Tuesday, 19 January 2016

حیدر آباد ، گندگی اور صحت Referred back

حیدر آباد ، گندگی اور صحت 

لکھنے والے کا نام نہیں۔ آرٹیکل میں کچھ اعدد و شمار، کچھ ماہرین کی رائے، اس حوالے سے رپورٹس وغیرہ ہوتی ہیں۔ اور اس کے اسباب بھی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ حل بھی تجویز کئے جاتے ہیں۔ شہر میں صفائی کا عملہ کتنا ہے؟ بلدیہ اس مد میں سالانہ کتنا پیسہ کڑچ کرتی ہے؟ ایسا کونسا اور کیسے نظام بن گیا ہے جس کی وجہ سے صفائی نہیں ہوتی وغیرہ ۔ آپ ان سوالات کے جوابات دیں، اور دوبارہ فائل کریں۔ 
 لکھنے والے کا نام میں ڈال رہا ہوں 
 بلال صدیقی
شہر حیدر آباد جو کہ شہر قرار کہلاتا تھا آج گندگی اور غلاظت کا ڈھیر بنا ہوا ہے حیدر آبادجو کہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے ہمیشہ سے ہی حکومت سندھ کی نظروں سے دور رہا ہے کبھی حیدر آباد کی سڑکیں کسی جھیل یا ندی کا منظر پیش کرتی ہیں تو کبھی کسی کوڑے دان کا ۔ سڑکوں کے کنارے لگے یہ کچروں کا ڈھیر اور یہ سڑکوں پر کھڑا پانی حکومت سندھ کی نہ اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اس گندگی اور غلاظت کی وجہ سے شہریوں کو بہت سے مسائل کا سامنا در پیش ہے جن میں سے صحت سر فہرست ہے ۔ اس گندگی سے لوگوں میں ڈائریااور ملیریا جیسی خطر ناک بیماریاں عام ہوتی جارہی ہیںاور یہ آگے چل کر خدا سے ملوادیں گی لیکن حکومت سندھ نے آج تک اس بات پر کبھی نوٹس نہیں لیا کیونکہ اس ملک میں ہمیشہ سے ہی عوام کو اُن کے حقوق سے دور رکھا گیا ہے خاص کر غریبوں کو ، کیونکہ اُن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ اچھے ہسپتال یا پھر پرائیوٹ ہسپتالوں میں علاج کرواسکیں لہذا گورنمنٹ ہسپتال سے علاج کروانے پر مجبور ہوتے ہیں اور گورنمنٹ ہسپتالوں کا حال کچھ خاصہ ٹھیک نہیں جس کی وجہ سے انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔
دراصل یہ گندگی صحت کے ساتھ ساتھ ماحول تک کو نقصان پہنچا تی ہے ماحول میں موجودہ آکسیجن کی وجہ سے لوگوں میں سانس کا مرض لاحق ہوتا جارہا ہے ۔ ماحول کی آلودگی سے نہ صرف انسانوں کو بلکہ جانوروں اور پرندوں تک نقصان پہنچتا ہے۔سیوریج کا نظام بھی درہم برہم ہے اور شہر حیدر آباد کی سڑکیں کسی جھیل یا ندی کا منظر پیش کرتی ہیں ۔ پایپ لائن پھٹنے یا ٹوٹنے کی وجہ سے گٹروں کا گندہ پانی سڑکوں پر جمع ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں اور پیدل چلنے والے حضرات کو خاصاً مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پانی جمع ہونے کی وجہ سے کھلے گٹر دکھائی نہیں دیتے اور آئے دن اس وجہ سے لوگ ایکسیڈینٹ کا شکار ہوتے ہیں جان کے ساتھ ساتھ مال کا بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور یہ گندہ پانی بہت سے بیماریوں کو جنم دیتا ہے جس میں ملیریا ، بخارشامل ہیں ۔اس گندے پانی کو صاف کرنے کے لیے حکومت بھی کوئی اقدام نہیں اٹھا تی حتیٰ کے انکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔
دراصل ہم خود سستی اور کاہلی کی وجہ سے اس شہر کو گندہ کرتے ہیں اس شہر کے 80فیصد مسائل ایسے ہیں جو ہم خود حل کرسکتے ہیں مگر حل کون نکالے؟ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمیں پہلے خود ٹھیک ہونا پڑے گا کہ اگر ہم اس شہر کو اپنا گھرسمجھ لیں تو ہم اپنے گھر کی طرح اس شہر کو بھی صاف ستھرا رکھیں گے ۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن یہ بس کہنے کی حد تک ہے ہم اپنا گھر تو صاف کرتے ہیں لیکن گھر کا کچرا کبھی بھی گورنمنٹ کی مقررہ جگہ پر نہیں پھینکتے چونکہ وہ رہائش پزیر علاقوں سے دور ہوتی ہے ۔اس گندگی کا زیادہ زیادہ تر نقصان ان غریبوں کو اٹھانا پڑتا ہے جن کے پاس رہنے کے لیے نہ گھر اور نہ ہی پہننے کے لیے کپڑے ہوتے ہیں ۔
میری حکومت سے گزارش ہے کہ کچرا پھینکے کی کی مقررہ جگہ رہائش پزیر علاقوں کے نزدیک بنوائی جائے اور اسے روز صاف کرنے کے لیے کچھ لوگ تعینات کریں تاکہ حیدر آباد ایک صاف ستھرا شہر بن سکے اور عام عوام سے گزارش ہے کہ اس اقدام میں حکومت کا ساتھ دیں ۔

No comments:

Post a Comment