Tuesday, 19 January 2016

Revised back Interview of Abdul Hafeez Abid

Revised version. U did not change English words which i had to .
عبدالحفیظ عابد
انٹرویو : عدنان لاشاری

حیدرآباد کے سینئر صحافی عبدا لحفیظ عابد جنھوں نے میٹرک میاں اقبال حسین ہائی اسکول اعلٰی ثانوی اور گریجویشن ماڈل کالج میر پور خاص سے کی۔ انھوں نے میٹرک سے ہی صحافتی میدان میں قدم رکھا۔عبدا لحفیظ عابد روزنامہ اُمت اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔ اس کے علاوہ نجی شعبہ کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی ”اےن۔اےن۔آئی“(نےوز نےٹ ورک انٹر نےشنل) میں80, کے عشرے سے حیدرآباد شہر سے نمائندگی کر رہے ہیں۔آپ حیدرآباد پریس کلب کے جنرل سیکرٹری بھی
رہ چکے ہیں۔ اُمت اخبارکے لئے انویسٹیگیٹیو رپورٹنگ اور ہفتہ وار میگزین” تکبیر “کیلئے بھی لکھتے ہیں۔

سوال:آپ نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کہا ں سے کیا؟
ج:میں نے میٹرک کلاس سے ہی نوائے وقت لاہور میں کام کرنا شروع کیا۔ اُس کے بعد جسارت میںکچھ عرصے کام کیا ۔علاوہ ازیں ”زندگی“ جو کہ ہفتہ وار پرچہ نکلتا تھا اس میں کام کیا اور 1980ءسے اےن۔اےن۔آئی اور 1996ءسے اُمت اخبارحیدرآبادمیں بطور ریزیڈنٹ ایڈیٹر کام کر رہا ہوں۔

س: انویسٹیگیٹیو رپورٹنگ اوردوسری رپورٹنگ میںنمایاں فرق کیا ہے؟
ج :انویسٹیگیٹیو رپورٹنگ اور دوسری رپورٹنگ میں نمایاں فرق یہ ہے کہ انویسٹیگیٹیو رپورٹنگ میں آپ حقائق تلاش کرتے ہیں کوئی واقعہ پیش آنے کے بعد عینی شاہدین سے ملتے ہیں،واقعتی شہادت جمع کرتے ہیں یا ایسی رپورٹ جس میں ڈاکیو منٹ از حد ضروری ہیں ، اس کے لئے ڈاکیومنٹس تلاش کرتے ہیں۔اس کے علاوہ لوگوں کا نقطہ نظر بھی پیش کرتے ہیں اور اُن کے معاملات پرنظر ثانی کر کے خود بھی انویسٹی گیٹ کرتے ہیں۔

س: پاکستان میں انویسٹیگیٹیو رپورٹنگکس حد تک کی جاتی ہے؟
ج: حیدرآباد میں انویسٹیگیٹیو رپورٹنگ کا رجحان کم ہے کیونکہ اس میں محنت بھی کرنی پڑتی ہے تمام حقائق ،شہادتیں اور ڈاکیومنٹس اکھٹے کرنے ہوتے ہیںعلاوہ ازیں یہ ُپر خطر بھی ہے۔چونکہ میڈیا کاکام صرف اطلاع دینا نہیں ہے بلکہ رائے عامہ قائم کرنا ، مثبت چیزیں تلاش کرنااو ر لوگوں کی رہنمائی کرنا ہے۔قومی سطح کی انویسٹی گیٹیو رپورٹنگ کراچی سے زیادہ کی جاتی ہے چونکہ وہاں وسائل بھی زیادہ ہیں اور مسائل بھی۔
س:آپ کو تحقیقاتی صحافت کا شوق کیوں ہوا؟
ج: میرا مزاج اس طرح کا ہے کہ میں نے اب تک اُن اداروں میں کام کیا ہے جومیرا لکھا ہو ا شائع کرتے ہیں ،تنخواہوں کی پرواہ کئے بغیر اُس کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں کہ جو میں نے لکھا ہے وہ چھپ جائے جس سے میری حوصلہ افزائی ہوئی اور میں حقائق کی راہ پر گامزن ہو گیا۔اس کے برعکس سب با خوبی جانتے ہیں کہ میں انویسٹی گیٹیو رپورٹس شائع کرتا ہوں جس کی بنا پر جو رپورٹ دوسرے اخباروں میں نہیں چھپتی اُس کا حصول مجھ تک ممکن ہوجاتا ہے اس طرح لوگو ں کی مجھے رہنمائی حاصل ہوئی۔ٍ

س:نیوز ایجنسی میں خبریں کس طرح منتقل کی جاتی ہیں ؟
ج:مختلف ادوار میں خبریں حاصل کرنے کے مختلف طریقہ کار اپنائے گئے ۔پہلے خبریں فون پر لکھوانا پڑتی تھیں اس کے بعد ٹےلیگراف آفےس سے ٹےلیگرام کی جاتی تھیں پھرٹیلےکس،ٹےلی پرنٹر،فےکس ، اس کے بعدای۔مےل نے اسے اور بھی آسان کردیا۔ اب تمام خبریں میل کی جاتی ہیں۔مثلاََ اےن۔اےن۔آئی کی مثال لیں جس میں سندھ کی خبریں پہلے کراچی اور اسلام آباد جاتی ہیں جہاں خبروں کو چیک کرنے کے بعداےڈےٹ کیا جاتا ہے اور پھر ان خبروں کو لاہور ،پشاور،کوئٹہ سے کراچی کو سروس کے طور پر بھیج دی جاتی ہیں اور وہاں سے اخبارات کو میل کر دی جاتی ہیں۔

س:الیکٹرونک میڈیا نے پرنٹ میڈیا کو کس حد تک متاثر کیا ہے؟
ج:الیکٹرونک میڈیا نے اتنی زیادہ ترقی کی ہے کہ پرنٹ میڈیا میں کام کرنے والے تربیت یافتہ لوگ جو کہ بہت کم تعداد میں تھے سب نے الیکٹرونک میڈیا کا رُخ کرلیا ہے ۔ علاوہ ازیں مہنگائی کے سبب کو بھی شخص ایک سے زیادہ اخبار کی خریداری کو ترجیح نہیں دیتاجبکہ الیکٹرونک میڈیا جو کہ ہر لمحے ایک نئی چیز پیش کر دیتا ہے۔

س: قاتلانہ حملے کے بعد صحافت ترک کرنے کا خیال آیا؟
ج:مجھ پر قاتلانہ حملے کو میں نے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ میں نے عہد کرلیا تھا کہ مجھے حق اور سچ کی آواز اسی طرح بلند رکھنی ہے اور حقائق کو قوم کے سامنے لاتے رہنا ہے۔دوسری جانب صحافیوں نے بھی میرے حق میں احتجاج کیا جس سے میری ازحد حوصلہ افزائی ہوئی اور میں نے اپنے مشن کو باوقار طریقے سے دوبارہ جاری رکھا۔

س:کچھ عرصے قبل اور موجودہ رپورٹرز کن تبدیلیوں کے مرتکب ہوئے ہیں؟
ج:جرنلزم بہت اہم شعبہ ہے لیکن ہمارے یہاں تربیتی اداروں کا فقدان ہے ۔اس کے علاوہ صحافتی یونین کی زمہ داری ہے کہ وہ نئے رپورٹرز کی رہنمائی کریںچونکہ ہمارے یہاں تربیتی اداروں کی کمی ہے میں نے بھی جو کچھ سیکھا ہے وہ عملی طور پر میدان میں کام کر کے سیکھا ہے اب یونیورسٹیز وغیرہ میں شعبے بنے جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے۔

س:ماس کمیونیکیشن کے طلباکو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ج:ماس کمیونیکشن کے طلبا محنت کریںاور صرف ڈگری کے حصو ل کو اپنا مقصد نہ سمجھیںچونکہ ہر سال کئی طلبا ماس کمیونیکشن میں ڈگری حاصل کرتے ہیں لیکن اگر آپ نے اپنی اہلیت ثابت کرنی ہے تو خود کو منوانا بہت لازمی ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ آخری سال کے چھ مہینے کسی بھی ادارے کے ساتھ عملی تربیت ضرور حاصل کریںِ۔
2k14/MC/153                    
                                  عدنان لاشاری      


Referred back. Please do not use English words while writing Urdu.
At least u should have written ur name in Urdu, that is must. Referred back. write urdu words instead of English and ur name in urdu also. What abt Abid Sb foto?
Name: Adnan Ali Lashari 
Roll No: 153
عبدالحفیظ عابد
انٹرویو 

حیدرآباد کے سینئر صحافی عبدا لحفیظ عابد جنھوں نے میٹرک میاں اقبال حسین ہائی اسکول لاہور علاوہ ازیں اعلٰی ثانوی اور گریجویشن ماڈل کالج میر پور خاص سے کی۔ انھوں نے میٹرک سے ہی صحافتی میدان میں قدم رکھا۔عبدا لحفیظ عابد اُمت اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں اس کے علاوہ نجی شعبہ کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی NNI میں 80s,سے حیدرآباد شہر سے نمائندگی کر رہے ہیں۔آپ حیدرآباد پریس کلب کے جنرل سیکٹری بھی رہ چکے ہیںاس کے علاوہ اُمت اخبارکے لئے Investigative reporting اور ہفتہ وار میگزین” تکبیر “کیلئے بھی لکھتے ہیں۔ 
سوال:آپ نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کہا ں سے کیا؟
ج:میں نے میٹرک کلاس سے ہی نوائے وقت لاہور میں کام کرنا شروع کیا۔ اُس کے بعد جسارت میںکچھ عرصے کام کیا ۔علاوہ ازیں ”زندگی“ جو کہ ہفتہ وار پرچہ نکلتا تھا اس میں کام کیا اور 1980ءسے NNI اور 1996ءسے اُمت اخبارحیدرآبادمیں بطور ریزیڈنٹ ایڈیٹر کام کر رہا ہوں۔
س:Investigative reporting اوردوسری رپورٹنگ میںنمایاں فرق کیا ہے؟
ج:Investigative reporting اور دوسری رپورٹنگ میں نمایاں فرق یہ ہے کہ investigative میں آپ حقائق تلاش کرتے ہیں کوئی واقعہ پیش آنے کے بعد عینی شاہدین سے ملتے ہیں،واقعتی شہادت جمع کرتے ہیں یا ایسی رپورٹ جس میں ڈاکیو منٹ از حد ضروری ہیں ، اس کے لئے ڈاکیومنٹس تلاش کرتے ہیں۔اس کے علاوہ لوگوں کا نقطہ نظر بھی پیش کرتے ہیں اور اُن کے معاملات پرنظر ثانی کر کے خود بھی انویسٹی گیٹ کرتے ہیں۔
س: پاکستان میں Investigative reporting کس حد تک کی جاتی ہے؟
ج:ہمارے شہر حیدرآباد میں investigative reporting کا رجحان کم ہے کیونکہ اس میں محنت بھی کرنی پڑتی ہے تمام حقائق ،شہادت اور ڈاکیومنٹس اکھٹے کرنے ہوتے ہیںعلاوہ ازیں یہ ُپر خطر بھی ہے۔چونکہ میڈیا کاکام صرف اطلاع دینا نہیں ہے بلکہ رائے عامہ قائم کرنا ، مثبت چیزیں تلاش کرنااو ر لوگوں کی رہنمائی کرنا ہے۔قومی سطح کی انویسٹی گیٹیو رپورٹنگ کراچی سے زیادہ کی جاتی ہے چونکہ وہاں وسائل بھی زیادہ ہیں اور مسائل بھی۔
س:آپ کو Investigative Journalism کا شوق کیوں ہوا؟
ج:میرا مزاج اس طرح کا ہے کہ میں نے اب تک اُن اداروں میں کام کیا ہے جومیرا لکھا ہو ا شائع کرتے ہیں ،تنخواہوں کی پرواہ کئے بغیر اُس کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں کہ جو میں نے لکھا ہے وہ چھپ جائے جس سے میری حوصلہ افزائی ہوئی اور میں حقائق کی راہ پر گامزن ہو گیا۔اس کے برعکس سب با خوبی جانتے ہیں کہ میں انویسٹی گیٹیو رپورٹس شائع کرتا ہوں جس کی بنا پر جو رپورٹ دوسرے اخباروں میں نہیں چھپتی اُس کا حصول مجھ تک ممکن ہوجاتا ہے اس طرح لوگو ں کی مجھے رہنمائی حاصل ہوئی۔ٍ
س:آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اُمت اخبار دوسرے اخباروں سے کس طرح مختلف ہے؟
ج:ہمارے یہاں کوئی بھی اخبار ڈیلی میگزین نہیں دیتا جبکہ اُمت اخبار اپنے ڈیلی میگزین صفحات کی وجہ سے منفرد ہے،جس میں رو زمرہ کی بنیاد پر حالات اور واقعات کی پوری رپورٹ شائع کی جاتی ہے جو کسی بھی آرٹیکل ، انٹرویو یا تبصرہ پر مشتمل ہوتا ہے ۔
س:نیوز ایجنسی میں خبریں کس طرح منتقل کی جاتی ہیں ؟
ج:مختلف ادوار میں خبریں حاصل کرنے کے مختلف طریقہ کار اپنائے گئے ۔پہلے خبریں فون پر لکھوانا پڑتی تھیں اس کے بعدTelegraph office سے Telegram کی جاتی تھیں پھر telex ،Fax,Teleprinter,Teleprinter اس کے بعد e-mail نے اسے اور بھی آسان کردیا۔ اب تمام خبریں میل کی جاتی ہیں۔مثلاََ NNI کی مثال لیں جس میں سندھ کی خبریں پہلے کراچی اور اسلام آباد جاتی ہیں جہاں خبروں کو چیک کرنے کے بعدedit کیا جاتا ہے اور پھر ان خبروں کو لاہور ،پشاور،کوئٹہ سے کراچی کو سروس کے طور پر بھیج دی جاتی ہیں اور وہاں سے اخبارات کو میل کر دی جاتی ہیں۔
س:الیکٹرونک میڈیا نے پرنٹ میڈیا کو کس حد تک متاثر کیا ہے؟
ج:الیکٹرونک میڈیا نے اتنی زیادہ ترقی کی ہے کہ پرنٹ میڈیا میں کام کرنے والے تربیت یافتہ لوگ جو کہ بہت کم تعداد میں تھے سب نے الیکٹرونک میڈیا کا رُخ کرلیا ہے ۔ علاوہ ازیں مہنگائی کے سبب کو بھی شخص ایک سے زیادہ اخبار کی خریداری کو ترجیح نہیں دیتاجبکہ الیکٹرونک میڈیا جو کہ ہر لمحے ایک نئی چیز پیش کر دیتا ہے۔
س:اخبارات میں اشتہارات کی قیمت کا تعین کس طرح کیا جاتا ہے؟
 ج:اس کے لئے PID(پاکستان انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ)شعبہ ہے جو اخبارات کوAudit bureau of circulation) )ABC سرٹیفایڈکرتاہے۔ ABC کی بنیاد پر اشتہارات کی قیمت مقرر کی جاتی ہے جس کی زیادہ اشاعت ABCمقرر کرتا ہے اس کی زیادہ قیمت ہوگی مثلاََ نوائے وقت ،جنگ کے بہت زیادہ ریٹ ہیں۔
س: قاتلانہ حملے کے بعد صحافت ترک کرنے کا خیال آیا؟
ج:مجھ پر قاتلانہ حملے کو میں نے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا اس کے علاوہ میں نے عہد کرلیا تھا کہ مجھے حق اور سچ کی آواز اسی طرح بلند رکھنی ہے اور حقائق کو قوم کے سامنے لاتے رہنا ہے۔دوسری جانب صحافیوں نے بھی میرے حق میں احتجاج کیا جس سے میری ازحد حوصلہ افزائی ہوئی اور میں نے اپنے مشن کو باوقار طریقے سے دوبارہ جاری رکھا۔
س:کچھ عرصے قبل اور موجودہ رپورٹرز کن تبدیلیوں کے مرتکب ہوئے ہیں؟
ج:جرنلزم بہت اہم شعبہ ہے لیکن ہمارے یہاں تربیتی اداروں کا فقدان ہے ۔اس کے علاوہ صحافتی یونین کی زمہ داری ہے کہ وہ نئے رپورٹرز کی رہنمائی کریںچونکہ ہمارے یہاں تربیتی اداروں کی کمی ہے میں نے بھی جو کچھ سیکھا ہے وہ عملی طور پر میدان میں کام کر کے سیکھا ہے اب یونیورسٹیز وغیرہ میں شعبے بنے جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
س:ماس کمیونیکیشن کے طلباکو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ج:ماس کمیونیکشن کے طلبا کو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ محنت کریںاور صرف ڈگری کے حصو ل کو اپنا مقصد نہ سمجھیںچونکہ ہر سال کئی طلبا ماس کمیونیکشن میں ڈگری حاصل کرتے ہیں لیکن اگر آپ نے اپنی اہلیت ثابت کرنی ہے تو خود کو منوانا بہت لازمی ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ آخری سال کے چھ مہینے کسی بھی ادارے کے ساتھ عملی تربیت ضرور حاصل کریںِ۔
2k14/MC/153                      
                                      Adnan lashari         

No comments:

Post a Comment