Revised version but again referred back
آپ کا موضوع اور اس آرٹیکل کا مواد ایک دوسرے سے میچ نہیں کھاتے۔
آپ نے اعداد و شمار تو جمع کرلئے لیکن یہ اعداد وشمار کیسے استعمال ہوں یہ سمجھ نہیں پائے
۔ برائے مہربانی اساتذہ اور طلبہ کے آپس کے رویوں کے بارے میں لکھیں کہ ان میں کیا تبدیل آئی ہے۔
لکھنے میں کوئی پرا گرافنگ نہیں۔
آپ کو زیادہ سے زیادہ آٹھ سو الفاظ دینے ہیں ۔ لیکن آپ نے بارہ سو سے زائد دےئے پھر بھی موضوع پر نہ آئے۔
اتنا ہمارے پا س ٹائیم نہیں ک ہ ایک ایک طالب علم کی تحریر تین تین مرتبہ ٹھیک کریں۔ صرف آپ کے کاس میں ایک سو اسٹوڈنٹ ہیں۔ اور ہر ایک کو چار چار چیزیں لکھنی ہیں۔ پارٹ ٹو اور ایم اے پریوئس کے اسٹوڈنٹ اس کے علاوہ ہیں۔
آپ آﺅٹ لائن بناتے وقت اگر ہوم ورک کر لیتے اور توجہ دیتے تو نہ آپ کو اتنی زحمت ہوتی نہ مجھے۔
اب اس آرٹیکل کا فیصلہ جب شایع کریں گے اس وقت ہوگا کہ اسے مسترد کریں یا کوئی شکل دے کر شایع کریں
آرٹےکل
اساتذہ اور طلبہ کے مبینہ رویوں میں تبدیلی
عدنان لاشاری
استاد اور شاگرد کے درمیان باپ بیٹے کا رشتہ ہوتا ہے کیونکہ حقیقی باپ صرف ایک انسان کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے لیکن ایک استاد اس انسان کو حقیقی انسان بناتا ہے اسے انسان ہونے کا احساس اور اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہے،شعور دیتاہے ، اس دنیا میں آنے کا مقصد بتا تا ہے،زندگی گزرانے کے ڈھنگ سکھا تا ہے،اس کی زندگی سنوارتا ہے، اس میں اور دوسری مخلوقات کے درمیان کا فرق سمجھاتاہے یہی وجہ ہے کہ استاد کو باپ کا درجہ دیا جاتا ہے اور اسے معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔
اچھا استاد ماہر نفسیا ت بھی ہوتا ہے تو بجا ہوگا کیونکہ شاگرد کے ساتھ ایک استاد کا خیالات کا رشتہ بھی ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے شاگرد تک زمانے کے نشیب وفراز، نیکی وبد ی اور زمانے کے اندھیر ے اجالوں کے بارے میں اپنے اخلاق اور اپنے علم کے ذریعے فرق بتلاتا ہے۔
ایک وقت تھا جب شاگر د استاد کو اپنے روحانی باپ کادرجہ دیا کرتا تھا اسے اتنی ہی عزت دیتا تھا جتنی کہ ایک بیٹا اپنے باپ کودیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے زمانوں میں ایک طالبعلم ترقی وکامرانی کے وہ جھنڈے گاڑھتا تھا جسے دنیا آج تک اسے یادر کھتی ہے اس کے پس منظر میں ایسی کیا وجہ تھی جواب ہمیں نظر نہیں آتی کیا پہلے کے اساتذہ کا اندازِ تدریس آج کے اساتذہ سے زیادہ بہتر تھا ؟ یا پھر آج تعلیم کا قحط ہے یا پہلے کے طلبہ وسیع ذہن کے مالک تھے جو کہ آج نہیں ہیں؟ آج کل نئے تیکنیکی طریقوں سے تعلیم کو آراستہ کرایا جارہا ہے مگر پھر بھی ایک طا لبعلم علم کی روشنی سے کیوں دورجارہا ہے؟ کیا آج کے تعلیمی وسائل پچھلے زمانوں کے قلیل تعلیمی وسائل کے مقابلے میں اپنی وہ اہمیت بر قرارنہیں رکھ سکے یا پھرآج کا طالبعلم ایک روشن ذہن کے ساتھ جنم ہی نہیں لے رہا؟ آخر کیا وجہ ہے وقت گزرتا گیا اور یہ مثالیں کم ہوتے ہوتے بالکل ہی ختم ہوکر رہ گئی ہیں جس کے نتیجے میں نہ صر ف انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی بھی پسپائی کا شکار ہے۔
یہ بجاہے کہ استاد قوم کا معمار ہوتاہے جس کے ہاتھوں ملک وملت کے نونہال پر وان چڑھتے ہیں اور قوموں کی زندگی میں انقلاب بر پا ہوتے ہیں لیکن پرانے ادوار کے مقابلے میں آج استاد اور شاگر د کے درمیان قربت کے بجائے دوریاں ہی دوریاں پیدا ہوتی جارہی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ اساتذہ کی جانب سے طلبہ کی تربیت کانہ ہونا ۔خاص طور پر صوبہ سندھ کا تعلےمی مےدان مےں حال بہت برا ہے ۔
وزےر تعلےم نثار احمد کھوڑو نے اس بات کا اطراف کےا کہ سندھ کا تعلیمی نظام بہتری کے بجائے زبو حالی کی طرف جا رہا ہے اس کی اصل وجہ اساتذہ کا تربےت ےافتہ نہ ہونا ہے ،اس سلسلے مےں حکومتِ سندھ نے کےنےڈےن انٹرنےشنل ڈےولپمنٹ اےجےنسی کے ساتھ مل کراس سال5,000 اساتذہ کو تربےت دےنی ہے۔اےنول اسٹےٹس آف اےجوکےشن رپورٹ کے مطابق پچھلے آٹھ پرس مےں صرف 40,000اساتذہ کو تربےت دی ہے پر ےہ تسلی بخش نہےں ہےِِِ ۔ پچھلے ادوار میں استاد طالبعلم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی تر بیت پر بھی خاص توجہ دیتے تھے تاکہ جب وہ اپنی تعلیم مکمل کرے تو وہ ایک اچھا انسان اور مہذب شہری بن کرنکلے اس کے عمل و کردار سے صاف عیاں ہوکہ وہ ایک پڑھا لکھا اور مہذب انسان ہے ۔
آج جیسے جیسے تعلیمی میدان میں آسانیاں پیداہورہی ہیں ویسے ہی بہت سی مشکلات بھی جنم لے رہی ہیں جس کے سبب استاد اور طالبعلم کے رویے میں تبدیلیاں رونماہورہی ہیں۔ استاد اور طالبعلم کے رویوں میںجدید دور میں استاد کے پڑھانے کے انداز میں بھی بہتری آنی چاہیے تاکہ شاگردوں کے دلوںمیں علم حاصل کرنے کی لگن پیدا ہو۔ ادارہ تعلےم و آگاہی پروگرام کے ڈائرےکٹر کے مطابق سندھ ٹےچرز اےجوکےشن ڈےولپمنٹ اتھا رٹی (steda) اساتذہ کو بہترےن تربےت فراہم کرنے مےں کارآمد ثابت نہےں ہو رہی ۔
اےجوکےشن فار آل(ای۔اےف۔اے) کے مطابق پرائمری اسکولوں کے ٹےچرز کو بہترےن تربےت کی ضرورت ہے کےونکہ پرائمری لےول کی پڑھائی بہتر ہو گی تو خود بہ خود طالب علموں کا تعلےم حاصل کرنے کی طرف رجحان بڑھتا جائے گا اس سلسلے مےں ای۔اےف۔اے اس پر بھرپور طرےقے سے کام کر رہی ہے تاکہ 2016 مےں پرائمری اےجوکےشن کو 100% بہتر بناےا جا سکے ۔ ۔اےم۔ڈی۔جی کا حدف تھا کہ2015 مےں سندھ کی تعلےمی شرح 88 فےصد ہو پر ےہ60فےصد تک رہی جب ہی اس سال حکومت سندھ نے بجٹ مےں 739 بےلےن روپے تعلےم پر خرچ کرنے کا حکم دےا ہے ۔سندھ اےجوکےشن سےکر ےڑی ڈاکٹر فضل ا ﷲ نے لاڑکانہ مےں پرےس کلب مےں بتاےا کہ سندھ مےں 5,775 اسکولز بند پڑے ہےں اور پورے ملک مےں سب سے زےادہ سندھ مےں40,000 گھوسٹ ٹےچرز ہےں۔
یہ وہ دور نہیں جب والدین اساتذہ سے کہتے تھے کہ "کھال آپکی اور ہڈی ہماری"۔آج کل والدین اپنے بچوں کی پڑھائی پر بے بہا پیسہ خرچ کررہے ہیں تو وہ یہ چاہتے ہیں کہ انکے بچوں کو اعلیٰ معیاری تعلیم دی جائے نہ کہ استاد کے ڈر اور خوف سے اسکول جانا چھوڑ دیں۔اساتذہ اور طلبہ کے درمیان رویوں کی تبدیلی کی ایک اور اہم وجہ ہمارا دوہرا اور طبقاتی نظام تعلیم بھی ہے ۔ ہمارے ملک میں یکساں نصاب اور اس نصاب کا ہماری مادری زبان میں نہ ہونا بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے جو کہ ہمارے لئے ایک بہت بڑا لمیہ ہے ۔
ہمارے دوست ملک چےن کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے ہمارے بعد آزادی حاصل کی مگر وہ آج اےک ترقی ےافتہ ملک ہے،چےن کی اس ترقی کا راز بھی ان کے نطامِ تعلےم سے جڑا ہوا ہے۔ ایک طالب علم جو کہ سندھی یا اردو میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے وہ اپنی زندگی کے 10سال اپنی اسی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتا ہے مگر جیسے ہی وہ طالب علم کالج لیول پر پہنچتا ہے تو اسے وہاں سارا نصاب انگریزی زبان میں تھما دیا جاتا ہے جس کے باعث بہت سے طالب علم کو نصاب سمجھ میں نہ آنے کی وجہ سے پڑھائی سے جی چرانے لگ جاتے ہیں۔
ٹےچر اےنڈ لےرنےنگ ان پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اسکولوں مےں اپنی مقامی زبان مےں کورس پڑھانا چاہیئے جس مےں اردو بھی شامل ہے تاکہ 85% عوام آسانی سے پڑھ سکے اور انگرےزی زبان سمجھنے والوں کی تعداد بہت کم پائی جاتی ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز ایجوکیشنل سائینٹفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تعلیم کی شرح55ہے اور تمام ممالک کے تعلیمی میدان میں پاکستان 160نمبر پر آتا ہے ۔
اگر ہم ہمارے کالجز اور یونیورسٹیز کی کلاسز کے ماحول کا جائزہ لیں تو اکثر و بیشتر ہم دیکھتے ہیں کہ استاد کلاس مےں پڑھارہا ہے مگر طالب علم بغیر اجازت کلاس میں آجارہے ہوتے ہیں یا پھر کلاس میں مختلف سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج اساتذہ اور طلبہ کے رویوں میں بہت فرق آچکا ہے جس نے طالب علم کے دل سے استاد کی عزت نکال دی ہے۔
ہمیںاپنے معاشرے کو اس بگاڑ سے بچانے اور ترقی کیلئے اساتذہ اور طلبہ کے مابین حائل اس خلیج کو دور کرنے کیلئے والدین، اساتذہ اور طلبہ کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو اس غیر یکساں اور طبقاتی تعلیمی نظام کو بدلنا ہوگا جس سے ہم اساتذہ اور طلبہ کے مابین تیزی سے بدلتے ان منفی رویوں کو روک سکتے ہیں۔
نامِ:عدنان لاشاری
رول نمبر:2k14/MC/153
Referred back. Topic is good, but needs bit work
آپ کا موضوع اور اس آرٹیکل کا مواد ایک دوسرے سے میچ نہیں کھاتے۔
آپ نے اعداد و شمار تو جمع کرلئے لیکن یہ اعداد وشمار کیسے استعمال ہوں یہ سمجھ نہیں پائے
۔ برائے مہربانی اساتذہ اور طلبہ کے آپس کے رویوں کے بارے میں لکھیں کہ ان میں کیا تبدیل آئی ہے۔
لکھنے میں کوئی پرا گرافنگ نہیں۔
آپ کو زیادہ سے زیادہ آٹھ سو الفاظ دینے ہیں ۔ لیکن آپ نے بارہ سو سے زائد دےئے پھر بھی موضوع پر نہ آئے۔
اتنا ہمارے پا س ٹائیم نہیں ک ہ ایک ایک طالب علم کی تحریر تین تین مرتبہ ٹھیک کریں۔ صرف آپ کے کاس میں ایک سو اسٹوڈنٹ ہیں۔ اور ہر ایک کو چار چار چیزیں لکھنی ہیں۔ پارٹ ٹو اور ایم اے پریوئس کے اسٹوڈنٹ اس کے علاوہ ہیں۔
آپ آﺅٹ لائن بناتے وقت اگر ہوم ورک کر لیتے اور توجہ دیتے تو نہ آپ کو اتنی زحمت ہوتی نہ مجھے۔
اب اس آرٹیکل کا فیصلہ جب شایع کریں گے اس وقت ہوگا کہ اسے مسترد کریں یا کوئی شکل دے کر شایع کریں
آرٹےکل
اساتذہ اور طلبہ کے مبینہ رویوں میں تبدیلی
عدنان لاشاری
استاد اور شاگرد کے درمیان باپ بیٹے کا رشتہ ہوتا ہے کیونکہ حقیقی باپ صرف ایک انسان کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے لیکن ایک استاد اس انسان کو حقیقی انسان بناتا ہے اسے انسان ہونے کا احساس اور اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہے،شعور دیتاہے ، اس دنیا میں آنے کا مقصد بتا تا ہے،زندگی گزرانے کے ڈھنگ سکھا تا ہے،اس کی زندگی سنوارتا ہے، اس میں اور دوسری مخلوقات کے درمیان کا فرق سمجھاتاہے یہی وجہ ہے کہ استاد کو باپ کا درجہ دیا جاتا ہے اور اسے معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔
اچھا استاد ماہر نفسیا ت بھی ہوتا ہے تو بجا ہوگا کیونکہ شاگرد کے ساتھ ایک استاد کا خیالات کا رشتہ بھی ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے شاگرد تک زمانے کے نشیب وفراز، نیکی وبد ی اور زمانے کے اندھیر ے اجالوں کے بارے میں اپنے اخلاق اور اپنے علم کے ذریعے فرق بتلاتا ہے۔
ایک وقت تھا جب شاگر د استاد کو اپنے روحانی باپ کادرجہ دیا کرتا تھا اسے اتنی ہی عزت دیتا تھا جتنی کہ ایک بیٹا اپنے باپ کودیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے زمانوں میں ایک طالبعلم ترقی وکامرانی کے وہ جھنڈے گاڑھتا تھا جسے دنیا آج تک اسے یادر کھتی ہے اس کے پس منظر میں ایسی کیا وجہ تھی جواب ہمیں نظر نہیں آتی کیا پہلے کے اساتذہ کا اندازِ تدریس آج کے اساتذہ سے زیادہ بہتر تھا ؟ یا پھر آج تعلیم کا قحط ہے یا پہلے کے طلبہ وسیع ذہن کے مالک تھے جو کہ آج نہیں ہیں؟ آج کل نئے تیکنیکی طریقوں سے تعلیم کو آراستہ کرایا جارہا ہے مگر پھر بھی ایک طا لبعلم علم کی روشنی سے کیوں دورجارہا ہے؟ کیا آج کے تعلیمی وسائل پچھلے زمانوں کے قلیل تعلیمی وسائل کے مقابلے میں اپنی وہ اہمیت بر قرارنہیں رکھ سکے یا پھرآج کا طالبعلم ایک روشن ذہن کے ساتھ جنم ہی نہیں لے رہا؟ آخر کیا وجہ ہے وقت گزرتا گیا اور یہ مثالیں کم ہوتے ہوتے بالکل ہی ختم ہوکر رہ گئی ہیں جس کے نتیجے میں نہ صر ف انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی بھی پسپائی کا شکار ہے۔
یہ بجاہے کہ استاد قوم کا معمار ہوتاہے جس کے ہاتھوں ملک وملت کے نونہال پر وان چڑھتے ہیں اور قوموں کی زندگی میں انقلاب بر پا ہوتے ہیں لیکن پرانے ادوار کے مقابلے میں آج استاد اور شاگر د کے درمیان قربت کے بجائے دوریاں ہی دوریاں پیدا ہوتی جارہی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ اساتذہ کی جانب سے طلبہ کی تربیت کانہ ہونا ۔خاص طور پر صوبہ سندھ کا تعلےمی مےدان مےں حال بہت برا ہے ۔
وزےر تعلےم نثار احمد کھوڑو نے اس بات کا اطراف کےا کہ سندھ کا تعلیمی نظام بہتری کے بجائے زبو حالی کی طرف جا رہا ہے اس کی اصل وجہ اساتذہ کا تربےت ےافتہ نہ ہونا ہے ،اس سلسلے مےں حکومتِ سندھ نے کےنےڈےن انٹرنےشنل ڈےولپمنٹ اےجےنسی کے ساتھ مل کراس سال5,000 اساتذہ کو تربےت دےنی ہے۔اےنول اسٹےٹس آف اےجوکےشن رپورٹ کے مطابق پچھلے آٹھ پرس مےں صرف 40,000اساتذہ کو تربےت دی ہے پر ےہ تسلی بخش نہےں ہےِِِ ۔ پچھلے ادوار میں استاد طالبعلم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی تر بیت پر بھی خاص توجہ دیتے تھے تاکہ جب وہ اپنی تعلیم مکمل کرے تو وہ ایک اچھا انسان اور مہذب شہری بن کرنکلے اس کے عمل و کردار سے صاف عیاں ہوکہ وہ ایک پڑھا لکھا اور مہذب انسان ہے ۔
آج جیسے جیسے تعلیمی میدان میں آسانیاں پیداہورہی ہیں ویسے ہی بہت سی مشکلات بھی جنم لے رہی ہیں جس کے سبب استاد اور طالبعلم کے رویے میں تبدیلیاں رونماہورہی ہیں۔ استاد اور طالبعلم کے رویوں میںجدید دور میں استاد کے پڑھانے کے انداز میں بھی بہتری آنی چاہیے تاکہ شاگردوں کے دلوںمیں علم حاصل کرنے کی لگن پیدا ہو۔ ادارہ تعلےم و آگاہی پروگرام کے ڈائرےکٹر کے مطابق سندھ ٹےچرز اےجوکےشن ڈےولپمنٹ اتھا رٹی (steda) اساتذہ کو بہترےن تربےت فراہم کرنے مےں کارآمد ثابت نہےں ہو رہی ۔
اےجوکےشن فار آل(ای۔اےف۔اے) کے مطابق پرائمری اسکولوں کے ٹےچرز کو بہترےن تربےت کی ضرورت ہے کےونکہ پرائمری لےول کی پڑھائی بہتر ہو گی تو خود بہ خود طالب علموں کا تعلےم حاصل کرنے کی طرف رجحان بڑھتا جائے گا اس سلسلے مےں ای۔اےف۔اے اس پر بھرپور طرےقے سے کام کر رہی ہے تاکہ 2016 مےں پرائمری اےجوکےشن کو 100% بہتر بناےا جا سکے ۔ ۔اےم۔ڈی۔جی کا حدف تھا کہ2015 مےں سندھ کی تعلےمی شرح 88 فےصد ہو پر ےہ60فےصد تک رہی جب ہی اس سال حکومت سندھ نے بجٹ مےں 739 بےلےن روپے تعلےم پر خرچ کرنے کا حکم دےا ہے ۔سندھ اےجوکےشن سےکر ےڑی ڈاکٹر فضل ا ﷲ نے لاڑکانہ مےں پرےس کلب مےں بتاےا کہ سندھ مےں 5,775 اسکولز بند پڑے ہےں اور پورے ملک مےں سب سے زےادہ سندھ مےں40,000 گھوسٹ ٹےچرز ہےں۔
یہ وہ دور نہیں جب والدین اساتذہ سے کہتے تھے کہ "کھال آپکی اور ہڈی ہماری"۔آج کل والدین اپنے بچوں کی پڑھائی پر بے بہا پیسہ خرچ کررہے ہیں تو وہ یہ چاہتے ہیں کہ انکے بچوں کو اعلیٰ معیاری تعلیم دی جائے نہ کہ استاد کے ڈر اور خوف سے اسکول جانا چھوڑ دیں۔اساتذہ اور طلبہ کے درمیان رویوں کی تبدیلی کی ایک اور اہم وجہ ہمارا دوہرا اور طبقاتی نظام تعلیم بھی ہے ۔ ہمارے ملک میں یکساں نصاب اور اس نصاب کا ہماری مادری زبان میں نہ ہونا بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے جو کہ ہمارے لئے ایک بہت بڑا لمیہ ہے ۔
ہمارے دوست ملک چےن کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے ہمارے بعد آزادی حاصل کی مگر وہ آج اےک ترقی ےافتہ ملک ہے،چےن کی اس ترقی کا راز بھی ان کے نطامِ تعلےم سے جڑا ہوا ہے۔ ایک طالب علم جو کہ سندھی یا اردو میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے وہ اپنی زندگی کے 10سال اپنی اسی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتا ہے مگر جیسے ہی وہ طالب علم کالج لیول پر پہنچتا ہے تو اسے وہاں سارا نصاب انگریزی زبان میں تھما دیا جاتا ہے جس کے باعث بہت سے طالب علم کو نصاب سمجھ میں نہ آنے کی وجہ سے پڑھائی سے جی چرانے لگ جاتے ہیں۔
ٹےچر اےنڈ لےرنےنگ ان پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اسکولوں مےں اپنی مقامی زبان مےں کورس پڑھانا چاہیئے جس مےں اردو بھی شامل ہے تاکہ 85% عوام آسانی سے پڑھ سکے اور انگرےزی زبان سمجھنے والوں کی تعداد بہت کم پائی جاتی ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز ایجوکیشنل سائینٹفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تعلیم کی شرح55ہے اور تمام ممالک کے تعلیمی میدان میں پاکستان 160نمبر پر آتا ہے ۔
اگر ہم ہمارے کالجز اور یونیورسٹیز کی کلاسز کے ماحول کا جائزہ لیں تو اکثر و بیشتر ہم دیکھتے ہیں کہ استاد کلاس مےں پڑھارہا ہے مگر طالب علم بغیر اجازت کلاس میں آجارہے ہوتے ہیں یا پھر کلاس میں مختلف سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج اساتذہ اور طلبہ کے رویوں میں بہت فرق آچکا ہے جس نے طالب علم کے دل سے استاد کی عزت نکال دی ہے۔
ہمیںاپنے معاشرے کو اس بگاڑ سے بچانے اور ترقی کیلئے اساتذہ اور طلبہ کے مابین حائل اس خلیج کو دور کرنے کیلئے والدین، اساتذہ اور طلبہ کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو اس غیر یکساں اور طبقاتی تعلیمی نظام کو بدلنا ہوگا جس سے ہم اساتذہ اور طلبہ کے مابین تیزی سے بدلتے ان منفی رویوں کو روک سکتے ہیں۔
نامِ:عدنان لاشاری
رول نمبر:2k14/MC/153
اپنے موضوع کے حساب سے کچھ اعداد و شمار کچھ ماہرین کی رائے بھی تو لکھیں۔
کچھ رپورٹس، ریسرچ رپورٹس بھی ہوتی ہیں۔ خود سندھ یونیورسٹی کی ایجوکیشن فیکلٹی میں اس بارے میں تحقیق ہوتی ہے۔
اس میں آپ نے اپنے محسوسات یا پھر ”لوگ “ کہتے ہیں کہ اپروچ رکھا ہے۔
اس کو ٹھیک سے آرٹیکل کی شکل دیں۔
جس زبان میں لکھتے ہو اس زبان میں اپنانام بھی لکھنا ضروری ہوتا ہے
یہاں پر آپ کا نام ہم نے لکھا ہے۔
Name: Adnan Ali Lashari
Roll No. 153
Artical
﴿اساتذہ اور طلبہ کے مبینہ رویوں میں تبدیلی﴾
عدنان علی لاشاری
اپنے موضوع کے حساب سے کچھ اعداد و شمار کچھ ماہرین کی رائے بھی تو لکھیں۔ کچھ رپورٹس، ریسرچ رپورٹس بھی ہوتی ہیں۔ خود سندھ یونیورسٹی کی ایجوکیشن فیکلٹی میں اس بارے میں تحقیق ہوتی ہے۔ اس میں آپ نے اپنے ممحسوسات یا پھر ”لوگ “ کہتے ہیں کہ اپروچ رکھا ہے۔ اس کو ٹھیک سے آرٹیکل کی شکل دیں۔
جس زبان میں لکھتے ہو اس زبان میں اپنانام بھی لکھنا ضروری ہوتا ہے
استاد اور شاگرد کے درمیان باپ بیٹے کا رشتہ ہوتا ہے کیونکہ حقیقی باپ صرف ایک انسان کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے لیکن ایک استاد اس انسان کو حقیقی انسان بناتا ہے اسے انسان ہونے کا احساس اور اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہے،شعور دیتاہے ، اسے اس کے اس دنیا میں آنے کا مقصد بتا تا ہے،زندگی گزرانے کے ڈھنگ سکھا تا ہے،اس کی زندگی سنوارتا ہے، اس میں اور دوسری مخلوقات کے درمیان کا فرق سمجھاتاہے یہی وجہ ہے کہ استاد کو باپ کا درجہ دیا جاتا ہے اور اسے معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔معاشر ے میں قدر کی نگا ہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اچھا استاد ماہر نفسیا ت بھی ہوتا ہے تو بجا ہوگا کیونکہ شاگرد کے ساتھ ایک استاد کا خیالات کا رشتہ بھی ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے شاگرد تک زمانے کے نشیب وفراز، نیکی وبد ی اور زمانے کے اندھیر ے اجالوں کے بارے میں اپنے اخلاق اور اپنے علم کے ذریے فرق بتلاتا ہے، ایک وقت تھا جب شاگر د استاد کو اپنے روحانی باپ کادرجہ دیا کرتا تھا اسے اتنی ہی عزت دیتا تھا جتنی کہ ایک بیٹا اپنے باپ کودیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے زمانوں میں ایک طالبعلم ترقی وکامرانی کے وہ جھنڈے گاڑھتا تھا جسے دنیا آج تک اسے یادر کھتی ہے اس کے پس منظر میں ایسی کیا وجہ تھی جواب ہمیں نظر نہیں آتی کیا پہلے کے اساتذہ کا اندازِ تدریس آج کے اساتذہ سے زیادہ بہتر تھا ؟ یا پھر آج تعلیم کا قحط ہے یا پہلے کے طلبہ وسیع ذہن کے مالک تھے جو کہ آج نہیں ہیں؟ آج کل نئے تیکنیکی طریقوں سے تعلیم کو آراستہ کرایا جارہا ہے مگر پھر بھی ایک طا لبعلم علم کی روشنی سے کیوں دورجارہا ہے؟ کیا آج کے تعلیمی وسائل پچھلے زمانوں کے قلیل تعلیمی وسائل کے مقابلے میں اپنی وہ اہمیت بر قرارنہیں رکھ سکے یا پھرآج کا طالبعلم ایک روشن ذہن کے ساتھ جنم ہی نہیں لے رہا؟ آخر کیا وجہ ہے؟کے ساتھ جنم ہی نہیں لے رہا؟ آخر کیا وجہ ہے؟ وقت گزرتا گیا اور یہ مثالیں کم ہوتے ہوتے بالکل ہی ختم ہوکر رہ گئی ہیں جس کے نتیجے میں نہ صر ف انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی بھی پسپائی کا شکار ہے۔ یہ بجاہے کہ استاد قوم کا معمار ہوتاہے جس کے ہاتھوں ملک وملت کے نونہال پر وان چڑھتے ہیں اور قوموں کی زندگی میں انقلاب بر پا ہوتے ہیں لیکن پرانے ادوار کے مقابلے میں آج استاد اور شاگر د کے درمیان قربت کے بجائے دوریاں ہی دوریاں پیدا ہوتی جارہی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ اساتذہ کی جانب سے طلبہ کی تربیت کانہ ہونا پچھلے ادوار میں استاد طالبعلم کی تعلییم کے ساتھ ساتھ اس کی تر بیت پر بھی خاص توجہ دیتے تھے تاکہ جب وہ اپنی تعلیم مکمل کرے تو وہ ایک اچھا انسان اور مہذب شہری بن کرنکلے اس کے عمل و کردار سے صاف عیاں ہوکر وہ ایک پڑھا لکھا اور مہذب انسان ہے مگر آج جیسے جیسے تعلیمی میدان میں آسانیاں پیداہورہی ہیں ویسے ہی بہت سی مشکلات بھی جنم لے رہی ہیں جس کے سبب استاد اور طالبعلم کے رویے میں تبدیلیاں رونماہورہی ہیں۔ استاد اور طالبعلم کے رویوں میںجدید دور میں استاد کے پڑھانے کے انداز میں بھی بہتری آنی چاہیے تاکہ شاگردوں کے دلوںمیں علم حاصل کرنے کی لگن پیدا ہو۔ یہ وہ دور نہیں جب والدین اساتذہ سے کہتے تھے کہ "کھال آپکی اور ہڈی ہماری"آج کل والدین اپنے بچوں کی پڑھائی پر بے بہا پیسہ خرچ کررہے ہیں تو وہ یہ چاہتے ہیں کہ انکے بچوں کو اعلیٰ معیاری تعلیم دی جائے نہ کہ استاد کے ڈر اور خوف سے اسکول جانا چھوڑ دیں 22جون2015ءکو پنجاب کا ضلع چکوال کے ایک گاﺅں پنوال کے گورنمنٹ گرلز ایلمینٹری اسکول میں حساب سے استاد نے 14طلباءکو ٹیسٹ یاد نہ ہونے پر ایسی سخت سزا دی کہ انکے چہروں پر سیاہی لگا کر پورے اسکول میں گھمایا جب اساتذہ ایسی سزائیں دیں گے تو کونسا شاگرد اسکول جانے پر آمادہ ہوگا۔
اساتذہ اور طلبہ کے درمیان رویوں کی تبدیلی کی ایک اور اہم وجہ ہمارا دوہرا اور طبقاتی نظام تعلیم بھی ہے ۔ ہمارے ملک میں یکساں نصاب اور اس نصاب کا ہماری مادری زبان میں نہ ہونا بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے جو کہ ہمارے لئے ایک بہت بڑا لمیہ ہے ۔ ایک طالب علم جو کہ سندھی یا اردو میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے وہ اپنی زندگی کے 10سال اپنی اسی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتا ہے مگر جیسے ہی وہ طالب علم کالج لیول پر پہنچتا ہے تو اسے وہاں سارا نصاب انگریزی زبان میں تھما دیا جاتا ہے جس کے باعث بہت سے طالب علم کو نصاب سمجھ میں نہ آنے کی وجہ سے پڑھائی سے جی چرانے لگ جاتے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز ایجوکیشنل سائینٹفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تعلیم کی شرح55ہے اور تمام ممالک کے تعلیمی میدان میں پاکستان 160نمبر پر آتا ہے ۔ اگر ہم ہمارے کالجز اور یونیورسٹیز کی کلاسز کے ماحول کو جائزہ لیں تو اکثر و بیشتر ہم دیکھتے ہیں کہ استاد کلاس میں پڑھارہا ہے مگر طالب علم بغیر اجازت کلاس میں آجارہے ہوتے ہیں یا پھر کلاس میں مختلف سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج اساتذہ اور طلبہ کے رویوں میں بہت فرق آچکا ہے جس نے طالب علم کے دل سے استاد کی عزت نکال دی ہے۔
ہمیںاپنے معاشرے کو اس بگاڑ سے بچالے اور ترقی کیلئے اساتذہ اور طلبہ کے مابین حائل اس خلیج کو دور کرنے کیلئے والدین، اساتذہ اور طلبہ کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو اس غیر یکساں اور طبقاتی تعلیمی نظام کو بدلنا ہوگا جس سے ہم اساتذہ اور طلبہ کے مابین تیزی سے بدلتے ان منفی رویوں کو روک سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment