Tuesday, 19 January 2016

Referred back Marraige ceremonies past and present

Referred back
We need urdu pieces in inpage format, not in words. This feature is poor.  
feature is reporting based. It objective is to entertainment. plz read what is feature 
 U should have correctly written ur name
عذیر
فیچر

شادی کا سماں
جدید طرز و طریقہ یا فرسودہ رسومات!
شادی انسانی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ اس دنیا کی ابتداء سے ہر قوم، ہر مذہب اور ہر نسل میں شادی بیاہ کا رواج چلا آ رہا ہے۔ یہ دنیا کو چلانے والے اہم ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ شادی میں دو لوگ ایک رسومی طریقے سے ایک نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔
ابتداء دنیا سے لے کر آج تک مختلف قوموں اور مختلف معاشروں میں شادی بیاہ کے طور طریقے، رسم و رواج الگ الگ ہوتے ہیں۔ اگر صرف ہمارے معاشرے کی بات کی جائے تو اس میں ہر خاندان میں کوئی ایک نہ ایک نئی یا دوسروں سے مختلف رسم ضرور مل جاتی ہے۔
یوں تو شادی بیاہ کی تقریبات میں بشتر رسومات ہوتی ہیں۔ مگر چند ایک رسومات ایسی ہیں جو کہ عموما ہر خاندان اور ہمارے معاشرے کے ہر فرقے میں پائی جاتی ہے۔ جن میں سرفہرست مایوں مہندی کی رسم ہے۔
یہ بات تو ہر عام و خاص کے علم میں ہے کہ پچھلی ایک صدی میں نئی نئی ایجادات کی مدد سے دنیا کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا  ہے۔ اور اس تبدیلی کا ایک گہرا اثر انسان کی سماجی زندگی پر بھی پڑا ہے۔جیسا کے شادی بھی ایک سماجی روایت ہے تو شادی کے طور طریقے بھی جدید ٹیکنالوجی اور انسان کی سوچ میں آنے والی تبدیلی سے متاثر ہوئے ہیں۔
شادی بیاہ کی رسومات کا آغاز شادی کی تاریخ طے ہونے سے ہوتا ہے۔موجودہ دور میں جو ماحولیتی صورتحال ہےاس کے مطابق شادی کسی ایسے مہینے میں ہونی چاہیے جس میں نہ تو زیادہ ٹھنڈ ہو اور نہ ہی زیادہ گرمی تکہ لوگ با آسانی شادی کی تقریب میں شرکت کر پائے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اسکے کچھ برعکس صورتحال نظر آتی ہے۔پرانے دور سے بزرگوں نے مذہبی کلینڈر کے مطابق چند ایک ماہ طے کیے ہوئے ہیں جن میں لوگوں کی اکثریت شادی بیاہ کرتے ہیں چاہے ان دنوں موسم کیسا ہی ہو حتکہ مون سون کا سسیزن ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بات انسانی عقل سے بلاتر ہے اور فرسودہ رسومات کا ایک حصہ ہے۔
تھوڑا آگئے بڑھ کر اب اھر مایوں مہندی کی رسم کی بات کی جائے تو ایک دور تھا کہ دولہا، دولہن دونوں کو نکاح سے ساتھ دن پہلے مایوں میں بیٹھا دیا جاتا تھا۔ پھر نکاح کے دن تک انکے جسم پر  ابٹن ملا جاتا تھا۔ اکثر خاندانوں میں مایوں میں بیٹھنے کے بود دولہا دولہن نہ تو نکاح کے دن تک نہا سکتے تھےاور نہ کہیں شہر سے باہر جا سکتے تھے۔ گھر میں روز شام چند خواتین ڈھول لے کر بیٹھاکرتی اور خوب گانے گائے جاتے۔ البتہ آج کے دور میں ان سب باتوں کا کرنا ایسا لگتا ہےیہ کوئی دو تین صدی پہلے کی بات ہومگر ایسا تو ہمارے معاشرے میں پچیس تیس سال پہلے تک بھی ہوتا رہا ہے۔
اب اگر آج کے دور کی بات کی جائے تع ابٹن لگانے کی رسم تو صرف نام کی رہ گئی ہے۔ کہاں پہلے دولہا دولہن کے پورے بدن کو ابٹن سے ڈھک دیا جاتا تھا۔ اب تو صرف رسم کے طور پر تھوڑا سا ابٹن دولہا دولہن کے ہاتھ پر رکھے پان کے پتے پر لگا دیا جاتا ہے۔ آج کے دور کے مایوں مہندی میں رقص کا پروگرام بہت عام ہو گیا ہے۔ رسومات سے فراغت کے بعد ایک اچھے خاصے موسیقی اور رقص کے پروگرام کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں دولہا اور دولہن بھی رقص کرتے دیکھائی پڑتے ہیں۔
کچھ نمایا تبدیلی رخصتی کے وقت بھی دیکھائی دیتی ہے۔ پہلے کی شادیوں میں رخصتی کا ایک الگ ہی سماں ہوتا تھا جہاں دولہن اپنے والدین سے بچھڑنے کے غم میں زار و قطار رو رہی ہوتی تھی اور اس منظر کو دیکھ کر موجودہ ہر شخص کا دل غمگین ہو جاتا تھا۔ البتہ اب اس طرح کا کوئی منظر مشکل ہی دکھائی دیتا ہے۔ کچھ رسمی طور پر دولہن اپنے گھر والوں کے گلے لگ جاتی ہے مگر وہ پچھلے دور جیسا غم نظر نہیں آتا۔ شاید اس کی ایک وجہ دنیا کا سمٹ جانا بھی ہے۔ آج کی جدید دنیا میں کوئی شخص کسی سے کہاں دور ہے شاید اس وجہ سے بھی جدائی کے پرانے جذبات نہ ابھرتے ہو۔
ایسی ہی بے شمار تبدیلیاں شادی کی پوری تقریب میں جگہ جگہ دکھائی دیتیں ہیں۔ جن میں چند فرسودہ پرانی رسومات کا ختمہ ہوا ہے اور چند جدید طور طریقوں نے جنم لیا ہے۔ البتہ شادی بیاہ کے موقعے پر ہمارے معاشرے میں ایک غریب شخص کو جہیز جیسی کئی رسومات سے پیش آنے والے مسائل کا سامنا ہے۔
(محمد عزیر - 158) 

No comments:

Post a Comment