے ، پڑھانے والا ہے تو کتابیںنہیں ہیںاسکے ساتھ ہی نقل کا کلچر بھی زور و شور سے جاری ہے،
 اندرونِ سندھ کا تو یہ حال ہے کہ میٹرک اور انٹر کے طلبہ کراچی کو چھوڑ کر وہاں کے اداروں کا رُخ کرتے ہیں کیونکہ وہاں نقل کر کے اچھے نمبرحاصل کئے جاسکتے ہیں۔





Again referred back It is too general. composing mistakes. 
وارث بن اعظم
2K/14/MC/102
آرٹےکل: سندھ میں تعلیم کا معےار

شعبہ تعلیم کی نا گفتہ با صورتحال کے حوالے سے اعداد و شمار ہمارے سامنے بکھرے پڑے ہیں، آئے دن صوبہ سندھ کے سرکاری اسکولوں کی داستانِ الم سناتی
ہوئی اخباری رپورٹیں بھی نظروں کے سامنے سے گزرتی ہیںلیکن مسائل کا انبار جوں کا تون ہے۔
تعلیم کے بارے میں مشہور کہاوت جو اکثر ہم سب سنتے ہیں کہ " علم حاصل کرو ماں کی گود سے لے کر لحد تک" تعلیم ہر انسان کے لئے ضروری ہے، تعلیم ہر جگہ
سے حا صل کی جا سکتی ہے جس میں چال ڈھال سے لے کر بولنا وغےرہ سب شامل ہیں مگر عملی تعلیم صرف تعلیمی اداروں سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
صوبہ سندھ میں اس وقت جو تعلیم کی صورتحال ہے وہ کافی خراب ہے ،سرکاری اسکولوں کی حالت اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ ان میں سے اکثر کو غیر فعال قرار
 دیا جا چکا ہے جبکہ بقیہ اسکول اگر ہیں تو صرف کتابوں کی حد تک۔ جو اسکول ہیں انکا انفراسٹرکچر اس حد تک خراب ہے کہ ایک اسکول میں اگر 600 طلباءہیں تو
اُس اسکول میں کمروں کی تعداد 4ہے، کلاس روم میں نہ ہی پنکھے ہیں ۔نہ فرنیچر، نہ ہی بیٹھنے کیلئے ڈیسک، اس کے باوجود بچے صحن میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر
 تےار ہیں، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ یہاں ٹےچر بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں، اساتذہ کے ذہنوں میں یہ بات پروان چڑھ چکی ہے کہ پڑھانے کی کیا ضرورت
 ہے، یہ ایک مخصوص ذہنیت ہے جو خصوصاََ سرکاری اسکولوں کے اسا تذہ کے ذہنوں میں بیٹھ گئی ہے۔
 سندھ میں تعلیم کا معےار کافی حد تک گر گےا ہے ، سندھ میں تعلیمی اداروں کی کمی، پبلک سیکٹر ےونی ورسیٹےز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہونا، میرٹ کو نظر انداز کرنا، گھوسٹ 
اساتذہ کی تقررےاں، فنڈز میں ہیر پھیر،اسکے علاوہ ایسی بھی خبریں ہیں کہ سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کومقامی زمینداروں اور جا گیرداروں کی جانب سے مویشی پالنے 
اور گیسٹ ہاﺅسس کے طور پر استعمال کیاجا رہا ہے۔
   روز و شب کے میلے میں غفلتوں کے مارے لوگ
  شائد یہی سمجھتے ہیں ہم نے جس کو دفناےا تھا بس اُسی کو مرنا تھا
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آڈٹ ڈپارٹمنٹ کی2013-14کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں تعلیم کے نام پر 13اعشاریہ53بلین کے فنڈ کا غلط استعمال ہوا 
ہے۔اسکے علاوہ دیگر ملکوں کے تعلیمی نظام پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں پر وقت کے ساتھ ساتھ کتابیں بدل دی جاتی ہیں مگر سندھ کا حال یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے
1990میں سندھ ٹےکسٹ بک بورڈ کی کوئی کتاب پڑھی ہے تو اُسکا بچہ وہی کتاب 2016میں پڑھ رہا ہے، مثلاََ ان 26سالوں میںدنیا میں کچھ فرق آیا تو وہ اُس
کی سترس سے باہر ہے۔
2010کے آفیشل اندازے کے مطابق سندھ کی آبادی42اعشاریہ4ملین ہے ،سندھ ایجوکیشن سیکٹر پلان کے مطابق اس وقت سندھ میں47,394 اسکول
 ہیں اور ان میں اساتذہ کی تعداد 142,639 ہے ، پبلک سیکٹر یونیورسےٹےز کی تعداد صرف 15ہے۔2012کے آفیشل سروے کے مطابق سندھ کی آبادی 42
اعشاریہ 4ملین ہے، اس لحاظ سے صوبہ میںیونی ورسیٹےز کی تعداد بہت کم ہے یہاں اس امر پر غور کیا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ اگر کسی غریب کا بچہ کسی طرح اپنی سیکنڈری
تعلیم کسی طرح پاس کر لے تو اُسے آگے پڑھنے کیلئے کتنی اذےت درکار ہے اُس کا اندازہ ہر کوئی لگا سکتا ہے۔
معاشرے کی ترقی کا بنےادی راز تعلیم ہی ہے مگر سندھ کا حال یہ ہے کہ اسکول ہیں تو پڑھانے والا نہیں ہے ، پڑھانے والا ہے تو کتابیں نہیں ہیںاسکے ساتھ ہی نقل کا کلچر
بھی زور و شور سے جاری ہے اندرونِ سندھ کا تو یہ حال ہے کہ میٹرک اور انٹر کے کراچی کے طلبہ کراچی کو چھوڑ کر وہاں کے اداروں کا رُخ کرتے ہیں کیونکہ وہاں نقل 
کر کے اچھے نمبرحاصل کئے جاسکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment