Revised
نام:فرحانہ ناغڑ
رول نمبر:24
اسائنمٹ:آرٹےکل
(کم عمر بچوں کا مزدوری کرنا)
میڈیم:اردو
ہمیںاپنے ارد گرد میںایسے بچے نظر آتے ہیں جو کم عمرمیں ہی مختلف کام کر رہے ہیں جو ان کی عمر سے کہی زیادہ ہیں۔ان کا موں کی وجہ سے ان کی ذہنی اور جسمانی پرےشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے بچوں کی مزدوری پے یہ اندازہ لگایاہے کہ ۰۹۹۱ میں ۱۱ ملئن بچے ملک میں مزدوری کر رہے ہیںجن میں سے کچھ ۰۱ سال کی عمر سے بھی کم ہیں۔تقرےبا µ۸۱۲ ملئن بچے۵ سے ۷۱ سال کی عمر سے ہی مزدوری کر رہے ہیں۔۰۴ سے ۰۵ فیصد بچے ۸۱ سال سے کم عمرمیں ہی مزدوری پر لگے ہوئے ہیں ۔ایک تہائی سے زیادہ بچے کھیتی باڑی کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔دیہی علاقوںمیں بچوں کو ۵ سے ۷ سال کی عمر میں کام پر لگایاہوا ہے۔سب سے زیادہ بچوں کا مزدوری کرنا ایشین ممالک میں نظر آتا ہے۔جہاں تقریبا ۲۲۱ ملئن بچے کام کر رہے ہیں ۔
پاکستان میں غربت سب سے بڑی وجہ ہے بچوں کے کام کرنے کی ۔مہنگائی کے سبب اخراجات کو برداشت کرنا مشکل کام ہو گیاہے اےسے میں لوگ اپنے بچوں کو کم عمر میں ہی ملازمت پر لگایے ہوئے ہیں جن سے ان بچوں کی پرھائی بھی متاثر ہورہی ہے،کیونکہ ایک کمانے والے کے لئے گھر کے تمام افراد کا خرچہ اٹھانہ مشکل ہو گیا ہے ایسے میں وہ بچوں کو تعلیم سے ہٹا کر محنت مزدوری کے کاموں پر لگا دیتے ہیں۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مہنگائی تو بڑھ رہی ہے مگر لوگوں کی تنخواہوں مےں اضافہ نہیں کیا جا رہا تو ایسے میں لوگ بہت مجبور ہو کہ اپنے بچوں کو گھر سے دور کام کرنے کے لئے بھج دیتے ہےں۔ جس عمر میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہئے اس عمر میں بچے کام کر رہے ہیں۔
لوگ سمجھتے ہیںکہ جو بچے مختلف دکانوں پر مختلف کام کرتے ہیںیااپنے اسکول کی چھٹیوں میں کہیں نوکری کر رہے ہیںیہ سب مزدوری ہے لیکن ان چیزوں کو ہم مزدوری کے زمرے میں نہیں لے سکتے یہ کام صرف کام ہیں جو بچے اپنے فارغ وقت میں کر رہے ہوتے ہیں۔بچوں کا مزدوری کرنا اور بچوں کا کام کرنا یہ دو الگ باتیں ہیں۔مزدوری کرنے سے مراد ہے کہ بچوں کا چھوٹی عمر مےں اسکول نا جانا اور لوکوں کے گھر میں رہ کر ان کی غلامی کرنا خود سے اپنے لیے کچھ کرنے کی اجازت نہ ہونا اس طرح کے کام مزدوری میں آتے ہیں ۔اور اس طرح کے کام کرنے والے بچوں پر اکثر لوگ تشدد بھی کرتے ہیں اور ان کو کھانے کے لئے بھی ٹھیک طرح سے نہیں دیتے ہیں۔ان کی عمر سے زیادہ بھاری کام ان سے کرواتے ہیںحد سے زیادہ مشکل کام ان کے سر کر دیتے ہیںاور سارا سارا دن صفائی کرواتے رہتے ہیں۔بہت سارے غریب والدین بچوں کو کام کے لیے دور بھج دیتے ہیں جہاں ان کے ساتھ ایسا سلوک رکھا جاتاہے۔
حیدرآباد میں ۴سے ۵ سال کی عمر کے بچے مختلف کام کر رہے ہیں جسے چوڑیاں بنا رہے ہیں ۔ان چوڑیوں کے ہر بچہ روزانہ ۲۱ سیٹس بنا رہا ہے جس میں ۵۶ چوڑیاں پر سیٹ بنتی ہیں اور یہ کام ان کوایک دن میں مکمل کر کہ دینا ہوتا ہے جس کا معاوضہ ان کو تقریبا ۰۴ روپے ملتا ہے۔جو ان کی محنت کے سامنے بہت کم ہے۔ اور اس کام میں ان کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔کم عمر ہونے کی وجہ سے یہ کام ان کے لیے خاصہ مشکل ہے۔ اور یہ کام صرف حیدرآبادمیں ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سی کچی آبادی میں بڑی تعداد میں ہو رہا ہے۔
بچوں کے مزدوری کرنے کا خاتمہ اس صورت میں ہو سکتا ہے جب حکومت غریب طبقے پر توجہ دے ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے کوئی بہتر
اقدام اٹھائے اور بہت سی جگہوں پر جہاں بچوں کو زبردستی اپنے پاس رکھ کر ان پر ظلم کر رہے ہےںان کے خلاف کوئی عمل کریں۔تا کہ باقی لوگ بھی اس چیزسے خبردار رہیں کہ بچوں کو بے جا تکلیف نا دیں۔کیونکہ بچے اگر چھوٹی عمر سے کسی بھی قسم کی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں تو وہ پھر آگے جا کر بڑے جرائم میںملوث ہوجاتے ہیںجیسے چوری،قتل،دہشت گردی وغیرہ جیسے خطرناک کاموں میںپڑجاتے ہیں۔
مختلف تنظیمیں بچوں کے مزدوری کرنے کو ختم کرنے کے لئے کوشیشیں کر رہی ہیں جن میں بچوں کی تعلیم ان کا علاج مفت کیا جائے گا تا کہ ان کہ والدین کو مشکلات اور غربت کی وجہ سے بچوں کو کام کے لئے نہیںبھیجنا پڑے اور ان کی کچھ مدد بھی ہوجائے۔حکومت کچھ حد تک اقدام کر چکی ہے جس میں مفت گھر فراہم بھی کےے جا رہے ہیں۔اور فنڈز بھی مقرر کئے ہیں تا کہ لوگ غربت سے تھوڑا نقل کر اپنے بچوں کو تعلیم کی طرف مائل کر سکیں۔اور اس عمل سے بچے مزدوری سے بچ سکتے ہیں اور اپنی ذندگی کو عام بچوں کی طرح گزار سکتے ہیں۔
Referred back. Same incorrect composing issue here with ur article.
نام:فرحانہ ناغڑ
رول نمبر:24
اسائنمٹ:آرٹےکل
(کم عمر بچوں کا مزدوری کرنا)
میڈیم:اردو
ہمیںاپنے ارد گرد میںایسے بچے نظر آتے ہیں جو کم عمرمیں ہی مختلف کام کر رہے ہیں جو ان کی عمر سے کہی زیادہ ہیں۔ان کا موں کی وجہ سے ان کی ذہنی اور جسمانی پرےشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے بچوں کی مزدوری پے یہ اندازہ لگایاہے کہ ۰۹۹۱ میں ۱۱ ملئن بچے ملک میں مزدوری کر رہے ہیںجن میں سے کچھ ۰۱ سال کی عمر سے بھی کم ہیں۔تقرےبا µ۸۱۲ ملئن بچے۵ سے ۷۱ سال کی عمر سے ہی مزدوری کر رہے ہیں۔۰۴ سے ۰۵ فیصد بچے ۸۱ سال سے کم عمرمیں ہی مزدوری پر لگے ہوئے ہیں ۔ایک تہائی سے زیادہ بچے کھیتی باڑی کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔دیہی علاقوںمیں بچوں کو ۵ سے ۷ سال کی عمر میں کام پر لگایاہوا ہے۔سب سے زیادہ بچوں کا مزدوری کرنا ایشین ممالک میں نظر آتا ہے۔جہاں تقریبا ۲۲۱ ملئن بچے کام کر رہے ہیں ۔
پاکستان میں غربت سب سے بڑی وجہ ہے بچوں کے کام کرنے کی ۔مہنگائی کے سبب اخراجات کو برداشت کرنا مشکل کام ہو گیاہے اےسے میں لوگ اپنے بچوں کو کم عمر میں ہی ملازمت پر لگایے ہوئے ہیں جن سے ان بچوں کی پرھائی بھی متاثر ہورہی ہے،کیونکہ ایک کمانے والے کے لئے گھر کے تمام افراد کا خرچہ اٹھانہ مشکل ہو گیا ہے ایسے میں وہ بچوں کو تعلیم سے ہٹا کر محنت مزدوری کے کاموں پر لگا دیتے ہیں۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مہنگائی تو بڑھ رہی ہے مگر لوگوں کی تنخواہوں مےں اضافہ نہیں کیا جا رہا تو ایسے میں لوگ بہت مجبور ہو کہ اپنے بچوں کو گھر سے دور کام کرنے کے لئے بھج دیتے ہےں۔ جس عمر میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہئے اس عمر میں بچے کام کر رہے ہیں۔
لوگ سمجھتے ہیںکہ جو بچے مختلف دکانوں پر مختلف کام کرتے ہیںیااپنے اسکول کی چھٹیوں میں کہیں نوکری کر رہے ہیںیہ سب مزدوری ہے لیکن ان چیزوں کو ہم مزدوری کے زمرے میں نہیں لے سکتے یہ کام صرف کام ہیں جو بچے اپنے فارغ وقت میں کر رہے ہوتے ہیں۔بچوں کا مزدوری کرنا اور بچوں کا کام کرنا یہ دو الگ باتیں ہیں۔مزدوری کرنے سے مراد ہے کہ بچوں کا چھوٹی عمر مےں اسکول نا جانا اور لوکوں کے گھر میں رہ کر ان کی غلامی کرنا خود سے اپنے لیے کچھ کرنے کی اجازت نہ ہونا اس طرح کے کام مزدوری میں آتے ہیں ۔اور اس طرح کے کام کرنے والے بچوں پر اکثر لوگ تشدد بھی کرتے ہیں اور ان کو کھانے کے لئے بھی ٹھیک طرح سے نہیں دیتے ہیں۔ان کی عمر سے زیادہ بھاری کام ان سے کرواتے ہیںحد سے زیادہ مشکل کام ان کے سر کر دیتے ہیںاور سارا سارا دن صفائی کرواتے رہتے ہیں۔بہت سارے غریب والدین بچوں کو کام کے لیے دور بھج دیتے ہیں جہاں ان کے ساتھ ایسا سلوک رکھا جاتاہے۔
حیدرآباد میں ۴سے ۵ سال کی عمر کے بچے مختلف کام کر رہے ہیں جسے چوڑیاں بنا رہے ہیں ۔ان چوڑیوں کے ہر بچہ روزانہ ۲۱ سیٹس بنا رہا ہے جس میں ۵۶ چوڑیاں پر سیٹ بنتی ہیں اور یہ کام ان کوایک دن میں مکمل کر کہ دینا ہوتا ہے جس کا معاوضہ ان کو تقریبا ۰۴ روپے ملتا ہے۔جو ان کی محنت کے سامنے بہت کم ہے۔ اور اس کام میں ان کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔کم عمر ہونے کی وجہ سے یہ کام ان کے لیے خاصہ مشکل ہے۔ اور یہ کام صرف حیدرآبادمیں ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سی کچی آبادی میں بڑی تعداد میں ہو رہا ہے۔
بچوں کے مزدوری کرنے کا خاتمہ اس صورت میں ہو سکتا ہے جب حکومت غریب طبقے پر توجہ دے ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے کوئی بہتر
اقدام اٹھائے اور بہت سی جگہوں پر جہاں بچوں کو زبردستی اپنے پاس رکھ کر ان پر ظلم کر رہے ہےںان کے خلاف کوئی عمل کریں۔تا کہ باقی لوگ بھی اس چیزسے خبردار رہیں کہ بچوں کو بے جا تکلیف نا دیں۔کیونکہ بچے اگر چھوٹی عمر سے کسی بھی قسم کی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں تو وہ پھر آگے جا کر بڑے جرائم میںملوث ہوجاتے ہیںجیسے چوری،قتل،دہشت گردی وغیرہ جیسے خطرناک کاموں میںپڑجاتے ہیں۔
مختلف تنظیمیں بچوں کے مزدوری کرنے کو ختم کرنے کے لئے کوشیشیں کر رہی ہیں جن میں بچوں کی تعلیم ان کا علاج مفت کیا جائے گا تا کہ ان کہ والدین کو مشکلات اور غربت کی وجہ سے بچوں کو کام کے لئے نہیںبھیجنا پڑے اور ان کی کچھ مدد بھی ہوجائے۔حکومت کچھ حد تک اقدام کر چکی ہے جس میں مفت گھر فراہم بھی کےے جا رہے ہیں۔اور فنڈز بھی مقرر کئے ہیں تا کہ لوگ غربت سے تھوڑا نقل کر اپنے بچوں کو تعلیم کی طرف مائل کر سکیں۔اور اس عمل سے بچے مزدوری سے بچ سکتے ہیں اور اپنی ذندگی کو عام بچوں کی طرح گزار سکتے ہیں۔
Referred back. Same incorrect composing issue here with ur article.
نام:فرحانہ ناغڑ
رول نمبر:24
اسائنمٹ:آرٹےکل
(کم عمر بچوں کا مزدوری کرنا)
مےڈےم:اردو
کم عمر بچوں کا مزدوری کرنا:
ہمےںاپنے ارد گرد مےںک ¿ی اےسے بچے نظر آتے ہےںجو کم عمرمےں ہی مختلف کام کررہے ہےںجو ان کی عمر سے کہی زےادہ ہےں۔ان کا موں کی وجہ سے ان کی ذہنی اور جسمانی پرےشانےوں
مےں اضافہ ہو رہا ہے۔انسانی حقوق کی تنظےموں نے بچوں کی مزدوری پے ےہ اندازہ لگاےا ہے کہ ۰۹۹۱ مےں ۱۱ ملئن بچے ملک مےں مزدوری کر رہے ہےںجن مےں سے کچھ ۰۱ سال کی عمر سے بھی کم ہےں۔تقرےبا
µ۸۱۲ ملےئن بچے۵ سے ۷۱ سال کی عمر سے ہی مزدوری کر رہے ہےں۰۴ سے ۰۵ فیصد بچے ۸۱ سال سے کم عمر مےں ہی مزدوری پر لگے ہوئے ہےں ۔اےک تہائی سے زےادہ بچے کھےتی باڑی کے کام مےں لگے ہوئے
ہےں۔دےہی علاقوں مےں بچوں کو ۵ سے ۷ سال کی عمر مےں کام پر لگاےا ہوا ہے۔سب سے زےادہ بچوں کا مزدوری کرنا اےشےن ممالک مےں نظر آتا ہے۔جہاں تقرےبا ۲۲۱ ملئن بچے کام کر رہے ہےں ۔
پاکستان مےں غربت سب سے بڑی وجہ ہے بچوں کے کام کرنے کی ۔مہنگائی کے سبب اخراجات کو برداشت کرنا مشکل کام ہو گےا ہے اےسے مےں لوگ اپنے بچوں کو کم عمر مےں ہی
ملازمت پر لگایے ہویے ہےں جن سے ان بچوں کی پرھائی بھی متاثر ہورہی ہے،کےونکہ اےک کمانے والے کے لئے گھر کے تمام افراد کا خرچہ اٹھانہ مشکل ہو گےا ہے اےسے مےں وہ بچوں کو تعلیم سے ہٹا کر محنت مزدوری
کے کاموں پر لگا دےتے ہےں۔اےک وجہ ےہ بھی ہے کہ مہنگائی تو بڑھ رہی ہے مگر لوگوں کی تنخواہوں مےں اضافہ نہےن کیا جا رہا تو اےسے مےں لوگ بہت مجبور ہو کہ اپنے بچوں کو گھر سے دور کام کرنے کے لئے بھج دےتے ہےں۔
جس عمر مےں بچوں کو تعلیم حاصل کرنی چاےیے اس عمر مےں بچے کام کر رہے ہےں۔
لوگ سمجھتے ہےں کے جو بچے مختلف دکانوں پر مختلف کام کرتے ہےں ےا اپنے اسکول کی چھٹﺅں مےں کہےں نوکری کر رہے ہےں ےہ سب مزدوری ہے لےکن ان چزوں کو ہم مزدوری کے
زمرے مےں نہےں لے سکتے ےہ کام صرف کام ہےں جو بچے اپنے فارغ وقت مےں کر رہے ہوتے ہےں۔بچوں کا مزدوری کرنا اور بچوں کا کام کرنا ےہ دو الگ باتےں ہےں۔مزدوری کرنے سے مراد ہے کہ بچوں کا چھوٹی
عمر مےں اسکول نا جانا اور لوکوں کے گھر مےں رہ کر ان کی غلامی کرنا خود سے اپنے لیے کچھ کرنے کی اجازت نہ ہونا اس طرح کے کام مزدوری مےں آتے ہےں ۔اور اس طرح کے کام کرنے والے بچوں پر اکثر لوگ
تشدد بھی کرتے ہےں اور ان کو کھانے کے لیے بھی ٹھےک طرح سے نہےں دےتے ہےں۔ان کی عمر سے زےادہ بھاری کام ان سے کرواتے ہےں حد سے زےادہ مشکل کام ان کے سر کر دےتے ہےںاور سارا سارا دن صفائی
کرواتے رےتے ہےں۔بہت سارے غرےب والدےن بچوں کو کام کے لیے دور بھج دےتے ہےں جہاں ان کے ساتھ اےسا سلوک رکھا باتا ہے۔
حےدرآباد مےں ۴سے ۵ سال کی عمر کے بچے مختلف کام کر رہے ہےں جسے چوڑےاں بنا رہے ہےں ۔ان چوڑےوں کے ہر کے بچہ روزانہ ۲۱ سےٹس بنا رہا ہے جس مےں ۵۶ چوڑےاں
پر سےٹ بنتی ہےں اور ےہ کام ان کو اےک دن مےں مکمل کر کہ دےنا ہوتا ہے جس کا معاوضہ ان کو تقرےبا ۰۴ روپے ملتا ہے۔جو ان کی محنت کے سامنے بہت کم ہے۔ اور اس کام مےں ان کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔کم عمر ہونے کی وجہ سے ےہ کام ان کے لیے خاصہ مشکل ہے۔ اور ےہ کام صرف حےدرآباد مےں ہی نہےں بلکہ اور بھی بہت سی کچی آبادی مےں بڑی تعداد مےں ہو رہا ہے۔
بچوں کے مزدوری کرنے کا خاتمہ اس صورت مےں ہو سکتا ےے جب حکومت غرےب طبقے پر توجہ دے ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے کوئی بہتر اقدام اٹھائے اور بہت سی
جگہوں پر جہاں بچوں کو زبردستی اپنے پاس رکھ کر ان پر ظلم کر رہے ہےںان کے خلاف کوئی عمل کرےں۔تا کہ باقی لوگ بھی اس چیز سے خبردار رہےں کہ بچوں کو بے جا تکلےف نا دےں۔کےونکہ بچے اگر چھوتی عمر سے
کسی بھی قسم کی زےاتی کا نشانہ بنتے ہےں تو وہ بھر آگے جا کر بڑے جرائم مےں ملوث ہوجاتے ہےں جےسے چوری،قتل،دہشت گردی وغےرہ جسے خطرناک کاموں مےں پڑجاتے ہےں۔
مختلف تنظےمےں بچوں کے مزدوری کرنے کو ختم کرنے کے لئے کوششےں کر رہی ہےں جن مےں بچوں کی تعلیم ان کے علاج مفت کےا جائے گا تا کہ ان کہ والدےن کو مشکلات
اور غربت کی وجہ سے بچوں کو کام کے لیے نہےں بھجنا پڑے اور ان کی کچھ مدد بھی ہوجائے۔حکومت کچھ حد تک اقدام کر چکی ہے جس مےں مفت گھر فراہم بھی کےے جا رہے ہےں۔اور فنڈز بھی مقرر کئے ہےں تا کہ
لوگ غربت سے تھوڑا نقل کر اپنے بچوں کو ےعلیم کی طرف مائل کر سکےں۔اور اس ومل سے بچے مزدوری سے بچ سکتے ہےں اور اپنی ذندگی کو عام بچوں کی طرح گزار سکتے ہےں۔
No comments:
Post a Comment